• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے بروقت انعقاد میں ناکام ہو چکی ہیں اور اُنہوں نے شعوری طور پر بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور الیکشن کمیشن اور چاروں صوبوں سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک ہفتے کے اندر رپورٹ طلب کر لی ہے۔ اِسکا مطلب یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھی بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی ماضی کی سیاسی حکومتوں کی روایت برقرار رکھی ہے اور آئندہ جو بھی بلدیاتی انتخابات ہوں گے، وہ عدلیہ کے حکم پر مجبوری میں کرائے جائیں گے۔ سیاسی اور جمہوری حکومتیں آخر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے کیوں کتراتی ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا اگر درست جواب تلاش نہ کیا گیا تو پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے حق میں دیے گئے دلائل کمزور پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ آمروں نے بلدیاتی انتخابات کرائے لیکن صوبوں اور مرکز میں جمہوری حکومتوں کے قیام کے لئے عام انتخابات کا انعقاد نہیں کیا گیا۔ آمروں کے برعکس جمہوری اور سیاسی قوتوں نے عام انتخابات کی حمایت کی اور اُنکے انعقاد کے لئے تحریکیں چلائیں لیکن جب وہ خود برسراقتدار آئیں تو اُنہوں نے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں کیا یا اُن کے انعقاد سے اُس وقت تک گریزاں رہیں، جب تک عدلیہ نے انہیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے مجبور نہیں کیا۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اگلے روز ایڈمنسٹریٹر میونسپل کارپوریشن پشاور کی متعدد درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ ریمارکس دیے کہ ’’غیرمقبول حکومتیں ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتیں۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں، جہاں سیاسی قیادت کی نشو ونما ہوتی ہے‘‘۔ سیاسی قوتیں آمرانہ حکومتوں کو غیرمقبول اور اپنے آپ کو مقبول تصور کرتی ہیں کیونکہ وہ عوامی ووٹ سے منتخب ہو کر آتی ہیں لیکن سپریم کورٹ نے ایسی سیاسی حکومتوں کو غیرمقبول قرار دیا ہے اور دوسرے الفاظ میں آمرانہ حکومتیں مقبول ہیں، جو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کراتی ہیں۔ میں اِس سے اتفاق کرتا ہوں۔ جو سیاسی حکومتیں عوامی مینڈیٹ سے برسر اقتدار آتی ہیں، انہیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے کیا خوف ہے؟ وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومتوں پر بلدیاتی انتخابات وقت پر نہ کرانے کے حوالے سے زبردست تنقید کرتے رہے ہیں اور انہوں نے بار ہا قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر نہ صرف بلدیاتی انتخابات کرائیں گے بلکہ قانون میں ترامیم کرکے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنائیں گے لیکن بقول کسے ’’وہ وعدہ ہی کیا، جو وفا ہو گیا‘‘۔ عمران خان بھی سابقہ جمہوری اور سیاسی حکومتوں کی روش پر چل پڑے۔ اُنہوں نے بھی پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے، جہاں ان کی حکومتیں ہیں۔ اس سے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بھی بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا موقع میسر آ گیا۔

یہ درست ہے کہ آمروں نے عام انتخابات نہ کرا کے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے بنیادی دھارے کی سیاسی قوتوں کو غیرمؤثر کرنے اور ’’غیرسیاسی‘‘ قیادت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اِس سے سیاسی اور جمہوری قوتیں بلدیاتی انتخابات سے متنفر ہوئیں۔ ایوب خان کا بنیادی جمہوریتوں کے نظام کا قانون، ضیاء الحق کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1979ءاور جنرل مشرف کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2003ءایسے قوانین تھے، جن کا بنیادی مقصد اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم تھا لیکن اُن کے جوہر میں ایک مشترکہ بدنیتی تھی کہ نہ صرف بنیادی دھارے کی سیاسی قیادت کو ختم کیا جائے بلکہ پاکستان کا وفاقی جمہوری ڈھانچہ بھی تبدیل کر دیا جائے، جس کے ذریعے وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کا وجود ختم ہو جائے اور خاص طور پر پاکستان کی قوموں کا وہ سیاسی جوہر بھی ختم ہو جائے، جس کی بنیاد پر انہوں نے وفاق میں ضم ہونے پر رضا مندی ظاہر کی مگر اب وقت تبدیل ہو چکا ہے۔ سیاسی قوتوں کواب اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بلدیاتی اداروں کو ہتھیارکے طور پر استعمال کرنے کے خوف سے باہر نکل آنا چاہئے۔ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ خان کے بعد سیاسی حکومتوں کو صرف ساڑھے 6سال کا وقفہ ملا یعنی 1970سے 1977تک۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور انہوں نے بھی جنرل ایوب خان کی طرح بنیادی سیاسی قوتوں کے خلاف بلدیاتی انتخابات سے نئی قیادت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد سیاسی قوتوں کو 1988سے 1999تک سیاسی وقفہ ملا۔ پھر 1999میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ 2002میں ’’غیرسیاسی‘‘ قیادت کی منتخب حکومت قائم کی اور 2003میں بلدیاتی ایکٹ کے تحت نئی سیاسی قیادت کی پرورش شروع کر دی۔ میرے خیال میں اب یہ کھیل ختم ہو گیا ہے۔ سیاسی حکومتوں کا وقفہ 14ویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ طویل ترین وقفہ ہے۔ غیرسیاسی قیادت بھی سیاسی بن چکی ہے۔ اب سیاسی قوتوں کو بلدیاتی انتخابات سے نہیں گھبرانا چاہئے بلکہ اس نرسری سے حقیقی سیاسی قیادت پیدا کرنی چاہئے اور سپریم کورٹ کے احکامات سے پہلے ہی بلدیاتی انتخابات کا اعلان کر دینا چاہئے۔

نہ صرف بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں بلکہ بلدیاتی اداروں کو با اختیار بھی بنایا جائے۔ بےاختیار بلدیاتی اداروں اور میئر کا انتخاب ڈائریکٹ نہ ہونے کے باعث ہمارے شہروں میں معیارِ زندگی بدتر ہواہے،پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ سیاسی قوتوں کو یہ موقع مل رہا ہے کہ بلدیاتی ادارے کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہو رہے۔ حقیقی سیاسی قیادت کی نشوونما کے لئے یہ ایک بہترین موقع ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی عدالت کے حکم سے پہلے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دینا چاہئے۔

تازہ ترین