• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

12مارچ2018کے دن سینیٹ میں مہمانوں کے لئے مختص گیلری ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ان نعروں کا سبب سلیم مانڈوی والا کا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہونا نہیں تھا بلکہ سیاست کے بے تاج بادشاہ آصف زرداری نے دھوبی پٹرا لگا کر مسلم لیگ (ن)کو نیچے پٹخ دیا تھا۔کُشتی تو کسی اور سے تھی مگر آصف زرداری نے اپنا حساب کتاب پورا کرنے کےلئے موقع غنیمت جانا اور یوں بظاہر آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اُترنے والے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے۔ حالات نے رُخ بدلا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)سمیت اپوزیشن جماعتوںنے ایکا کرلیا۔ وہی آصف زرداری جنہوں نے سنجرانی کو یہ دنگل جتوانے میں کلیدی کردار اداکیا تھا ،اب انہوں نے پہلوان تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی اور حکومتی ارکان نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔مسلم لیگ(ن)کی عددی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی متفقہ امیدوار نامزد کرنے پر تیار ہوگئی۔ نوازشریف نے اچھی چال چلی اور بلوچ چیئرمین سینیٹ کے مقابلے میں حاصل بزنجو کو امیدوار نامزد کردیا۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے 53ووٹ درکار تھے۔عشائیے میں کھانے کی میز پر اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 64سینیٹرز نے شرکت کی۔ یکم اگست 2019کو تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے عدم اعتماد کے حق میں قرار داد پیش کی گئی تو 64سینیٹرز نے کھڑے ہو کر اس کی حمایت کی۔ لیکن کچھ دیر بعد ووٹنگ ہوئی تو خفیہ رائے دہی میں 14سینیٹرز چکمہ دے گئے اور اپوزیشن صرف 50ووٹ حاصل کرسکی۔ گویا اپوزیشن 50ووٹ لے کر ہار گئی اور سنجرانی45ووٹ لے کر جیت گئے۔مجھےیہ باتیں اس لئے یاد آرہی ہیں کہ اپوزیشن ایک بارپھر کوئے یار میں جانے اور نئی ہزیمت پانے کو بیتاب دکھائی دے رہی ہے۔ان ہائوس تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں۔

پیپلز پارٹی بضد ہے کہ مقتدر حلقوں کی تائید و حمایت حاصل کرکے عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے اور پھر کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر ایک قومی حکومت بنائی جائے۔مسلم لیگ(ن)،جے یو آئی(ف)اور اے این پی کے پاس کھونے کو کچھ نہیں اس لئے وہ مفاہمت کے بجائے مزاحمت کی طرف مائل ہیں۔

پیپلز پارٹی کا استدلال یہ ہے کہ کسی حکومت کو گرانے کے دو ہی طریقے ہیں ،ایک یہ کہ عوامی احتجاج کے نتیجے میں وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا جائے اور دوسرا یہ کہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں امپائر انگلی اُٹھا کر اسے گھر بھیج دے۔فی الحال ان دونوں میں سے کوئی آپشن قابلِ عمل نہیں۔ تیسرا راستہ مارشل لا کا ہے جبکہ چوتھا راستہ ان ہائوس تبدیلی کی طرف جاتا ہے۔جس طرح مشرف کو مواخذے کی دھمکی دیتے وقت سب اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا تھا،ویسے ہی اب بھی سب کو باہر جانے کا راستہ دیکر مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔تین بڑے کھلاڑیوں میں سے ایک کو عدم اعتماد کے ذریعے ناک آئوٹ کردیا جائے اور باقی دو کو اننگز پوری کرنے کی یقین دہانی کروادی جائے تو آئندہ عام انتخابات تک سیاسی استحکام کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔دوسری طرف مسلم لیگ (ن)اور جے یو آئی (ف)کی قیادت کسی سمجھوتے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ایسی صورت میں ان کی سیاست کو نقصان پہنچے گا۔ اگر فوری طور پر انتخابات نہیں ہوتے تو لامحالہ اس سے بھی دونوں جماعتوں کو دھچکہ لگے گا۔ان خدشات کے علاوہ سب سے زیادہ تحفظات اس حوالے سے ظاہر کئےجا رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تبدیلی لانا تقریباً ناممکن ہے۔ پاکستان میں عدم اعتماد کی بیشتر تحاریک ناکامی سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔وزیراعظم جونیجو کے دور میںجب نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو پرویز الہٰی نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ان کا پتہ صاف کرنے کی کوشش کی مگر اس کے نتیجے میں نوازشریف کا ’’کِلہ‘‘مزید مضبوط ہوگیا۔جب بینظیر بھٹو پہلی باروزیراعظم بنیں تو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ ہوامگر عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے بینظیر کو گھر نہ بھیجا جاسکا۔عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن نے نمبر پورے کرنے ہوتے ہیں جبکہ حکومت کے پاس ارکان اسمبلی کو نوازنے کے لئےبے پناہ آپشنز موجود ہوتے ہیں۔اس لئے یہ تاثر درست نہیں کہ مقتدر حلقے ساتھ ہوں تو ان ہائوس تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔عدم اعتماد کی دو تحاریک ایسی ہیں جن کا اس موقع پر ذکرکئے بغیر بات مکمل نہیں ہوسکتی۔1985 کے عام انتخابات کے بعد ضیاءالحق خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر کو قومی اسمبلی کا اسپیکر بنوانا چاہتے تھے مگر موجودہ وفاقی وزیر فخر امام غیر متوقع طور پر انہیںشکست دیکر اسپیکر منتخب ہوگئے۔ضیاءالحق کو اس بات کا ازحد رنج تھا اس لئے کچھ عرصہ بعد ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی جو کامیاب رہی ، فخر امام فارغ ہوگئے اور ان کی جگہ حامد ناصر چٹھہ کو قومی اسمبلی کا اسپیکر چن لیا گیا۔دوسری تحریک کا تعلق ’’ایک زرداری سب پہ بھاری ‘‘کے شہرہ آفاق نعرے سے ہے۔جنوری 2018کا مہینہ ہے، سینیٹ انتخابات سر پر ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاتی ہے اور وہ سامنا کئے بغیر مستعفی ہوجاتے ہیں۔دیکھئے اس بار کیا ہوتا ہے۔زرداری صاحب کے کان میں تو پھونک ماردی گئی ہے:

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیضؔ

اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

تازہ ترین