• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہاں تبدیلی آئی بھی ہے اور نہیں بھی آئی۔ جذبات اور وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سوچیں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ آپ نہ جانے کس انقلاب کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ جس انقلاب کی راہ آپ دیکھ رہے ہیں اس کے لئے راستہ ہموار ہو رہا ہے اور اُسے ابھی آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ فی الحال ہماری روائتی اور موروثی سیاست، مفادات کا کھیل اور اسٹیبلشمنٹ اس انقلاب کا راستہ روکنے کے لئے مختلف ترکیبیں آزما رہی ہیں اور لوگ غیر مرئی ہاتھوں کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے سادہ لوح مخلص عوام جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ قومی سطح پر ذہنی بلوغت اور پختگی کئی دہائیوں کے آزادانہ انتخابات کے بعد حاصل ہوتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں ابھی تک آزدانہ اور منصفانہ انتخابات شکوک اور کنفیوژن میں لپٹے ہوئے ہیں۔ میں جماعت اسلامی کے پروفیسر منور حسن سے کبھی نہیں ملا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ وہ ایک ذمہ دار اور سچے انسان ہیں، وہ ہوائی باتیں کرنے کے عادی نہیں۔ اُن کا بدھ کے اخبارات میں چھپنے والا بیان پڑھ لیجئے۔ معتبر صحافی عامر متین نے بھی اپنے تجزیئے میں کچھ ایسی ہی باتیں لکھی ہیں ۔
فی الحال تو میں کچھ باتوں سے محظوظ ہو رہا ہوں جن میں آپ کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے کالم نگار ماشاء اللہ جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے گزشتہ کئی روز سے میاں نواز شریف کو درپیش مسائل پر کالموں کے انبار لگا رہے ہیں۔ ہر کالم کا آغاز اس تمہید سے ہوتا ہے کہ نئی حکومت کو ان مسائل کا سامنا ہو گا۔ میں انہیں پڑھتے ہوئے مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ پاکستان کے مسائل تو لوگوں کو ازبر ہیں۔ کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو جماعت اس ملک پر تیس برس حکمرانی کر چکی ہے اور جس نے اپنے تھنک ٹینکس بنا رکھے ہیں وہ ان مسائل سے واقف نہیں۔ دوسری بات جس سے میں محظوظ ہوتا ہوں وہ ہے امریکہ کی پاکستان کو پہلی سلامی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین ڈرون حملوں کو بند کروانے کی یقین دہانی مسلسل کرواتے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے انتخابات جیت کر بیان دیا کہ اس مسئلے پر امریکہ سے بات کی جائے گی۔ ابھی ان کے بیان کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ جواب آ گیا۔ ”ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے۔ ہم اپنے دشمنوں پر حملوں کا تعین خود کریں گے“۔ افغانستان سے انخلاء کے لئے امریکہ کو نئی حکومت کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت اور فوج کا طالبان سے گفتگو کرنے کا ایجنڈا متفقہ ہے تو امریکہ نرم رویہ اختیار کرے گا لیکن وقتی طور پر۔ ضرورت پوری ہونے کے بعد امریکہ اپنی پالیسی جاری رکھے گا اور ہم بدستور پہلی تنخواہ پر نوکری کرتے رہیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک جیالے کارکن انتخابی مہم کے دوران ڈرون حملے بند کرنے کی بڑھکیں مارا کرتے تھے۔اسمبلی کارکن منتخب ہونے کے بعد ان کا بیان چھپا ہے کہ ڈرون حملے بند ہو سکتے ہیں لیکن اس کی سزا پوری قوم کو برداشت کرنا ہو گی۔ میں نے قوم کے نام ان کی دھمکی پڑھی تو کہے بغیر نہ رہ سکا ”ہور چوپو“۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ میاں نواز شریف کی حسِ مزاح بہت تیز ہے۔ وہ انتخابی مہم میں بار بار اعلان کرتے تھے کہ لوڈ شیڈنگ نے آپ کی مت مار دی ہے۔ ہم لوڈ شیڈنگ کی مت مار دیں گے۔ میاں شہباز شریف تو لوڈ شیڈنگ کبھی نوے دنوں اور کبھی نو ماہ میں ختم کرنے کی نوید سناتے تھے۔ اب مسلم لیگ (ن) کی قیادت کہہ رہی ہے کہ جنگی بنیادوں پر کام کر کے لوگوں کو تھوڑا سا ریلیف دیں گے لیکن مسئلہ حل کرنے میں وقت لگے گا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ گزشتہ حکومتوں کی نااہلی کا تدارک دنوں میں نہیں کیا جا سکتا لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود خواب دکھانا ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ عمران خان نے بھی کچھ خواب دکھائے تھے۔ اگر خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو اُن کے خوابوں کا راز بھی فاش ہو جائے گا۔ فی الحال خان صاحب کی صحت یابی اور درازی عمر کے لئے دعا کریں کہ مجھے مستقبل میں اُن کا ”رول“ یعنی کردار بہت اہم نظر آتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں ایک مضبوط حکومت اور اس کے مقابلے میں ایک مضبوط اپوزیشن معرض وجود میں آئے گی۔ ہماری تاریخ میں ایسا کم کم ہوا ہے۔ اسمبلیوں میں نشستوں کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ ان تفصیلات سے آگاہ ہیں۔ جب اپوزیشن مضبوط ہو، پڑھے لکھے اور تجربہ کار پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل ہو تو حکومت کو کارکردگی بھی دکھانی پڑتی ہے اور محتاط بھی رہنا پڑتا ہے۔ اگر حکومت ہیوی مینڈیٹ لے کر اقتدار پر پوری طرح چھا جائے اور اپوزیشن کو بہت زیادہ کمزور کر دے تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہم 1997 سے 1999 تک اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔
میرا کیا ہے، دوستو میں تو اُس ”شام غریباں“ کو بھی یاد کر کے مسکرانے لگتا ہوں جو گزشتہ دو ماہ ہمارے اخبارات کے صفحات میں برپا رہی۔ شور بپا تھا کہ تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے میدان میں اتاری گئی ہے اور اس کے پس پردہ زرداری صاحب کا ہاتھ ہے۔ جب ہم عرض کرتے تھے کہ تحریک انصاف ہماری سیاست میں ایک نیا فیکٹر (FECTOR) ہے جس نے سیاسی حوالے سے مقابلتاً بے تعلق اور سرد مہر طبقوں کو متحرک کیا ہے اور نوجوانوں کو تبدیلی کا ایجنٹ بنا کر میدان میں اتارا ہے اسلئے تحریک انصاف پی پی پی اور مسلم لیگ سمیت سب کے ووٹ بینک سے اپنا ووٹ بینک تشکیل دیگی تو ہمارے مہربان ہماری فریاد کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ اب رزلٹ دیکھ لیجئے اور پارٹیوں کے حاصل کردہ ووٹ دیکھ لیجئے۔ تحریک انصاف نے سب سے زیادہ پی پی پی کو متاثر کیا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ پی پی پی حکومت کی تکلیف دہ کارکردگی بھی ہے۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ تبدیلی آئی بھی ہے اور نہیں بھی… ایک ممتاز برطانوی مورخ اور محقق کی کتاب کا نام Political Inheritance Of Pakistan پنجاب کے حوالے سے فیوڈل ازم پر تحقیق کر کے مصنف نے لکھاہے کہ جب 1849ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا تو اس وقت پنجاب میں 125 فیوڈل خاندان تھے جن میں سے 62 نے انگریزوں کا ساتھ دیا اور 63 نے سکھوں کا ساتھ دیا۔ اس تقسیم کی بنیادی وجہ مقامی سیاست اور دھڑے بندی تھی۔ جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا تو اقتدار میں شریک ہونے کیلئے وفاداری کا مقابلہ شروع ہو گیا اور سارے فیوڈل لارڈز انگریزوں کی گود میں بیٹھ گئے۔ 1857ء میں جنگ آزادی کی ناکامی ان خاندانوں کی انگریزوں کیلئے خدمات کی مرہون منت تھی۔ سندھ اور پنجاب کے تقریباً دو سو جاگیردار خاندان ہمیشہ سیاست اور اقتدار میں شامل رہے ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں منتخب ہونے والے تقریباً 124 اراکین کا تعلق بھی انہی خاندانوں سے ہے اور ان کی زیادہ تعداد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس لحاظ سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایسی بات نہیں بہت سے نئے اور پڑھے لکھے چہرے روایتی سیاست کے بندھن کو توڑ کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ اس بار ان کی تعداد کم ہے، آئندہ بڑھ جائے گی۔ تفصیلی تجزیہ پھر کبھی کرونگا فی الوقت آپ نوٹ فرمائیں کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 65 لاکھ ووٹ حاصل کئے جبکہ تحریک انصاف دوسرے نمبر پر رہی۔ اس نے 76 لاکھ 69 ہزار ووٹ حاصل کئے، پی پی پی نے 68 لاکھ 55 ہزار ووٹ حاصل کئے اور ایم کیو ایم نے تقریباً 19 لاکھ ووٹ سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ گویا مسلم لیگ (ن) کی مخالف قوتوں تحریک انصاف، پی پی پی اور متحدہ کے ووٹوں کی تعداد مسلم لیگ (ن) سے زیادہ ہے۔ تحریک انصاف نے کراچی میں ساڑھے پانچ لاکھ ووٹ حاصل کئے جو زیادہ تر متحدہ کے تھے۔ اس طرح تحریک انصاف کراچی کی سیاست میں ایک طاقتور فیکٹر بن کر ابھری ہے۔ انتخابات کی تاریخ کو ذہن میں رکھیں تو اس بار دہشت گردی کے خوف کے باوجود ووٹنگ کی شرح 56.83 فیصد رہی جو یقینا قابل تعریف ہے۔ ووٹروں کی تعداد میں چار کروڑ کے اضافے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے 2008 کے مقابلے میں صرف اسی ہزار ووٹ زیادہ لئے۔ مسلم لیگ (ن) نے کل ڈالے گئے ووٹوں کا صرف 30.52 فیصد ووٹ حاصل کئے جس کا دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ وہ ایک تہائی قوم کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ مسلم لیگ چاروں صوبوں میں کامیاب ہو کر قومی جماعت کی حیثیت سے ابھری ہے لیکن اسے باقی تین چوتھائی قوم کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے بہت محنت کرنا پڑے گی۔ 1997 میں جب مسلم لیگ مقبولیت کے عروج پر تھی تو اس نے کل ڈالے گئے ووٹوں کا پچاس فیصد ووٹ حاصل کئے تھے لیکن قومی اسمبلی کی 207 میں سے 137 نشستیں یعنی 66.18 فیصد جیت لی تھیں۔ 1997 میں مسلم لیگ (ن) کے 88 لاکھ ووٹوں کے مقابلے میں پی پی پی نے 42 لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے لیکن اسے قومی اسمبلی میں صرف 18 نشستیں ملی تھیں۔ اس بار تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں تقریباً نصف سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں لیکن قومی اسمبلی میں دونوں جماعتوں کی نمائندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر پاکستان میں متناسب نمائندگی کا سسٹم رائج ہوتا جو جرمنی فرانس وغیرہ میں ہے تو تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے نصف کے برابر نشستیں ملتیں۔ ووٹوں کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس پارٹی میں کتنی جان ہے اور اس کے آئندہ ابھرنے کا کس قدر امکان ہے۔ سفر سے شروع کر کے سترہ فیصد ووٹ حاصل کر لینا ایک کارنامہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف میں اچھی کارکردگی دکھا کر آئندہ ابھرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ مختصر یہ کہ میرے نزدیک یہ سب تبدیلی کی علامتیں ہیں اور صحت مند مثبت سیاسی اشارے ہیں بلکہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کیلئے نیک شگون ہیں۔ جاتے جاتے دو مشاہدات کا ذکر کر کے تھوڑا سا محظوظ ہونے کی اجازت دیجئے۔ میثاق جمہوریت کے مطابق مسلم لیگ ن اور پی پی پی ایک دوسرے کو پانچ پانچ سال دینے کے پابند تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کے تعاون سے پی پی پی نے پورے پانچ سال مکمل کر لئے بی بی کے وعدے کا احترام کرتے ہوئے اس بار زرداری صاحب نے پی پی پی کو انتخابی میدان میں اترنے ہی نہیں دیا۔ کم از کم اتنا کریڈت تو دیجئے کہ زرداری صاحب وعدے کے پکے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ملک بھر میں ووٹنگ کی شرح 56.83 فیصد رہی جبکہ سب سے زیادہ تقریباً 85 فیصد بہاول نگر میں رہی۔ بھلا کیوں؟ اسلئے کہ وہاں فلمی اداکارہ میرا کی ماں الیکشن لڑ رہی تھی اور میرا میدان میں موجود تھی یارو قوم کے ذوق کی داد دو۔
تازہ ترین