• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہفتے کی صبح اخبار میں ایک سرخی پڑھی۔ ’مغرب میں اُردو زبان ختم ہو رہی ہے‘۔
اتوار کی دوپہر مغرب کے عظیم شہر لندن کے عین بیچوں بیچ بڑا اجتماع ہوا۔ مہمانِ خصوصی دور حاضر کے اُردو کے سرکردہ افسانہ نگار انتظار حسین تھے اور اُس روز کی تمام تر تحسین انہی کیلئے اور ساری عقیدت اُردو کے اتنے ہی سرکردہ شاعر ناصر کاظمی مرحوم کیلئے وقف تھی۔ دو سو کے لگ بھگ حاضرین آئے تھے، اکثر نہایت باذوق اور ادب نواز تھے۔ چند ایک کے سوا ساری طویل اور مختصر تقریریں اُردو میں کی گئیں اور اُردو ہی میں سراہی گئیں۔
انتظار حسین سے ڈیڑھ دو سال بعد ملاقات ہوئی۔ مجھ سے کہنے لگے کہ آپ برطانیہ میں رہتے ہیں یا پاکستان میں؟ میں نے کہا کہ یہ آپ نے کیوں پوچھا۔ بولے کہ آپ جو کالم لکھ رہے ہیں ان کو پڑھ کرتو یہی خیال ہوتا ہے کہ آپ پاکستان میں رہتے ہیں۔ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ مداحوں کا ریلا میرے اور ان کے درمیان آگیا ورنہ اپنے زمانے کے اتنے بڑے افسانہ نگار سے کہتا کہ آپ نے اُس بندر کی کہانی نہیں سنی جو اپنا دِل درخت پر چھوڑ آیا تھا۔
انتظار حسین برطانیہ کے نہایت اعلیٰ ادبی اعزاز ’بُکر پرائز‘ کیلئے نامزد ہونے والے دنیا کے دس ادیبوں میں شامل ہیں۔ان کا ایک ناول انگریزی میں ترجمہ ہوا تو دنیا پر یہ بھید کھلا کہ اس غریب زبان اردو کی دھول میں ادبی شاہکارو ں کے کیسے کیسے موتی رُل رہے ہیں۔ ہندوستان والوں نے تو ترجمے کا تکلف اٹھا دیا۔ وہ تو ڈھائی تین سو سال پہلے انگریزی پر اچھی طرح عبور حاصل کر چکے تھے لہٰذا اب وہ اپنا بہت سا ادب انگریزی میں لکھتے ہیں جس کی منڈی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ ان کے ادب میں مخصوص ہندو معاشرے کے رومانس کے وہ سارے رنگ گھلے ہوتے ہیں جو راجستھان کے میلوں ٹھیلوں میں، ہولی کی پچکاریوں اور گلال میں اور دیوالی کے دیوں اور قندیلوں میں نظر آتے ہیں۔ پاکستان والے ایسا کم کرتے ہیں البتہ حال ہی میں انہوں نے بھی انگریزی فکشن کی دنیا میں قدم رکھا ہے ورنہ ایران، یہاں تک کہ افغانستان کے ادیب پہلے ہی اپنے انگریزی ناول کو شہرت کی اونچائیوں تک اٹھا کر نام پا چکے ہیں۔
ترجمے کا ذکر آیا تو میری آج کی کہانی میں ایک دلچسپ کردار شامل ہوتا ہے۔ وہ میکسیکو کی نوجوان اسکالر ازابیل ہے جس کے نام کے آگے آپ چاہیں تو مسعود کا اضافہ کر لیں کیونکہ وہ لکھنئو کے ایک عظیم ادبی اور علمی گھرانے کی بہو ہے۔ اس کی پہلی زبان ہسپانوی اور انگریزی اور دوسر ی زبان اردو اور ہندی ہے۔ ازابیل کئی برس سے تحقیق میں مصروف ہے۔ امریکہ میں اردو سیکھنے کے بعد وہ لکھنئو پہنچی جہاں وہ مسعود حسن رضوی ادیب مرحوم کے گھرانے میں گئی۔ ادیب مرحوم کے بیٹے نیّر مسعود رضوی بھی علم و کمال کے اونچے درجے پر فائز ہیں اور ان سے ملاقات کئے بغیر تحقیق کے بہت سے گوشے تاریکی میں رہ جاتے ہیں۔ ایک اتفاق یہ بھی ہے کہ وہ میری ننہیال کی طرف سے میرے عزیز بھی ہیں۔ ازابیل ملنے گئی تو نیّر مسعود کے ساتھ ہی اُسے ایک بونس بھی ملا۔ اس کی ملاقات ان کے بیٹے تمثال مسعود سے ہوئی اور پھر وہی ہوا جو تمام خوشگوار کہانیوں میں ہوتا ہے۔ میکسیکو کی بیٹی لکھنئو کی بہو بن گئی۔ اب تو اس کی بول چال اور اس کا اٹھنا بیٹھنا لکھنئو والوں جیسا ہو چلا ہے۔
اب سنئے آج کی کہانی کا اگلا مرحلہ۔ ازابیل اپنی تحقیق کے سلسلے میں لندن آئی ہوئی ہے۔ ٹیلی فون پر بات ہوئی تو میں نے اسے شہر میں انتظا رحسین کی موجودگی کے بارے میں اور پرل ایجو کیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام جلسے کے متعلق بتایا ۔ وہ لاہور میں رہ چکی تھی اور وہاں انتظار صاحب سے اس کی طویل ملاقات ہوچکی تھی۔ جلسہ شروع ہونے میں تاخیر تھی اور میں اسٹیج کی ڈائس کے کنارے پر بیٹھا اُس روز آنے والے دو بچّوں کو آکا باکا کی نظم سنا رہا تھا کہ کسی نسوانی آواز نے کہا: آداب عرض۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا اور یہ قیاس کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگا کہ وہ ازابیل ہوگی۔ نیّر بھائی کی بہو ہونے کی مناسبت سے وہ میری بھی بہو تھی۔ میں نے خوش ہوکر اپنے دوستوں سے اس کا تعارف کرایا۔ میں چاہتا تھا کہ لوگ اس کی زبانی وہ اردو سنیں جس کے بارے میں ایک روز پہلے خبر چھپی تھی کہ مغرب میں اردو ختم ہوتی جارہی ہے۔
ہر ایک ازابیل سے مل کر اور اس کی رواں اور سلیس اردو سن کر خوش تھا۔ میں نے لندن کے سرکردہ ماہرِ قانون نسیم احمد باجوہ سے تعارف کرایا، اس سے ملئے یہ میری بہو ہے۔ باجوہ صاحب بولے۔ ’دیرہو گئی۔ پہلے ملی ہوتی تو میری بہو ہوتی‘۔ ازابیل آصف فرخی سے ملنا چاہتی تھی جو اس کے شوہر تمثال مسعود کے اچھے دوست ہیں۔ آصف تقریب میں شریک تھے۔ ازابیل خوشی سے کھل اٹھی اور دیر تک اپنی رواں اردو میں ان سے باتیں کرتی رہی۔
آخر میں جب سب رخصت ہونے لگے تو ازابیل مجھ سے بولی، ارے میں آپ کیلئے ایک تحفہ لائی ہوں، وہ تو میں بھولی جارہی تھی۔ اس نے اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈالا۔ میرا خیال تھا کہ لکھنئو کے عطر کی شیشی نکالے گی۔ اس نے امریکہ سے شائع ہونے والے ایک علمی مجلّے ساگر کا تازہ شمارہ نکالا اور صفحہ 50 کھول کر میرے حوالے کیا۔ وہاں میری کتاب جرنیلی سڑک کے کچھ ابتدائی حصوں کا انگریزی ترجمہ تھا جو ازابیل نے بڑے اہتمام سے کیا تھا اور جریدے نے بھی اتنے ہی اہتمام سے شائع کیا تھا۔
میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے گلے سے لگا لیا۔ ازابیل پہلے کبھی میکسیکو کی بیٹی رہی ہوگی، اب وہ لکھنئو کے ساتھ ساتھ لندن کی بہو بھی تھی۔
تازہ ترین