• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل رفیق احمد شیخ ہوا کرتے تھے۔ شیخ صاحب کی سرگرمی حالات کے تناظر میں ہوتی تھی، وہ زبردست آدمی تھے، سینیٹر بھی رہے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب مرحوم جہانگیر بدر پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر تھے، اسلم گل لاہور کے صدر اور بیگم شمیم خان نیازی خواتین کی نائب صدر ہوتی تھیں، صدر شاید اس وقت ساجدہ میر تھیں۔ اس زمانے میں بھٹو کی سالگرہ پر پورے لاہور میں تقاریب ہوتی تھیں۔ ان تقاریب میں وہ لوگ بہت نمایاں ہوتے تھے جو طلبہ سیاست سے نکل کر آئے تھے۔ طلبہ سیاست بھی عجیب ہے۔ پابندیوں کا شکار اس سیاست کے آخری الیکشن 1988ء میں بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہوئے۔ بس اس کے بعد پھر پابندیوں کی نظر لگ گئی۔ آج تیس بتیس سال بعد بھی طلبہ سیاست نظربند ہے۔ اسی لئے شاید ہماری سیاست میں اچھے اور عمدہ لوگ نہیں آ رہے، اسی لئے شاید کرپشن بڑھ گئی ہے۔ دیگر کالجوں کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی طلبہ سیاست کا رستہ رک گیا مگر اس عظیم درس گاہ کے لوگوں نے ’’سیاسی ٹھرک‘‘ کو پورا کرنے کے لئے اولڈ راوینز یونین کا سہارا لیا۔ ہر دو سال بعد اس یونین کے الیکشن کا میلہ سجتا ہے۔ شیخ رفیق احمد کی یاد تو مجھے شیخ منصور الٰہی کو دیکھ کر آ گئی۔ تقریباً اسی حال حلیے کا شیخ منصور بھی خاص مواقع پر زیادہ سرگرم ہو جاتا ہے مگر شیخ منصور کی منصوبہ بندی بڑی کمال کی ہوتی ہے۔ وہ خود امیدوار بنتا نہیں اور الیکشن لڑنے والے کردار ٹکٹ کے حصول کے لئے اس کی شکل دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ فیضان غنی سمیت کئی سرگرم کرداروں کو وہ اپنی چھتری تلے لے لیتا ہے، پتہ نہیں کیوں احتیاطاً ایک فون مجھے کر دیتا ہے کہ ’’گروجی! آپ نے دخل نہیں دینا پھر ہمیں مجبوراً بات ماننا پڑتی ہے، بس آپ نے کسی کی سفارش نہیں کرنی‘‘۔ میں سادہ بندہ یہ فون خاموشی سے سن کر مزید خاموش ہو جاتا ہوں۔ اب مجھے نہیں پتہ ہوتا کہ ہمارا گروپ کون سے امیدوار میدان میں اتار رہا ہے، ہاں البتہ ایک فیصلہ مجھے یہ سنایا جاتا ہے کہ الیکشن سے اتنے دن پہلے آپ کو لاہور میں ہونا چاہئے، اگرچہ یہ فیصلہ راجہ عظیم کے لئے بھی سنایا جاتا ہے مگر راجہ صاحب کو فیصلے سے آزاد کروانا میرا کام ہوتا ہے۔ پچھلی مرتبہ ڈاکٹر مرتضیٰ کے دفتر کو کیمپ آفس بنایا تھا اس مرتبہ پتہ نہیں کس جگہ کو یہ شرف حاصل ہوتا ہے۔

خواتین و حضرات! اولڈ راوینز یونین ایک عرصے سے قائم ہے، اس کی پہلے اتنی شہرت اس لئے نہیں تھی کہ ایک مخصوص گروہ مجلس شوریٰ کی طرز پر نامزدگیاں کر دیتا تھا، الیکشن ہوتے بھی تھے تو برائے نام تھے۔ لوگوں کی دلچسپی نہیں تھی۔ چار سال پہلے ہمارے کچھ کلاس فیلوز نے راوینز کلب کے نام سے ایک گروپ بنایا، دو تین مہینوں بعد الیکشن آ گیا، ہم نے ہمت دکھائی اور ساٹھ فیصد الیکشن جیت لیا۔ صدر ہمارا میاں اشفاق موہلن بن گیا۔ باقی سیٹیں کچھ مخالفین جیت گئے، کچھ ہم جیت گئے۔ اس جیت سے الیکشن کے ٹھیکیدار پریشان ہو گئے۔ ہم نے آمرانہ سوچ کی کئی چیزیں ختم کیں۔ پچھلی مرتبہ باقی گروپس ہمارے گروپ کو بڑا کمزور سمجھتے تھے مگر صدارتی الیکشن کی جیت نے بوڑھے بیورو کریٹس کی آنکھوں پر بندھی پٹی کو اتار کر رکھ دیا۔ اسی لئے اس مرتبہ باقی گروپوں کی خواہش تھی کہ راوینز کلب ہمارے ساتھ اتحاد کر لے۔ تینوں میں سے جس میں ہماری دوستیاں زیادہ تھیں اس سے اتحاد کر لیا گیا جب راوینز کلب کے ساتھ راوینز یونائیٹڈ نے اتحاد کیا تو گلیکسی اور ساگا کو مجبوراً اتحاد کرنا پڑا۔ چونکہ ملک میں بھی اتحادوں کی سیاست ہو رہی ہے لہٰذا اس کے اثرات اولڈ راوینز کی سیاست پر بھی آگئے۔ اس مرتبہ دو دو گروپوں کا اتحاد ہے۔ جب ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں اولڈ راوینز یونین کے الیکشن کے لئے آتے ہیں تو پھر باقی سیاسی وابستگیاں بھول جاتے ہیں۔ ذاتیں، قبیلے اور فرقے بالائے طاق رکھ کر پھر ہر کوئی صرف راوین ہی ہوتا ہے۔ کوئی وزیر ہو، مشیر یا وزیر اعظم ہو، چیف سیکرٹری ہو یا چیف جسٹس، اسے بطور راوین ہی شریک ہونا پڑتا ہے۔ اس مرتبہ ہماری الیکشن مہم میں حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے کرنل وکی بہت سرگرم ہیں۔ ہمارے دوستوں نے بھی سوچا کہ ’’محکمہ زراعت‘‘ سے بھی بندہ ہونا چاہئے۔ اب جنرل راحیل شریف ملک سے باہر ہیں، کچھ حاضر سروس پنڈی میں ہیں۔ خیر الیکشن مہم میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے گروپ نے سوچ سمجھ کر امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ رانا اسد اللہ کو صدارتی امیدوار بنا کر ساجد گورایہ کو سینئر نائب صدر کے طور پر اتارا ہے۔ نائب صدور کی دو نشستوں پر میاں سہیل انور جیویکا اور پروفیسر ڈاکٹر حلیمہ آفریدی جبکہ سیکرٹری جنرل کے طور پر اسد گوندل ہمارے امیدوار ہیں۔ فنانس سیکرٹری اپنے اسلم بھٹی اور جوائنٹ سیکرٹری کے لئے کنور عثمان سعید جبکہ دہائیوں کے حساب سے ایگزیکٹو ممبرز کے لئے ہم نے آصف علی خان، ضیاء الدین برکی، بابر بھٹہ اور اپنے پیارے الطاف سکھیرا کو کھڑا کیا ہے۔ ہمارے امیدوار پرعزم ہیں۔ محمود شام، نصرت جاوید، اسدﷲ غالب، آفتاب اقبال، حامد میر، عامر متین، رحمان اظہر، رانا جواد، عالیہ شاہ، یاسر پیرزادہ، زاہد گوگی، خاور گھمن، عمر شامی اور انیق ناجی سمیت میڈیا سے وابستہ دیگر شخصیات ہم سے دور کیسے جا سکتی ہیں، ہم بھی اسی دشت میں ہیں بس ایک مسئلہ ہے کہ یہ الیکشن ویلنٹائن ڈے کو ہو رہا ہے، محبتوں کی اس خوشبو میں کئی پرانے دوستوں سے ملاقات ہو گی کہ بقول محسن نقوی ؎

مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا

رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی

تازہ ترین