• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلباسیاست سے لے کر قومی سیاست تک دلیرانہ انداز میں اپنا بھرپور قائدانہ کردار ادا کرنیوالے درویش صفت قومی رہنماحافظ سلمان بٹ آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کی سادگی،درویشی اور امانت و دیانت پر مشتمل زندگی ہمیشہ ہمارے مشعل راہ رہے گی۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین۔ حافظ سلمان جماعت اسلامی کے مقبول رہنما تھے۔ لاہور میں 1985کے الیکشن میں اندرون شہر سے انھوں نے میاں صلاح الدین کو ہرا کر ایک بڑا برج الٹا تھا۔ اسی الیکشن میں لیاقت بلوچ لاہور سے کامیاب ہوئے تھے۔اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں کا حافظ سلمان بٹ کے ساتھ خاصا لگاؤ تھا۔ جمعیت کے لوگ اندرون شہر میں حافظ صاحب کے جلسے سننے شوق سے جایا کرتے تھے۔ 2002کے الیکشن میں لاہور میں حافظ سلمان نے مسلم لیگ ق کے مشہور رہنما میاں اظہر کو شکست سے ہمکنار کیاتھا۔حافظ صاحب بڑے سے بڑے سیاسی رہنما کے ساتھ الیکشن لڑنے سے کتراتے نہیں تھے بلکہ انتخابی میدان میں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے۔ یہ 2001 کی بات ہے جب لاہور میں میاں مقصود احمد جماعت اسلامی کے امیر تھے اور حافظ سلمان نائب امیر اور پو لیٹکل بیورو کے صدر تھے۔سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی الیکشن کا دوردورہ تھا۔ پرویز مشرف نے ایک قسم کا غیر علانیہ مارشل لا لگا رکھا تھا۔ ملک میں جمہوری قوتوں کوبند گلی میں دھکیل دیا گیا تھا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت ملک سے باہر تھی۔اس منظرنامے میں جماعت اسلامی کی قاضی حسین احمد کی قیادت واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ ان حالات میں لاہور میں حافظ سلمان بٹ ہی تھے جنھوں نے جمہوری قوتوں کو لیڈ کیا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر پرویز مشرف کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جمہوری گروپ بنایا اور حافظ سلمان بٹ کو لاہور کے سٹی ناظم کے الیکشن کے لیے چن لیا۔ یہ حافظ سلمان بٹ کی دلیری اور سیاسی فہم و فراست ہی تھی کہ لاہور میں سٹی ناظم کا الیکشن بڑے دبنگ انداز میں لڑا گیا۔ دوسری طرف سے میاں عامر محمود امیدوار تھے۔ اگر میاں عامر محمود کو حکومتی سرپرستی نہ ہوتی تو حافظ سلمان بٹ سٹی ناظم کا الیکشن جیت چکے تھے۔ پرویز مشرف کی سپورٹ اور سرکاری مشینری کے استعمال کے باوجود مخالف امیدوار آسانی سے نہ جیت سکے انھیں دوبارہ ری پول میں جانا پڑا۔ حادظ سلمان بٹ بظاہر تو یہ الیکشن ہار گئے لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ حافظ صاحب کو دانستہ طور پر ہرایا گیا۔ حافظ سلمان بٹ کو اسلامی جمعیت طلبہ کے دور میں دیکھا تو ان کی شخصیت نے خاصا متا ثرکیا۔ اس وقت وہ پاکستان کے مزدوروں کے لیڈر اور پریم یونین کے سربراہ تھے۔ وہ پرجوش مقرر، سادگی کا پیکر اور بہادر انسان تھے۔ چاہے کیسے ہی حالات ہوں ڈر اور خوف ان کے قریب نہیں گزرتا تھا۔ وہ اکثر اپنے جلسوں میں یہ اشعار پڑھا کرتے تھے۔

وفا کرو گے، وفا کریں گے

جفا کرو گے، جفا کریں گے۔

ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے،

جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے۔

حافظ صاحب ہمت و استقامت کی تصویر تھے۔مشکل سے مشکل ترین حالات میں گھبراتے نہیں تھے۔وہ آخری دم تک اپنے نظریات پر کھڑے رہے۔ اپنے تعلیمی دور سے مزدوروں کی سیاست اور اسمبلیوں سے لیکر نوجوانوں کی قیادت تک، ہمیشہ ان کا کردار اجلا، شفاف اور بیباک رہا۔ حافظ صاحب دو بار قومی اسمبلی اور ایک بار صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے مگر ان کا دامن صاف رہا۔ وہ کسی پلاٹ، پرمٹ اور کسی مراعات کی سیاست کا حصہ نہیں بنے۔ منصورہ لاہور میں ان کی نماز جنازہ بھی اس کی گواہی دے رہی تھی کہ وہ ایک نیک اور مخلوق خدا سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق، سیکرٹری جنرل امیرالعظیم، نائب امیرلیاقت بلوچ، فرید احمد پراچہ، محمد جاوید قصوری،خواجہ سعدرفیق،اعجاز احمد چوہدری،میاں مقصود احمد، ذکراللہ مجاہد سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ نماز جنازہ حافظ محمد ادریس نے پڑھائی۔ حافظ سلمان بٹ کے جنازے میں لاہور سمیت ملک بھر سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی کہ اس روز منصورہ کی وسعت بھی کم پڑتی دکھائی دے رہی تھی۔

تازہ ترین