• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل کوئی بھی فیصلہ غلط ثابت ہو،کوئی بھی منصوبہ خراب ہو ، کوئی بھی مشکل مرحلہ درپیش ہویا پھر عوام پر کوئی نیا بوجھ ڈالنا ہو تو حکومت اور اُس کے حامی سارا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈالتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں یہ بیانیہ عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ پچھلی حکومتوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ پیٹرول مہنگا کرنا پڑے، بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھانی پڑے، مہنگائی ہو، آٹے چینی کیقلت اور اُن کی بڑھتی ہوئی قیمت ہو، پی آئی اے کا جہاز ملائیشیا میں ضبط ہو جائے، روز ویلٹ ہوٹل بند ہو جائے یا پھر کوئی نئے سے نئے قرض لئے جا رہے ہوں، اُس کا سارا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال دیا جاتا ہے۔

حالیہ دنوںمیں پٹرول کی قیمت دوبار بڑھائی گئی ہےجس پر باز پُرس کرنے پر جواب ملتا ہے کہ جس شرح سے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت بڑھی ہے، ہم نے پٹرول کی قیمت کم بڑھائی ہے، یہ تو زیادہ بڑھائی جانی چاہئے تھی۔ موجودہ حکومت پچھلی حکومتوں کے ادوار میں پٹرول پر جن ٹیکسوں کی نشاندہی کرتی تھی، آج اُنہی ٹیکسوں کو بڑھا کرپیٹرول پر اُن ادوار سے بھی زیادہ منافع کما رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل اُتنا مہنگا نہیں ہوتا جتنا پاکستان میں کردیا جاتا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں پاکستان میں کرپشن زیادہ ہوگئی ہے۔ یہ رپورٹ پہلی دفعہ ایسا نہیں بتا رہی بلکہ پچھلے تین برس سے یہی دیکھنے اور سننےکو مل رہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن زیادہ ہو رہی ہے یعنی اپنے آپ کو ایماندار اور کرپشن سے پاک کہنے والی سیاسی قیادت، پاکستان میں کرپشن ختم کرنا تو دور کی بات کم بھی نہیں کر پائی اُلٹا اُس کے دور میں زیادہ کرپشن ہو رہی ہے۔

پچھلی حکومتوں کے بارے میں جب ایسی رپورٹیںآتی تھیں تو کہا جاتا تھا ، یہ ہمارے لئے کتنی شرم کی بات ہے کہ پاکستان میں اتنی زیادہ کرپشن ہے ، اگر اِن رپورٹس کا اردو ترجمہ ہوجائے تو عوام کو اصل حقیقت معلوم ہوجائے گی۔ پھرجب یہی رپورٹ اِس حکومت کے دور میں آئی تو کہا جانے لگا، جی یہ تو ڈیٹا ہی پچھلی حکومتوں کے دور کا ہے، جس میں کرپشن بڑھی تھی لیکن جب اِس سال کی رپورٹ نے دوبارہ دکھایا کہ پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے تو کہا گیا کہ ابھی تک رپورٹ نہیں پڑھی یا پھر بات دوبارہ گھما پھر ا کے کسی نہ کسی طرح پچھلی حکومتوں کی طرف لے کر جانے کی کوشش کی گئی مگر یہ دال کوئی خاص گلی نہیں ۔حکومت کے حامی بھی اِس رپورٹ کا صحیح طرح دفاع نہیں کر پا رہے ہیں۔

دنیا بھر میں حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ اُن کا ایجنڈا اور طاقت بھی اُن کے جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں گزرنے والی پچھلی حکومتیں شاید دنیا کی تاریخ کی سب سے زیادہ طاقتور اور با اختیار حکومتیں رہی ہیں جو اقتدار سے نکل جانے کے برسوں بعد بھی آٹے اور چینی کی قیمت بڑھا دیتی ہیں، پاکستان میں کرپشن زیادہ کروا دیتی ہیں!

دوسری طرف یہی بیانیہ موجودہ حکومت کی نا اہلی کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ یہ حکومت پچھلی حکومتوں کے اقدام اوراثر کو ختمیا کم نہیں کر پائی ؟پھر اگر آپ حکومت کی اِس بات کو مان بھی لیتے ہیں کہ دہائیوں سے جمع کئے گئے مسائل کم وقت میں ٹھیک نہیں ہوسکتے تو مزید خرابی کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر آپ یہ بھی ماننے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں تو ایک سوال پھر بھی رہتا ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے تو آپ کے بڑے دعوے تھے کہ پہلے سو دن میں سب کچھ بدل جائے گا لیکن کچھ بھی تو نہیں بدلابلکہ حالات مزید خرابی کی طرف گامزن ہیں، تو کیا یہ اُس وقت کی نااہلی ہے کہ آپ کو اصل حالات سے آگاہی ہی نہیں تھی یا اُس وقت مصلحتاًاقتدار کے حصول کے لئے عوام سے جھوٹ بولا گیا؟

دراصل اب معاملہ یہ ہے کہ پچھلی حکومتوں والا بیانیہ زیادہ دیر نہیں چلنے والا۔ حکومت جتنی بھی کوشش کر لے، آخرکار عوام یہ ضرور پوچھیں گے کہ آپ نے کیا کیا ہے؟ آپ کے دورِ حکومت میں حالات مزید خراب کیوں ہوئے ہیں؟ جتنی توانائی، حکومت پہلی حکومتوں کو ہر چیز کا قصور وار ٹھہرانے کی کوشش کرنے میں لگا دیتی ہے اگر مسائل حل کرنے پر لگا دے تو شاید اُس کے لئے بہتر ہو ۔ کوئی بھی حکومت سارے کام صحیح اور سارے کام غلط نہیں کرتی۔ کے پی میں ہیلتھ انشورنس سب کے لئے عام کرنا ایک بڑا اقدام ہے جس کو سراہنا چاہئے مگر اپنی چند کامیابیوں کا ڈنڈھورا پیٹ کر اور اپنی ناکامیاں پچھلی حکومتوں پر ڈال کر کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو تسلیم کرے۔ گڈ گورننس کے لئے لائحہ عمل طے کرے۔ اگر وہ واقعی حقیقی مقبولیت اور کامیابی چاہتی ہے تو ڈیلیور کرے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پچھلی حکومتوں کو اپنی تمام غلطیوں کا قصور وار ٹھہرا نہ مشکل ہوتا چلا جائے گا۔

تازہ ترین