• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کا شمار دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے اور اس کی مجموعی پیداوار اربوں امریکی ڈالروں سے زائد ہے۔ بھارت کا دس بڑے صنعتی ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی صنعتی پیداوار مجموعی پیداوار کا بیس فیصد ہے۔ اس کا صنعتی شعبہ برآمدات کا 60 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے جس میں سے بیس فیصد برآمدات انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں، اس میں موٹر سازی بھی شامل ہے۔ صرف اسی برآمد کا حجم پاکستان کی تمام تر روایتی برآمدات کے مساوی ہے۔ ہماری انجینئرنگ کی مجموعی مقامی پیداوار (جی، ڈی، پی) کی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ صنعتی ڈھانچے پر آنے والی لاگت کو امدادی وسائل دے کر نہایت کم رکھا گیا ہے۔ ان امدادی وسائل کی بنیاد براہِ راست آمدنی مستثنیٰ ہے۔ تنخواہ کا ڈھانچہ کم ہے اور دیگر واسطہ اور بلواسطہ لاگتیں بھی کم۔ صنعتوں کو بڑی مقدار میں سرکاری امداد حاصل ہے۔ جب تک معاشرتی اور طبعی ڈھانچوں کی لاگتوں، رعایتوں، امدادی رقوم اور ٹیکس کے نظام، غرض یہ کہ ہر شعبے میں ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہو جائیں، ہم کس طرح بھارت سے تجارت میں توازن قائم کر سکیں گے اور اپنی صنعتوں کو ایک خطرناک اور غیر صحت مند مقابلے سے محفوظ رکھ سکیں گے۔
یہ چند بنیادی امتیازات ہیں جن سے حکومت اچھی طرح واقف ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ جلد یا بدیرلیکن بہر صورت آئندہ بجٹ سے قبل یہ غیرمعمولی خامیاں دور کر لی جائیں گی ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ اقتصادی پیکیج محض ایک دکھاوا ہے جو کسی بھی طور صنعتی شعبہ کی ترقی کا پیش خیمہ نہیں بن سکتا جب تک ایسا اقتصادی پیکیج نہ دیا جائے جو صنعتی شعبہ کے لئے سود مند نہ ہو، آخر کس طرح اس شعبہ سے بہتر نتائج حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟
آئینی ترمیم: آٹھویں آئینی ترمیم کو غیر موثر کرنے والی تیرہویں آئینی ترمیم کو عام طور پر سراہا گیا ہے۔ یہ ترمیم اسمبلی میں متفقہ طور پر تسلیم کر لی گئی جس کی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ یہ یقینا ایک بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس وجہ سے سابقہ جمہوری حکومتیں اپنی آئینی میعاد پوری نہ کر سکیں۔ آٹھویں ترمیم کے بارے میں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ترمیم نے مارشل لاء کو روک رکھا تھا جس نے ملک کے وجود کے پچاس برسوں میں زیادہ تر عوامی نمائندگی کی جگہ، ملک کے اقتدار پر قبضہ کررکھا تھا۔
پاکستان کا آغاز بہرحال ایک پارلیمانی حکومت کے تحت ہوا تاہم جلد اس پر مارشل لا مسلط ہونا شروع ہوگیا۔ یہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے سویلین مارشل لا سمیت وقتاً فوقتاً چلتا رہا۔ یہ مفروضہ زبان زدِ عام ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت پر قابلِ ترجیح ہے تاہم پاکستان کی صورتحال کے پیش نظر یہ امر قابلِ غور ہے کہ آیا یہ مفروضہ صحیح ہے یا غلط۔ اس پر ایک سرجن، ایک انجینئر اور ایک سیاستدان کا وہ قصہ یاد آتا ہے جس میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ ان میں سے کس کا پیشہ سب سے قدیم ہے۔سرجن کے مطابق سرجری اس لئے سب سے قدیم ہے کہ حوّا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور یہ عمل سرجری ہی سے ممکن تھا۔ انجینئر کا کہنا تھا کہ آغاز کائنات میں کوئی نظام موجود نہ تھا ایک افراتفری اور بدنظمی کا عالم تھا اور اسی کی خدمات کے ذریعہ یہ نظام کائنات وجود میں آیا۔ اس پر سیاستدان سے نہ رہا گیا اور اس نے پوچھا کہ ان کے خیال میں وہ تمام افراتفری اور بدانتظامی کس نے پھیلائی تھی؟ اگر پاکستان کا آغاز پارلیمانی حکومت سے ہوا تو پھر مارشل لا اور پھر بعد میں یہ آٹھویں ترمیم کا وجود کیسے عمل میں آیا۔
سوال یہی ہے کہ ملک میں اس افراتفری اور انتشار کا ذمہ دار آخر کون تھا؟ جمہوریت کی واپسی کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کو غور کرنا ہوگا کہ مارشل لا اور متعدد ترامیم پر منتج ہونے والا یہ انتشار کیسے پیدا ہوا؟ اس مسئلے پر مختلف نقطہ ہائے نظر میں چاہے کتنا ہی اختلاف پایا جائے یہ ملک مزید انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ عوام سیاسی استحکام اور اقتصادی و معاشرتی بہبود کے علاوہ کسی اور مسئلے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بھٹو کے ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کے نعرہ اور میاں نواز شریف کی حالیہ کامیابی اس بات کا بین ثبوت ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں خصوصاً میاں صاحب اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن پر ماضی کے مقابلہ میں اب کہیں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یقینا میاں صاحب قومی مفاد میں اس صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اب یہاں سے کہاں؟: سیاسی استحکام، اقتصادی قوت اور منصفانہ نظام اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتے جب تک ایک واضح نظریہ سامنے نہ ہو‘ منزل کی سمت راہ تعین اور مقصد سے لگن نہ ہو، ساتھ ہی ایک جامع منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کیلئے پُرخلوص کوششیں لازم ہیں۔ محض اسمبلی میں اکثریت سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مقصد کے ساتھ اخلاص بھی درکار ہے۔ عوام کی مجموعی اقتصادی و معاشرتی خوشحالی سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرتی ہے۔ پاکستان کے معاملے میں کئی عناصر اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، جن میں آزاد معیشت کا نعرہ اور ملکی معیشت میں استطاعت ہونے کے باوجود بھارت سے تجارت کی بات شامل ہے۔ کشمیر کا حل بھی تعطل کا شکار ہے ان مسائل کے علاوہ عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے تعلقات کا معاملہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان سے جنرل مشرف تک ہم نے ہمیشہ ترقی یافتہ ممالک پر انحصار کیا ہے۔ ہمارا بنیادی اقتصادی ڈھانچہ ایک امریکی گروپ کے ماہرین کا تیار کردہ ہی ہے اور بنیادی طور پر درآمدی متبادل صنعت پر منحصر ہے جو کہ مقامی خام مال اور مرکزی اقتصادی، معاشرتی اور طبعی انفرااسٹرکچر پر انحصار کرتی ہے۔ اس وقت کا اقتصادی پیکیج بھی غیرروایتی اور منافع بخش پیداوار کی برآمدات کیلئے سازگار نہیں تھا۔ آج بھی صورتحال کم و بیش وہی نظر آتی ہے۔ صنعتوں کیلئے آج بھی موثر منصوبہ سازی نہیں کی جاتی جو کہ ملک میں دولت کی پیداوار اور فراہمی روزگار کا ذریعہ ہیں اور زرِمبادلہ کماتی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ اپنی ناکام برآمد کے طور پر روپے کی قیمت کو کم کیا ہے۔ جو سال بہ سال ملک کے قرضوں میں اضافے کا باعث بنا ہے اور جس کے نتیجے میں دفاعی اخراجات سے بھی زائد رقم قرضوں کی واپسی پر خرچ ہو رہی ہے۔ اب ہم اپنے قرضے اتارنے کیلئے مزید قرض لینے کے لئے مجبور ہیں، یہ امر نگراں دور حکومت میں بھی جاری رہا ہے۔ قرضوں کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ نے معیشت کو اس قدر ناتواں بنا دیا ہے کہ شاید ایک بار پھر روپے کی قدر میں کمی کرنا پڑے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین