• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

انڈیا بلاشبہ آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک ہے بلکہ امریکا کے لئے ایک بڑی منڈی بھی ہے لیکن پاکستان کی اہمیت اپنی جگہ ہے، پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اس کی علاقائی اہمیت اور خطے میں کردار امریکیوں پر واضح ہے۔ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ہمارے امریکا کے ساتھ قریبی مراسم قائم ہو گئے تھے، ایگریکلچر کے شعبہ میں امریکا نے بہت تعاون کیا۔ تحقیقی اداروں نے گندم اور چاول کی نئی اقسام سے لے کر پیداوار بڑھانے تک بہت تعاون کیا۔ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے اس وقت پاکستان اور امریکا کا تعاون سب کے سامنے ہے۔

امریکا سے ہمارے تعلقات کو ڈالروں سے نہیں ماپا جانا چاہئے ہماری موجودہ گورنمنٹ کا تو سلوگن ہی یہ ہے کہ ہم ایڈ نہیں ٹریڈ چاہتے ہیں۔ آپ دیکھیں الحمد للہ پچھلے دس مہینوں میں امریکا سے ہماری ایکسپورٹس میں گیارہ فیصد خوش آئند اضافہ ہوا ہے۔ ہماری Remittances (ترسیلاتِ زر) 47فیصد بڑھی ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ امریکی کمپنیوں کی پاکستان میں زیادہ سے زیادہ انویسٹمنٹ کروائیں اور اس سلسلے میں ہمیں کامیابیاں مل رہی ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے ایک سوال پر پاکستان کے سفیر نے کہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ہم جوبائیڈن حکومت سے یہ توقع رکھیں گے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ پاکستان اور انڈیا دونوں نیو کلیئر پاور کی حامل ریاستیں ہیں اور دنیا کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ اس خطے میں آباد ہے، کوئی بھی امریکی حکومت اسے کیسے نظر انداز کر سکتی ہے؟

واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خاں کی توقعات یا امیدیں اپنی جگہ، وہ اپنی حساس ذمہ داری کی بدولت ایک مخصوص سرکل کے اندر رہ کر ہی بات کر سکتے ہیں۔ ایک سفارت کار اور ایک تجزیہ کار میں یہی فرق ہوتا ہے کہ آخر الذکر خالی ڈپلومیسی سے آگے بڑھ کر حقائق واضح کر سکتا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں رہنا چاہئے کہ اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کس پروسیس سے گزر کر آ رہی ہے؟ کن مفادات اور مجبوریوں میں جکڑی ہوئی ہے؟ انڈین خارجہ پالیسی کے بالمقابل ہماری ایک جامع خارجہ پالیسی ہے۔ آج اگر انڈین نژاد امریکی وائٹ ہاؤس کی اہم کلیدی ذمہ داریوں پر ایک فوج ظفر موج کی طرح فائز ہوئے ہیں یا دوسرے بڑے عہدے یعنی امریکی نائب صدارت پر کملا دیوی ہیرس براجمان ہوئی ہیں تو ہم کیسے کہہ دیں کہ اس سے امریکا میں انڈین لابی یا بھارتی سرکار کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو کچھ بعید نہیں کہ مستقبل میں کوئی انڈین نژاد امریکی صدارت کے منصب پر بھی فائز ہو سکتا ہے جبکہ ہم یہ بھی آگہی رکھتے ہیں کہ ڈیمو کریٹس کا جھکاؤ بالعموم پاکستان کی بجائے انڈیا کی جانب ہمیشہ زیادہ رہا ہے۔ مشرف دور میں صدر کلنٹن آخری امریکی صدر تھے جو دہلی سے واپس جاتے ہوئے اسلام آباد رکے تھے۔ وہ بھی سخت شرائط کے ساتھ حتیٰ کہ انہوں نے پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ کوئی تصویر بنوانے سے بھی انکار کر دیا تھا اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انڈیا دشمنی چھوڑنے کیلئے نشریاتی بھاشن دیا تھا۔ ہم عصر امریکی صدور میں صدر باراک حسین اوباما کو جس قدر معتدل اور مسلمانوں کے ہمدرد کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے، شاید ان جیسی کوئی اور مثال نہ ہو مگر وہ اپنی دونوں ٹرمز میں دو مرتبہ انڈیا کے سرکاری دورے پر آئے، ان کا ایک وزٹ تو خاصا طویل تھا جس میں سول نیوکلیئر معاہدہ بھی ہوا مگر انہوں نے ایک بار بھی ہماری طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ ری پبلکن ٹرمپ کا بھی یہی حال رہا۔ سوچنے کے لائق سوال تو بنتا ہے کہ ایک وقت تھا جب ہم امریکیوں کی آنکھوں کا تارا تھے۔ طویل سرد جنگ کے زمانے میں انڈیا ہماری پوزیشن کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا کرتا تھا اور اب ہمارا حال یہ ہے کہ کشمیر ایشو پر امریکا یورپ تو رہے ایک طرف، ہمارے عرب دوست بھی ہماری حمایت میں معمولی بیان دینے کوتیار نہیں ہیں۔ اس وقت جوبائیڈن کی قیادت میں جو ڈیمو کریٹس سیٹ اپ امریکا میں برسر اقتدار آیاہے، یہ بنیادی طور پرباراک اوباما کی حکومت کا ہی تسلسل ہے اور اس کی پالیسیوں میں وہی جھلک دکھائی دیتی رہے گی جیسا کہ ایرانی نیوکلیئر ایشو کیلئے بائیڈن نے اُسی شخصیت کی تقرری کی ہے جسے صدر اوباما نے اپوائنٹ کیا تھا۔ درویش کی نظر میں اس حکومت کو اندرونی، بیرونی سطح پر ان گنت چیلنجز درپیش ہیں جن کا احاطہ کرناتو اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں ہے البتہ ہم اختصار کے ساتھ پانچ چیلنجز پیش کریں۔ جوبائیڈن حکومت نے فوری طور پر اپنے داخلی محاذ پر ٹرمپ کے پھیلائے ہوئے کچرے کو صاف کرنا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے مواخذے کا ایشو سر اٹھا رہاہے اور اس میں ڈیمو کریٹس کے علاوہ ریپبلکن کے اپنے رہنما بھی شامل ہیں، انہیں کورونا اور معیشت کے حوالے سے بھی سخت فیصلے کرنے ہیں اور روزِ اول جو 17 اقدام اٹھائے تھے انہیں کامیابی تک لے جانا ہے۔(جاری ہے)

تازہ ترین