• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ثابت کرنے کے لئے کہ کیا کچھ کیا جا سکتا ہے، بلکہ یوں کہیے کہ ناممکنات کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے، مجھے ایک حیرت انگیز جگہ کے بارے میں بات کرنے کی اجازت دیجیے۔ یہ جگہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT)ہے۔ ایسا نہیں کہ لوگ اس انسٹی ٹیوٹ کے بارے میں جانتے نہیں ہیں، تاہم ہر مرتبہ یہاں آنے سے کچھ نئی باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ ذاتی طور پر میں اس جگہ کو پسند نہیں کرتا ہوں کیونکہ یہاں آکر دل جذبات سے بوجھل ہو جاتا ہے اور اگرچہ اس عمر میں آنسو بہانا اچھا نہیں لگتا، لیکن کیا کیجیے، SIUT بہت سی حیرتوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ صرف یہی حقیقت انسا ن کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ اگرچہ یہ ادارہ بہت وسیع علاقے پر پھیلا ہو اہے لیکن اس میں کوئی بھی رقم کی وصولی کا کاؤنٹر نہیں ہے۔ ابتدائی معائنے سے لے کر پیچیدہ قسم کے ٹیسٹ اور علاج کی سہولتیں، سب کچھ مفت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ مریض کو عام انسان ہے کہ ارب پتی رئیس۔ اس کے علاوہ یہاں ایک اور پاکستانی حماقت، یعنی وی آئی پی شخصیات کے لئے مخصوص وارڈز بھی نہیں ہیں۔ اگر آپ مریض ہیں، چاہے گردوں کی صفائی کرانا چاہتے ہیں یا ٹرانسپلانٹیشن، تو آپ کو جنرل وارڈ میں ہی رہنا پڑے گا۔ یہاں حقیقی معنوں میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ابھی ایک مزید حیرت انگیز بات سنیں، یہاں لیڈیز و جینٹس کے بھی الگ وارڈز نہیں ہیں۔ ایک ہی وارڈ میں مرد وخواتین ہوتے ہیں اور اخلاقیات کے پاؤں کے نیچے سے نہ تو زمین سرکتی ہے اور نہ ہی اس کے سر پر کوئی آسمان ٹوٹتا ہے۔
SIUT کے بانی اور اس کی روح ِ رواں ڈاکٹر رضوی نے برسہا برس سے حیران کن کارکردگی دکھائی ہے لیکن میرے لئے سب سے حیران کن بات یہاں صفائی کا بہترین انتظام ہے․․․ مجھے بھی صفائی کا جنون کی حد تک خبط ہے اور میری ناقدانہ نظریں یہاں کے ان گنت کمروں اور راہداریوں کا مسلسل جائزہ لیتی رہیں لیکن مجھے کہیں بھی گندگی کا ایک ذرہ تک دکھائی نہ دیا․․․ اور پاکستان میں کسی ادارے میں یہ معیار کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔میں نے ایوا (نامور کالم نگار اردشیر کاؤس جی مرحوم کی صاحبزادی)سے پوچھا کہ اگر اتنا اچھا انتظام یہاں ہو سکتا ہے تو باقی ملک میں کیوں افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ ایسا ہر جگہ ہو تو سکتا ہے لیکن اس کے لئے محنت اور لگن کی ضرورت ہے۔
چونکہ لوگوں کو اس ادارے پر پورا یقین ہے، اس لئے وہ دل کھول کر اس کو عطیات دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اُن کی رقم ضائع نہیں ہوگی۔ ایک سلیمان داؤد ڈائیلیسز سینٹر ہے جس میں ایک سو کے قریب گردے صاف کرنے والی مشینیں دن رات کام کرتی ہیں۔ دیوان فیملی نے ایک پوری عمارت اس کام کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ کاؤس جی ٹرسٹ نے lithotripsy سینٹر کے لئے مشینیں (یہ مشینیں لیزر سے گردے کی پتھری کو تباہ کردیتی ہیں) اور بارہ گردے صاف کرنے والی مشینیں عطیہ کی ہیں۔ یہ مشینیں اُن مریضوں کے لئے وقف ہیں جن کے گردے ہپاٹائٹس سی کی وجہ سے خراب ہو چکے ہوں(جب میں ایوا سے یہ تفصیل معلوم کر رہا تھا تو اُنھوں نے مجھے سختی منع کیا کہ میں کاؤس جی ٹرسٹ کے عطیات کا کالم میں ذکر نہ کروں۔ افسوس ، میں ایسا کیے بغیر رہ نہیں سکتا)۔
میرا چونکہ یہاں کا دورہ بہت مختصر وقت کے لئے تھا ، اس لئے میں اس عظیم الشان ادارے کے بارے میں زیادہ کچھ نہ جان سکا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی معاونت کرنے والے بہت بڑے بڑے نام ہوں گے لیکن ڈاکٹر رضوی نے مجھے چائے پینے کے دوران بتایا کہ عام افراد، جیسا کہ پنجاب کے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے کسی ا سکول ٹیچر کی طرف سے آنے والا دو سو روپے کا منی آرڈر ،کسی ٹیکسی یا رکشہ والے کی چھوٹی سے عنایت، کسی مزدورکی تھوڑی سے جمع پونچی اُن کے لئے بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے لوگ بہت دریا دل ہیں۔ یہ لوگ کم وسائل کے باوجود کچھ بھی کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ان افراد کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس اعلیٰ ظرف قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے لئے بہت کم ظرف لوگ مسند اقتدار پر فائز ہوجاتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ، کچھ نہ کچھ خرابی ضرور ہے۔
میں SIUT میں کیوں آیا؟ اس کی وجہ اس ادارے کا معائنہ کرنا نہیں تھا بلکہ اپنا جسمانی معائنہ کرانا تھا۔ ہوا یوں کہ گزشتہ سہ پہر کو اردشیر کاؤس جی مرحوم کی یادیں تازہ کرنے کے لئے اُن کے دولت خانے پر تھا جب مشروبات کے کچھ گلاس پینے کے بعد میزبان ایوا اور کالم نگار آمینہ جیلانی نے نوٹ کیا کہ مجھے کچھ تکلیف ہے۔ چنانچہ وہ اگلی صبح مجھے SIUT لے آئیں۔ وہاں میرے دو ٹیسٹ کئے گئے جو بڑے بڑوں کو سیدھا کر دیتے ہیں۔ بہرحال ان ٹیسٹوں کی زیادہ تفصیل نا مناسب ہوگی، بہرحال اُن کی رپورٹ کے مطابق میرے پروسٹیٹ غدود ٹھیک تھے لیکن خون اور جگر کے لازمی ٹیسٹ کے بعد مجھے معالج ایک طرف لے گئے اور کہا کہ مجھے ایک دو ادویات لینا ہوں گی اور یہ بھی کہا کہ مجھے ”محتاط “ رہنا ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ کیا ”پر ہیز “ کرنا ہو گا توجواب ملا ․․․”اس کی تلافی ہو جائے گی“․․․ جواب کے الفاظ تو سہل تھے لیکن یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ کیا تلافی اس دنیا میں ہونی تھی یا اگلی دنیا میں۔ بہرحال معالج کے مشورے کو رد کرنا بھی دانائی نہیں ہے، چنانچہ آپ یقین کریں یا نہ کریں، آج کل پرہیز ہی پرہیز ہے۔
بہرحال اس علاج کو فروگزار کریں، کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ اگر ڈاکٹر رضوی اور اُن کی پر عزم ٹیم ، جس میں ڈاکٹر انور نقوی جیسے ماہرین شامل ہیں، SIUT جیسے ادارے کو نہایت رشک آفریں طریقے سے چلاسکتے ہیں تو وہ ، یااس وطن کے دیگر افراد قومی زندگی کے دیگر معاملات ، جیسا کہ تعلیم، توانائی اور ٹرانسپورٹ ، کا مناسب انتظام کیوں نہیں کر سکتے۔ ہمارے ملک میں حسن ِ انتظام ، جیسا کہ SIUT میں دیکھنے میں آیا، کی مثالیں ناپید کیوں ہیں؟اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم باصلاحیت لوگ نہیں ہیں۔ 2005 کے تباہ کن زلزلے کے دوران قوم نے بہترین ردِ عمل کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح 2009 کے سوات آپریشن کے دوران بھی دس لاکھ بے گھر افرادکے لئے انتظام کسی غیر ملکی ادارے نہیں ، بلکہ اسی وطن کے مخیر حضرات نے کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس خاکستر میں ابھی بھی چنگاریاں موجود ہیں۔ اگر ہم ایسے کام کر سکتے ہیں ، اگر ہم ایدھی فاؤنڈیشن جیسی بے مثال تنظیم چلا سکتے ہیں،اگر اس ملک میں شوکت خانم جیسا کینسر اسپتال عوامی چندے سے بن سکتا ہے، اگر SIUT اسلام اور سوشلزم کے علامتی ملاپ کے طور پر بہترین طریقے سے کام کر سکتا ہے ، توپھر خدارا سوچئے، ہم اتنے پسماندہ اور مفلوک الحال کیوں ہیں؟SIUT کسی دور افتادہ جزیرے پر واقع نہیں ہے، یہ کراچی کے قلب میں واقع ہے، اور کراچی کا نام آتے ہی تشدد اور خونریزی کا تصور ذہن میں آجاتا ہے، لیکن یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں ہمارے قومی خدوخال کے تمام دھارے متصل ہوتے ہیں۔ اسے بجا تو پر ”پاکستان ِ اصغر “ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں پاکستان کے ہر کونے سے آنے والے افراد رہتے ہیں۔ اگر کراچی میں اسی طرح جنگ و جدل ہوتا رہا تو پاکستان میں بھی امن قائم نہیں ہو سکے گا ، اور اگر اس شہر میں معاشی خوشحالی آتی ہے تو باقی ملک بھی خوشحال ہوگا۔ اگرچہ کراچی ہر قسم کی قومیتوں کی موجودگی رکھتا ہے لیکن ، یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بری، مہاجر یہاں کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہیں اور ایم کیو ایم ان کی نمائندہ جماعت ہے۔ الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم اب بہت آگے آچکی ہے۔ اس نے سیاسی طور پر بکھرے ہوئے گروہ کی تنظیم سازی کی ہے ۔ تاہم اب وقت آگیا ہے جب یہ ماضی کی بجائے مستقبل کے تقاضوں کی طرف دیکھے۔
بہرحال اب وہ دن جاچکے ہیں جب شہر میں صرف ایک پارٹی کا ہی جھنڈا لہراتا تھا۔ حالیہ انتخابات میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اب مخالف لوگوں کو دور بھگانے کی بجائے اُن کو قریب لایا جارہا ہے۔ اس شہر میں اجارہ داری کی بجائے ساجھے دار ی کی فضا قائم ہونے کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اب ناظم آباد اور ڈیفنس (یہ مقامات علامت کے طور پر استعمال کیے گئے ہیں) کے درمیان محاذآرائی کی بجائے تعاون پایا جاتا ہے۔ بہرحال اس شہر کی سیاسی قوتوں کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ انتہا پسند قوتیں بھی گھات میں ہیں۔ کیا الطاف حسین اور عمران خان اس ہم آہنگی کو آگے بڑھا سکتے ہیں؟کیا عمران خان ماضی کے تعصبات سے جان چھڑا سکتے ہیں ؟ کیا الطاف حسین اپنی ترجیحات کو تبدیل کر سکتے ہیں ؟اگر وہ بیک جنبش ِ قلم کراچی کی آرگنائزنگ کمیٹی کو برطرف کر سکتے ہیں تو یقیناً وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ صورت ِ حال پر اُن کی گرفت ہے۔ ا س بات کا کریڈٹ اُن کو دیا جانا چاہیے۔
پس ِ تحریر: پنجاب اب اگلے پانچ سالوں کے لئے بے کیف ہو جائے گا کیونکہ یہاں شہباز شریف کی حکومت قائم ہونے والی ہے۔ بہرحال سندھ اور کراچی میں بہت سے امکانات ابھر رہے ہیں اور اُن پر نظر رکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کچھ عرصہ بعد جب پی پی پی نے بھی اس گراوٹ کے بعد انگڑائی لے کر بیدار ہونا ہے اور اس نے آصف زرداری کی چھتری سے باہر نکل کر آزاد فضاؤں میں سانس لینا ہے۔ ایم کیو ایم بھی نئے امکانات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس طرح اگلے پانچ برس کے لئے سیاسی امکانات کا مقام کراچی ہوگا۔
تازہ ترین