• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اپنے شاندار مرحوم دوست عباس اطہر پر کالم لکھنے بیٹھا ہوں مگر صورتحال یہ ہے کہ رات بھر کا جاگا ہوا ہوں، رات ساڑھے گیارہ بجے لائٹ گئی تھی، صبح ساڑھے پانچ بجے آئی اور سات بجے پھر چلی گئی، نہ گھر میں لائٹ تھی نہ پانی تھا، ساری رات کروٹیں بدلتے بسر ہوئی، صبح نہا بھی نہیں سکا۔ کپڑے بھی استری نہ ہوئے اور اب پژمردگی کے عالم میں کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا ہوں!
اور میرے خیال میں اپنے دوست کے بچھڑنے کا نوحہ شاید اسی اضطراب اور بے قراری کے عالم ہی میں لکھا جا سکتا تھا، عباس اطہر سے میری ملاقات بہت تاخیر سے ہوئی اور جدائی جلدی ہو گئی وہ سید تھے چنانچہ میں انہیں ”شاہ جی“ کہتا تھا، تو شاہ جی ایک اعلیٰ درجے کے اخبار نویس تھے انہوں نے بہت سے اخباروں میں کام کیا، ان اخباروں میں بھی جو ان کے نظریات سے لگا نہیں کھاتے تھے وہ بھٹو کے عاشق تھے، پی پی پی سے تو انہیں شکایتیں پیدا ہوئیں مگر بھٹو سے ان کا عشق آخری سانس تک جاری رہا، لیکن جب وہ کسی اخبار میں نیوز ایڈیٹر کی نشست سنبھالتے تو اس وقت وہ صرف ایک صحافی ہوتے جو خبر دیتے وقت غیر جانبدار ہوتا ہے۔ تجزیہ نگار کے طور پر غیر جانبدار ہوتا ہے اور اداریہ لکھتے وقت وہ ادارے کی رائے کا اظہار کرتا ہے لیکن جب وہ کالم لکھتا ہے تو وہ غیر جانبدار نہیں رہتا۔ صحافت کی اصطلاح میں کالم ”ذاتی رائے“ کے اظہار کا نام ہے چنانچہ کوئی کالم نگار غیر جانبدار نہیں ہوتا اور نہ اسے ہونا چاہئے کیونکہ ایک دانشور کے طور پر اسے قوم کو اپنا ہم نوا بنانا ہوتا ہے۔ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ملک و قوم کی بہتری اور فلاح کے لئے اپنے قلم کے ذریعے اپنے قارئین کو MOTIVATE کرتا ہے اور اسے اس کا حق صرف اسی صورت میں ہے جب اس کی یہ ذاتی رائے مفاداتی رائے نہ ہو۔ میں نے آج ہی یک نہایت خوبصورت مقولہ پڑھا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں
"THE DARKEST PLACES IN HELL ARE RESERUED FOR THOSE WHO MAINTAIN THRER NEUTRALTY IN TIMES OF MORAL CRISIS."
(ان لوگوں کے لئے جہنم کے تاریک ترین گوشے مختص کر دیئے گئے ہیں۔ جو اخلاقی بحران میں اپنی غیر جانبداری برقرار رکھتے ہیں!)
تو میرا دوست عباس اطہر جب بطور کالم نویس اپنا قلم ہاتھوں میں تھامتا تو وہ غیر جانبداری کو ایک طرف رکھ دیتا تھا اور اس سچ کے ساتھ کھڑا نظر آتا تھا جو اس کا سچ تھا۔ شاہ جی ایک بہترین کالم نگار تھے۔ وہ سادہ اور سلیس لکھتے ان کے کالم کو سمجھنے کے لئے کوئی تحقیقاتی کمیشن تشکیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی جو قوم کو اس کی تحریر میں چھپے مطالب تک رسائی دے۔ ان کی تحریر میرے مزاج کے مطابق تھی۔ اس میں ہلکی پھلکی طنز اور مزاح کی جھلکیاں پائی جاتی تھیں اور یہ انداز ان کی عام گفتگو میں بھی موجود تھا۔ میں وہ دن نہیں بھول سکتا جو ہم نے لندن میں ایک ساتھ گزارے۔ ہم تقریباً ایک ہفتہ ایک ہی ہوٹل میں آمنے سامنے والے کمروں میں ٹھہرے ہوئے تھے ہمارے ساتھ عطاء الرحمن بھی تھے اور یہ دونوں دوست زیادہ تر وقت میرے کمرے ہی میں گزارتے تھے، لندن میں سابق سنیٹر میاں محمد اقبال ایک طویل عرصے سے مقیم ہیں جو پی پی پی کے بانی ارکان میں سے ہیں وہ ہم دوستوں سے ملنے آئے تو چونکہ بہت عرصے کے بعد انہیں دل کا غبار نکالنے کا موقع ملا تھا۔ چنانچہ وہ نان اسٹاپ گفتگو کرتے رہے۔ ایک موقع پر جب وہ سانس لینے کے لئے رکے، تو عباس اطہر کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے میاں صاحب کو مخاطب کر کے کہا ”میاں صاحب، میری تو خیر ہے لیکن آپ کو شاید علم نہ ہو کہ عطاء الحق قاسمی صاحب پاکستان کی CELEBRITY ہیں۔ چونکہ بہت سے لوگ ان سے بات کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں، چنانچہ انہوں نے پانچ پاؤنڈ فی منٹ کے حساب سے بات سننے کا ریٹ فکس کر رکھا ہے۔ تاہم چونکہ ان سے آپ کی پہلی ملاقات تھی لہٰذا انہوں نے آپ کی گفتگو ابھی تک بالکل فری سنی ہے۔ اب انہوں نے اپنا میٹر آن کر دیا ہے۔ آپ پانچ پاؤنڈ فی منٹ کے حساب سے جتنی گفتگو چاہیں کر سکتے ہیں۔“ جس پر ہمارے ساتھ خود میاں صاحب نے بھی کھل کر قہقہہ لگایا۔ بات ہو رہی تھی شاہ جی کی کالم نگاری کی، تو گزشتہ کئی برسوں سے ان کا موضوع جمہوریت کا استحکام تھا چنانچہ میاں نواز شریف سمیت ان تمام رہنماؤں کے لئے ان کا دلی احترام ان کی تحریروں میں نظر آتا تھا جو حریفوں سے مینے سننے کے باوجود ماضی کی سیاست گری سے بیزار نظر آتے تھے جبکہ زندگی سے بھرپور یہ شخص جب زبانی گفتگو کرتا تھا تو معاشرتی، تدبری اور سیاسی صورتحال پر ایسے ایسے تخلیقی ہجویہ جملے اس کی زبان سے ادا ہوتے کہ ہنسی رکے نہیں رکتی تھی اور ان میں چھپے درد کی وجہ سے آنسو پلکوں کی دہلیز تک آن پہنچتے تھے! کاش یہ جملے احاطہٴ تحریر میں لائے جا سکتے!
شاہ جی اگرچہ دوستوں کی محفل میں گفتگو کے دوران خاصے پھکڑ بلکہ خاصے ”بے شرم“ نظر آتے تھے لیکن محفلوں میں بہت شرمیلے واقع ہوئے تھے۔ میں نے انہیں مختلف تقاریب میں مدعو کیا لیکن وہ اس وعدے پر شرکت کرتے کہ انہیں اسٹیج پر نہیں بلایا جائے گا تاہم یہ خبر ہم سب دوستوں کے لئے حیران کن تھی کہ وہ ایک ٹی وی چینل پر بطور اینکر آ رہے ہیں۔ وہ آئے ضرور مگر ان کا شرمیلا پن وہاں بھی نہیں گیا۔ وہ تین چار ”بحثیوں“ کو جن میں کبھی کبھار میں بھی ہوتا تھا اپنے پروگرام میں مدعو کرتے اور کہتے ”لو آپ ای شروع ہو جاؤ“ اور ہم شروع ہو جاتے۔ پھر ٹائم ختم ہونے پر ایک جھٹکے سے پروگرام کے اختتام کا اعلان کرتے۔ اور اس کے بعد کیمرہ آف ہوتے ہی ہم ہوتے اور ان کی گل افشانی گفتار ہوتی۔ شاہ جی کی ایک بات جو مجھے بے حد پسند تھی وہ ان کا ریا کاری سے پاک ہونا تھا۔ ان کے چہرے پر کوئی خول نہیں تھا، کوئی ملمع نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی اپنا عیب نہیں چھپایا اور کبھی اپنی خوبیوں کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا۔ ایک دن مجھے کہنے لگے ”عطا صاحب! آپ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں کیا آپ کو میری ساری ”کرتوتوں“ کا علم ہے؟“ میں نے ہنستے ہوئے کہا ”شاہ جی، مجھے آپ کی ”اچی بچی“ کا علم ہے مگر آپ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ البتہ میں ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھ سکتا جو خود ہر طرح کی گندگی میں ملوث ہیں اور ہاتھ میں رومال لئے ہر جگہ صفائی کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ آپ کی ذات میں اگر چند خامیاں ہیں تو آپ کی خوبیاں ان سے کئی گنا زیادہ ہیں!“ بولے ”چلیں آپ میری کوئی ایک خوبی بتا دیں!“ میں نے ہنستے ہوئے کہا ”آپ مجھے اس کیلئے چند روز دیں۔
اس دوران میں سوچوں گا کہ آپ میں کیا خوبی ہے!“ اس پر انہوں نے بھرپور قہقہہ لگایا جو انہوں نے شاید زندگی میں ایک آدھ بار ہی لگایا ہو گا، ورنہ وہ زیادہ تر مسکراتے یا دبی آواز میں ہنستے تھے۔ اور اب خوبی کی بات سن لیں۔ باقی خوبیاں فی الحال رہنے دیتا ہوں کہ یہ کالم ہے مقالہ نہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی جو انہیں جنت کے دروازے تک لے جائے گی وہ ان کے دل میں غریبوں اور ضرورت مندوں کے لئے بے پناہ ہمدردی کا جذبہ تھا اور یہ جذبہ صرف جذبہ نہیں بلکہ عمل کی شکل میں اختیار کرتا تھا۔ ان کا گھر اور ان کا دفتر حاجت مندوں سے بھرا رہتا۔ وہ ان کے چھوٹے بڑے سب کام کرنے کی کوشش کرتے ایک دوست (نام یاد نہیں رہا) بتاتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے اپنی مٹھی کھولی جس میں بہت سی پرچیاں تھیں اور کہا ”یہ ضرورت مندوں کے کاموں کے حوالے سے ہیں۔ ان میں سے دو پرچیاں آپ اٹھا لیں اور ان کے لئے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کریں!“ تو مخلوق خدا سے محبت کرنے والے اس شخص سے اس کا خدا کیسے ناراض ہو سکتا ہے، جس کی لغزشوں کا تعلق صرف خدا اور اس کے بندے کے درمیان تھا؟
میں شاہ جی کے آخری دنوں میں ان کی عیادت کے لئے ہسپتال گیا۔ میری ان سے ایک عرصے تک تقریباً روزانہ فون پر گپ شپ ہوتی تھی مگر جب دو تین دن تک ان کا فون مجھے بند ملا تو پتہ چلا کہ وہ تو ہسپتال میں داخل ہیں۔ مجھے ان کی بیماری کا علم تھا۔ اس کے علاج کے لئے ان کے ادارے نے انہیں بیرون ملک بھی بھیجا تھا، وہ وہاں سے بہتر حالت میں واپس آئے تھے لیکن جب سول اینڈ ملٹری ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوا، تو وہاں کوئی اور عباس اطہر بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے باتیں کیں لیکن وہ باتیں ایسی تھیں جو الوداعی ملاقات میں کی جاتی ہیں۔ میں سخت دل گرفتگی کے عالم میں وہاں سے لوٹا… اور پھر اس کے جنازے میں میں نے دیکھا کہ پورا شہر امڈ آیا تھا، اتنی محبت ہر ایک کو کہاں نصیب ہوتی ہے؟ میں سب سے آخر میں شاہ جی کی شاعری کا ذکر دو تین جملوں میں کرنا چاہتا ہوں حالانکہ شاعری ان کا پہلا حوالہ تھا لیکن چونکہ شاعری کو انہوں نے بہت پیچھے پھینک دیا تھا اور ان کی صحافت آگے نکل گئی لہٰذا اس کا ذکر بھی آخر میں کر رہا ہوں۔ وہ نئی نظم کے اہم شاعروں میں سے تھے جب شاہ جی نے یہ نظمیں کہیں، اس وقت یہ آواز بالکل نئی تھی۔ وہ اگرچہ بعد میں صحافت کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے لیکن ادبی حلقوں میں ان کا سب سے مضبوط حوالہ ان کی یہ نظمیں ہی تھیں تاہم انہیں ان کی صحافت سے بھی زیادہ ان کی شاعری کے حوالے سے تادیر یاد رکھا جائے گا!
آج جبکہ ساری رات لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے اضطراب اور بے قراری میں گزاری ہے۔ مجھے یقین ہے پاکستانی قوم کو اس طرح کی راتیں زیادہ عرصے تک نہیں گزارنا پڑیں گی۔ جمہوری استحکام ہماری زندگیوں میں روشنی ضرور لائے گا جو شاہ جی کا خواب تھا۔ اور خود شاہ جی کی اپنی شاعری بھی ان اندھیروں کو مات دینے کے لئے موجود ہے۔ تو یارو ان کے ہوتے ہوئے ہمیں مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اور ہاں، شاہ جی کی جدائی کا غم اپنی جگہ، مگر مجھے یقین ہے وہ جہاں گئے ہیں وہاں بھی خوش ہوں گے۔ انہوں نے اللہ کے بندوں کو خوش رکھا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ نے اپنے اس بندے کو خوش نہ رکھا ہو؟
تازہ ترین