• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام گہری ہوئی تو سامنے وادی میں روشنیاں جلنا شروع ہوگئیں۔ دور تک سفید پتھروں سے بنے مکانات کی گنجان بستیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ ہم ایک کثیر منزلہ ہوٹل کی دسویں منزل کے کشادہ برآمدے میں ایک ضیافت میں شریک تھے۔ دنیا کے کئی ملکوں سے آئے ہوئے صحافی اور میڈیا کے نمائندے ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کے عمل میں مصروف تھے۔ لیکن وہ سحر انگیز منظر جیسے گفتگو میں حائل ہورہا تھا۔ اگر میں آپ کو یہ بتاؤں کہ یہ اردن کے دارالحکومت عمان کا ذکر ہے تو شاید آپ میری جذباتی کیفیت کا اندازہ لگا پائیں۔ ہمارے سامنے عمان کا پرانا شہر جاگ رہا تھا اور مجھے اس بات کا احساس تھا کہ بیت المقدس وہاں سے اتنی دور بھی نہیں تھا کہ جتنا کراچی سے ٹھٹھہ…ایک ہولناک خانہ جنگی کے عذاب میں مبتلا شام کا فاصلہ اس سے کچھ ہی زیادہ تھا۔ مجھے یاد آیا کہ چند سال پہلے میں ایک ٹیکسی لے کر عمان سے دمشق گیا تھا اور تاریخ کی طویل مسافتوں کے اس سفر میں کوئی تین گھنٹے لگے تھے۔ میں گزشتہ اتوار کی بات کررہا ہوں یہ انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ یعنی آئی پی آئی کی رواں سال کی عالمی کانگریس کی افتتاحی تقریب تھی جس میں شرکت کیلئے میں نے تقریباً چار دن عمان میں گزارے۔ یوں تو اردن ایک ترقی یافتہ عرب ملک کی دلکش تصویر پیش کرتا ہے اور عمان ایک ہنستا بستا خوبصورت شہر ہے کہ جس میں سیاحوں کی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے لیکن صحافیوں کی ساری توجہ عرب دنیا میں پائی جانے والی، ہلچل اور شام کی خونریزی پر مرکوز تھی۔
اب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ میں کانگریس کی پوری کارروائی پر تبصرہ کروں اور ان تمام موضوعات کا حوالہ دوں جو زیربحث آئے۔ یوں بھی، اس نوعیت کے اجتماعات کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اتنے مختلف اور اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھنے والوں سے بے تکلف ملاقاتیں ہوجاتی ہیں۔ عمان کی کانگریس میں دو سو سے کچھ کم مندوبین شریک تھے۔ کئی معروف نام اور جانے پہچانے چہرے بھی تھے۔ مثلاً سی این این کے ایک بڑے اینکر جم کلانسی نے دو اجلاسوں کی نظامت کی۔ مسلمان دنیا کے حالات کے بارے میں مجھے ان سے گفتگو کا موقع بھی ملا اور ہم نے عراق پر امریکی حملے سے پیدا ہونے والی تباہی اور اس کے اثرات کو شام میں جاری موجودہ خانہ جنگی سے ملاتے ہوئے کئی باتوں پر اتفاق کیا۔ البتہ شام کے بارے میں امریکی میڈیا کی جانب داری کے میرے الزام کو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ آئی پی آئی بنیادی طور پر آزادی صحافت کی علمبردار ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم مسئلہ صحافیوں کے تحفظ کا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کا بھی نام آیا گو فی الوقت شام صحافیوں کے لئے سب سے خطرناک ملک ہے۔ بلکہ شام میں جاری جنگ کی رپورٹنگ تقریباً ناممکن ہوگئی ہے۔ پوری دنیا میں سچ کا کھوج لگانے والے اور جبر کو للکارنے والے صحافی اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں۔ کانگریس میں سوشل میڈیا پر کافی غور کیا گیا۔ یہ سوال بھی اٹھاکہ اب صحافی کون ہے کیونکہ سوشل میڈیا تو سب کیلئے ہے اور عام خیال یہ تھا کہ سوشل میڈیا نے جو جگہ بنائی ہے اس کی حفاظت کرنا چاہئے۔ کرپشن پر بھی ایک سیشن ہوا۔ اس سیشن کے دوران میں نے سوچا کہ ہم اپنے حکمرانوں کو ہی اس میدان کا سورما سمجھتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کی کہانیاں زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ انسانی حقوق پر عمل کرنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ جان کر کچھ تسلی ہوئی کہ ہماری طرح بیشتر ملکوں کے صحافی بھی اپنے ملک کے حالات سے خوش نہیں ہیں۔ اور ہاں۔ کسی نے ”لفافہ جرنلزم“ کی کہانیاں بھی سنائیں۔ مذہب اور آزادی صحافت کے تعلق پر جو اجلاس ہوا اس کی میزبانی ایک خاتون نے کی۔ باربار، اس عزم کو دہرایا گیا کہ میڈیا پوری دیانتداری کے ساتھ سچ کے پرچم کو بلند رکھے۔ غربت اور ناانصافی کے خلاف جنگ میں شریک رہے۔ اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ سچ کو طاقتور بنانے اور وہ جو طاقتور ہیں انہیں سچ بولنا سکھائے۔
عام طور پر ایسی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہوئے ایک الجھن یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ پاکستان کی صورتحال کو کس طرح پیش کیا جائے۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ مجھے اپنے ملک کے ذکر کو ٹالنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ پاکستان کے انتخابات کی خبریں ساری دنیا میں دلچسپی کا باعث رہی ہیں۔ سب کا خیال ہے کہ ان انتخابات کے نتائج امید افزا ہیں۔ کئی مندوبین نے مجھے مبارکباد بھی دی جو میرے لئے ایک اچھوتا تجربہ تھا۔ اس طرح عمان میں میرا وقت اچھا گزرا۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، زیادہ مزا، رسمی اجلاسوں سے باہر کی مصروفیات میں آتا ہے۔ اس دفعہ عمان دیکھنے اور عرب دنیا کو گہری نظر سے دیکھنے والے مبصروں سے بات چیت کا موقع بھی ملا۔ بدھ کے دن، اپنی روانگی سے پہلے، اویس اسلم علی کے ساتھ پرانے شہر کا ایک چکر بھی لگا لیا۔ اویس آئی پی آئی میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں اور پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ اردن کی آبادی کوئی ساٹھ لاکھ ہے اور عمان کی آبادی بیس لاکھ سے کچھ زیادہ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پورے ملک کی آبادی کراچی شہر کی نصف آبادی سے بھی کم ہے۔ پھر بھی، عمان ایک بڑے شہر کی تصویر پیش کرتا ہے۔ کافی چہل پہل رہتی ہے ۔ سڑکوں پر نئی گاڑیوں کی بھرمار ہے۔ مسلمان ملکوں میں خواتین کی کیا حیثیت ہے اس کا ایک پیمانہ میری نظر میں یہ ہے کہ کیا وہ سورج غروب ہونے کے بعد سڑک پر تنہا چل سکتی ہیں یا نہیں۔ عمان اس معیار پر پورا اترا۔ خواتین دفتروں میں کام کرتی ہیں۔ پر اعتماد دکھائی دیتی ہیں۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ خواتین اپنے ساتھ چلنے والے یا بیٹھے ہوئے مردوں سے زیادہ باوقار اور مہذب دکھائی دے رہی تھیں۔ شاید یہ بھی دنیا کے بدلنے کی ایک شگفتہ علامت ہے۔ یا یہ کوئی پہیلی ہے جسے بوجھنے کی ہم ہمت نہیں کرپاتے؟ کچھ بھی ہو۔ اپنے اطراف کی بدامنی، شورش اور مار دھاڑ کے باوجود، اردن کے حالات بہت ٹھیک لگتے ہیں۔ لیکن مشرق وسطیٰ کے دیرینہ مسائل کی ایک جھلک بھی آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ ملک کی آدھی آبادی فلسطینی ہے۔ سرگوشی میں کہی گئی کئی باتوں نے ظاہری سکون اور آسودگی کے پس منظر میں سر اٹھاتی تشویش اور بے یقینی کی طرف بھی اشارہ کیا۔ قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ تعلیم کا معیار تسلی بخش نہیں ہے۔ شام کی صورت حال اور اسرائیل کی مداخلت کوئی بھی کروٹ لے سکتی ہے۔ ڈر لگتا ہے۔ غیرملکیوں سے اور ایک دو سفارتی نمائندوں سے بھی گپ شپ رہی۔ دنیا کیسے بدل رہی ہے اس کو سمجھنا بہت دشوار ہے۔ جسے ”عرب اسپرنگ“ کہا جاتا ہے اور جس موسم بہار کا آغاز قاہرہ کے التحریر چوک میں دو سال قبل ہوا تھا اس کے نتائج کبھی امید افزا لگتے ہیں اور کبھی انتہائی پریشان کن اور یہ میڈیا کا کام ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات پر گہری نظر رکھے اور آنے والے زمانے کی پیش بینی کرے۔ مئی کے یہ گرم دن بھی ایک طرح سے پاکستان کی سیاست کے لئے موسم بہار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ یا یہاں بھی ڈر لگتا ہے۔
تازہ ترین