• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وبا ابھی ٹلی نہیں، پاکستان میں البتہ وبا کا اثر کم نظر آیا۔ پاکستانی عوام جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ، شروع میں کچھ پریشان اور بےچین رہے مگر بعد میں وبا کے خوف سے کچھ آزاد نظر آئے۔ بین الاقوامی ادارے اِس وبا سے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں تو ابھی تک وبا اپنا زور دکھا رہی ہے اور وہاں کی معیشت بھی دائو پر لگ چکی ہے۔ ہمارے ہاں وبا نے اپنا اثر دکھایا ضرور مگر عوام کو خوف زدہ کرنے میں ناکام نظر آئی۔ عوام تو سرکار کی طرف دیکھتے ہیں اور ہماری سرکار کوشش بھی کرتی ہے مگر نوکر شاہی کی گرفت، نفاذِقانون کی کمزوری نے گویا وزیراعظم پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ پاکستان میں آج کل سرکاری تقریبات تو زیادہ نظر آئیں۔ البتہ سیاسی تقریبات کا کوئی انت نہیں۔ ایسے میں مجھے لاہور کارپوریشن کے حاکمِ اعلیٰ کی جانب سے منفرد قسم کا دعوت نامہ ملا۔ حیرانی اور خوشی دونوں میری تشویش میں شامل تھے۔ مدعو کرنے والے اعلیٰ حاکم کا جب نام اور عہدہ دیکھا تو 30سال پرانے دوست اور دن یاد آگئے۔ حیران نہ ہوں، دعوت نامہ کمشنر لاہور ذوالفقار احمد گھمن کی طرف سے تھا۔ ان سے تعلقات کا آغاز بہت سال پہلے ہوا جب وہ تازہ تازہ اے سی کینٹ لاہورتعینات ہوئے تھے۔

لاہور ایک منفرد شہر ہے، لاہور والے ایک بات بہت زور دے کر کہتے ہیں، وہ ہے تو پنجابی میں مگر اردو میں بیان کرتا ہوں ’’جس نے لاہور نہیں دیکھا اُس نے کچھ بھی نہیں دیکھا‘‘۔ ایک زمانہ تک یہ بات سچ ہی تھی اور پیار کرنے والے تو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں مگر اب یہ بات درست نہیںلگتی، اس پر کیا بحث کرنی۔ ایک بین الاقوامی تنظیم جس کا پاکستان پر بہت اثر بھی ہے۔ اور یہ اقوامِ متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسکو (UNESCO)ہے، اُس کا پاکستان میں دفتر اسلام آباد میں ہے۔ وہ دنیا بھر میں ثقافت اور ادب کے فروغ کے حوالے سے اپنی پہچان کراتی ہے اور جن خطوں میں ثقافت خطرے میں ہو اور ادب نظر انداز ہو رہا ہو، وہاں ان کی مدد کرتی ہے۔ یونیسکو نے لاہور شہر کو چنا اور شامل کیا، اُن شہروں میں جو ادب کے ناتے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں یونیسکو کی افسرِ خاص اس اعزاز کو بخشنے کے لئے لاہور کی تقریب میں شرکت کر رہی تھیں اور اس تقریب کے مہمانِ خصوصی پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار تھے۔ جب میں تقریب کے لئے روانہ ہوا تو لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک کا ناقابلِ یقین رش تھا اور ٹریفک پولیس بےبسی کی تصویر نظر آرہی تھی۔

یہ تقریبِ خاص الحمرا کے لان میں رکھی گئی تھی۔ موسم بھی مناسب تھا۔ سردی پسپا ہوتی نظر آرہی تھی۔ میں حیران تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی آمد کی توقع ہے مگر ویسا ماحول نہیں؟ رک جائو اور ہٹ جائو کا شور شرابہ نہیں تھا۔ سابق وزیراعلیٰ جو خادمِ اعلیٰ کہلاتے تھے، اُن کے زمانۂ عیش میں سیکورٹی بڑی سخت اور عوام کو خواص سے کافی دور رکھا جاتا تھا، میڈیا کے لوگوں کو باور کرایا جاتا تھا کہ سوال نہیں کرنا اور بات صرف سننی ہے مگر اب لگتا ہے حالات کا ستم زیادہ ہے۔ میڈیا بھی کچھ کچھ کند سا لگ رہا ہے۔ خیر یہ شکایت ہے نہ شکوہ بس حالات کا ستم ہے جو پڑھنے اور بڑھنے والوں کی علمیت نہیں دیکھتا بلکہ زورا زوری اور حلقہ اثر اور ہم خیالی کے ناطے صحافت میں سرگرم عمل ہے۔ بات ہورہی تھی تقریبِ خاص کی جسے یونیسکو اپنے سایہ میں رکھنے کا وچن دینے جا رہی ہے۔ یہ لاہور کی خوش قسمتی کی درخشاں مثال ہے۔

بےشمار سرکاری ملازموں کے درمیان سے گزرتا ہوا جب تقریب کے لان تک پہنچا تو ایک ایسا شخص نظر آیا جسے دیکھ کر مجھے کچھ کچھ شنانتی محسوس ہوئی اور اس مہربان نے بھی ایسے استقبال کیا کہ دل شاد ہوگیا۔ یہ بندہ پنجاب سرکار کا نوجوان افسر امان قدوائی تھا۔ میرے مہرباں اور محسن جناب سید انور قدوائی کا فرزند اور دیکھنے میں ان کی جوانی کی تصویر مگر انور قدوائی زیادہ دلبر تھے۔ امان قدوائی سے پوچھا: یہ اتنا سب کچھ جو بہت اچھا اور منفرد ہے، اس میں تمہارا کتنا ہاتھ ہے؟ اس کے چہرے پر خوشی تھی، بولا ہمارے کمشنر لاہور ذوالفقار احمد گھمن کی سوچ اور عمل کی بدولت ایسا نظر آرہا ہے۔ مجھے 30سال پہلے کا ذوالفقار گھمن یاد آیا جو لاہور ایئر پورٹ پر کارِسرکار کی جانب سے آتا، دوستوں کے ساتھ گپ لگاتا اور چٹکلے چھوڑتا اور سب کو راضی رکھتا۔ امان قدوائی نے مجھے سٹیج کے نزدیک اجلی دھوپ میں ایک نشست پر جمنے کی درخواست کی اور اتنے میں ایک اور باریش فقیر نما شخص میرے گلے لگ چکا تھا۔ میں نے نور میاں کو دیکھا اور گلے لگ گیا۔ بابا یحییٰ کا بالکا اس تقریب کا خصوصی تعلق دار تھا۔

نور میاں سلوک کی دنیا کے درویش ہیں۔ ڈراموں میں ان کا فن نظر آتا ہے اور عام زندگی میں دوستوں کے دوست اور قدر دان ہیں۔ ان سے زیادہ ملاقاتیں میرے پسندیدہ مصنف جناب اشفاق احمدخان کے گھر پر ہوتی تھیں۔ اصل میں اس تعلق کو مضبوط اور مربوط بنانے میں ایک معروف اشاعتی ادارے کے روح رواں افضال احمد کا بہت ہاتھ ہے۔ وہ بھی تقریب میں مدعو تھے مگر نظر نہیں آئے۔ دوستوں میں سے سہیل وڑائچ، حسن نثار، مجیب الرحمٰن شامی بھی غیر حاضر تھے۔ نور میاں نے اس مجلس خاص میں اپنی گفتگو سے خوب رنگ بھرا۔ ذوالفقار گھمن نے بھی کمال کی تقریر کی۔ یونیسکو کا شکریہ اچھے انداز میں ادا کیا اور آئندہ کے منصوبوں کا ذکر کیا۔ دعا ہے کہ رب ان کو لمبی عمر دے اور سرکار کو حوصلہ تاکہ ذوالفقار گھمن لاہور کی ثقافتی شکل مزید بہتر بنا سکیں۔

نور میاں کے بیان میں صرف ایک چیز کی کمی نظر آئی انہوں نے پاک ٹی ہائوس کا ذکر نہیں کیا جو لاہور کے ادیبوں کی چوپال تھی۔ خیر کچھ اچھی چیزیں اکثر رہ بھی جاتی ہیں۔ تقریب کی مہمان خصوصی، وزیر اعلیٰ پنجاب کی عدم دستیابی کی وجہ سے ڈاکٹر فردوس اعوان تھیں۔یونیسکو کی افسرخاص نے انگلش میں تقریر فرمائی اور تاسف کا اظہار کیا کہ ان کو اردو نہیں آتی۔ کاش ان کی انگلش کا ترجمہ کوئی بااعتماد شخص کرسکتا۔ انہوں نے احسان جتائے اور بتایا کہ مہربانی کی وجہ لاہور شہر کی نفاست اور قدامت ہے۔ اب دیکھیں یونیسکو کا امدادی پیسہ کیسے اور کہاں کہاں خرچ ہوتا ہے ؟کوئی بتا رہا تھا کہ اس تقریب میں ان کا بھی حصہ ہے ۔ اب حصہ داری ہر جگہ ہو رہی ہے۔ یہ تقریب لاہور کی سیاست میں ایک اچھی ثقافتی روایت ہے۔ لاہور کی ثقافت پلٹ تو نہیں سکتی مگر بدلنے ضرور جا رہی ہے۔

تازہ ترین