• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لارڈ میکالے بھی عجب مظلوم نوشتہ لے کر دنیا میں آیا تھا۔ برطانیہ عظمیٰ سے نو آبادیات میں بھیجا جانے والا عالی دماغ جس نے مشرق کی زمینوں پر مغربی علوم کا پودا لگایا، ہندوستان کو تعزیری قوانین کا ایسا مجموعہ دیا کہ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور برما میں قانون کی عمارت اسی بنیاد پر استوار ہے۔ مگر پھر آزادی کے متوالے سامنے آئے۔ بنگالی قوم پرست تھے یا پنجابی حریت پسند، علی گڑھ کے پروردہ سرکشیدہ نوجوان تھے یا آزادی کے بعد ریاست کی مذہبی تعبیر کرنے والے راشٹریہ سیوک سنگھ اور جماعت اسلامی، جس نے سر اٹھایا، غریب میکالے کو گالی دیتا ہوا نکل گیا۔ اکبر الٰہ آبادی بھی ڈبل روٹی کھانے والے کلرک پر میکالے کا نام لے لے کر طعنہ زنی کرتے رہے۔ یہ نہ بتایا کہ انہوں نے اپنے صاحبزادے عشرت میاں کو کس مدرستہ العلوم میں تعلیم پانے لندن بھیجا تھا۔ اقتدار کے فرنگی اور مقامی ڈھانچوں سے جنم لینے والے اصل عفریت کی طرف دھیان نہیں دیا گیا۔ انگریز یہاں انڈین سول سروس کے مٹھی بھر گورے صاحبوں کے ذریعے حکومت کرتا تھا۔ یہ لوگ انتظامیہ چلاتے تھے ، امن و امان قائم رکھتے تھے، مالیانہ لگان جمع کرتے تھے،سڑکیں تعمیر کرتے تھے، نہروں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور یہ امر یقینی بناتے تھے کہ مقامی باشندوں میں سیاسی اختیار کی امنگ پیدا نہ ہونے پائے۔ برطانوی راج کی سول سروس خود بھی سیاست میں صرف اس حد تک دخل دیتی تھی کہ مقامی سطح پر اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اور خاندانوں کو کیسے قابو میں رکھا جائے۔ ہندوستان کی اصل حکومت لندن سے چلائی جاتی تھی جہاں برطانیہ کے منتخب رہنما سیاسی فیصلے کرتے تھے۔ گویا انتظامیہ اور حکومت میں واضح فرق موجود تھا۔ انتظامیہ روزمرہ کا بندوبست چلاتی ہے۔حکومت فیصلہ سازی کے اس اختیار کا نام ہے جس کی مدد سے کسی قوم کے مستقبل کی صورت گری کی جاتی ہے۔انتظامیہ غیر سیاسی ہوتی ہے اور حکومت نام ہی سیاست کا ہے۔ یہ باریک باتیں ہم ہندوستان کے رہنے والے باشندے کیا سمجھتے۔ ہمیں تو لاٹ صاحب کی کوٹھی میں بیٹھا صاحب اور اس کی میم نظر آتے تھے۔ ہم ڈپٹی کمشنر، پولیس کپتان اور نہر کے انجینئر ہی کو حکومت سمجھتے تھے اور خواب دیکھتے تھے کہ ہمارا صاحبزادہ بھی انٹرنس کی انگریزی پاس کر لے تو افسر کیا بادشاہ بن جائے گا۔ ہمارے اولین گل چینوں میںآ ڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کے آفیسرغلام محمد کا نام بھی آتا ہے جو گورنر جنرل اور پھر محسن ملت ہوگئے تھے۔ لاہور میں ان کی بزرگ والدہ اپنے ملنے والی عورتوں کو بتایا کرتی تھیں کہ ان کا بیٹا بادشاہ لگ گیا ہے۔ خوش حال نیز پارسا افراد کے پسندیدہ مصنف قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت ’شہاب نامہ‘اردو کی مقبول ترین تصانیف میں شمار ہوتی ہے۔شہاب صاحب کو بھی بادشاہ کہلانے کا شوق تھا اور ان کے نورتن بھی کچھ ایسے گمنام نہیں ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کی روایت میں کچھ اور سرکاری افسروں نے بھی خود نوشت سوانح عمری کا ڈول ڈالا۔ گزارش ہے کہ مختار مسعود اور شیخ منظور الٰہی کو سول سروس سے تعلق کے باوجود اس صف سے باہر رکھا جائے۔ یہ دونوں حضرات اپنے ادبی مقام اور جذب شوق کے لئے سرکاری عہدے کے محتاج نہیں تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مختار اور منظور اردو نثر کے محسنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہاں تو ان اصحاب کا ذکر منظور ہے جن کا کل تعارف پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو اور اس کے عواقب پر محیط ہے۔ کچھ برس پہلے ایک نامور سول سرونٹ جیون خان کی خودنوشت ’جیون دھارا‘کا چرچا ہوا۔ جنرل ضیاالحق کے عہد اور اس کے بعد آنے والے عشرہ زیاں کے دوران جیون خان صاحب کا بہت شہرہ تھا۔جیون دھارا کے مطالعے کا اشتیاق رہا۔ ہمارے ملک میں کتاب کی اشاعت ، تقسیم اور رسائی کا کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں کتابوں کی عمومی تعداد اشاعت ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ کتاب چھپنے کے کچھ عرصے بعد عنقا ہوجاتی ہے، لائبریریاں موجود نہیں ہیں اور کتب فروشی کی ثقافت پیسہ اخبار کے زمانے میں رکی ہوئی ہے۔ مطلوبہ کتاب کا ہاتھ آنا لطیفہ غیبی سے کم نہیں۔ اتفاق سے کتابوں کی ایک نیم تاریک دکان کے گرد آلود گوشے میں جیون دھارا کا نسخہ نظر آگیا۔گویا ایک بھلے آدمی سے ملاقات کا موقع مل گیا۔
جیون خان صحیح معنوں میں شریف اور سادھارن آدمی ہیں۔ مزاج میں انکسار کا پہلو نمایاں ہے۔انسانوں کی بھلائی میں تسکین کے متلاشی رہے۔ جھنگ کے ایک شریف مگر گمنام گھرانے کا چراغ تھے۔ ذاتی محنت کے بل پر ڈپٹی کمشنر،کمشنر ، سیکرٹری تعلیم اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے عہدوں پر فائزہوئے۔ ان کی خودنوشت جیون دھارا میں ادبی چاشنی اور تاریخی بصیرت کا پہلو معدوم ہے۔ ایک بھلے مانس کے ذاتی شب و روز اور نجی دکھ سکھ کی کہانی ہے۔ ساڑھے تین سو صفحات کی کتاب میں جیون خان کے تاریخی شعور میں صرف ایک موقع پر ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ بتاتے ہیں کہ بحیرہ روم پر پرواز کے دوران انہیں طارق بن زیاد اور اندلس کے مجاہدین اس شدت سے یاد آئے کہ سیلاب اشک بہہ نکلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ۔خیر گزری کہ پانی خطرے کے نشان تک نہیں پہنچا۔ یہاں بھی تاریخ کا شعور کم اور عصبیت کو زیادہ دخل نظر آتا ہے۔ ایم اسلم اور نسیم حجازی نے ہمارے اجتماعی لاشعور میں کیسا بارود بویا ۔ اوپر میکالے اور برطانوی سول سروس کے مقامی جانشینو ں کا جو ذکر ہوا، جیون دھارا سے اس کا رشتہ یوں جڑتا ہے کہ برطانوی راج کے دوران سول سروس کا بنیادی منصب سیاسی شعور کی حوصلہ شکنی اور امن عامہ کے نام پرمقامی باشندوں کو قابو میں رکھنا تھا۔ آزادی کا بنیادی مطلب ہی یہ تھا کہ اب یہاں کے باشندے رعایا نہیں، شہری ہوں گے۔ سیاست اب حکومت وقت سے بغاوت نہیں کہلائے گی۔آزادی انسانوں کے حق سیاست کی بحالی کا نام ہے۔ ایک آزاد اور مہذب معاشرے میں سرکاری اہلکار کو سیاسی عمل کی حدود طے کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے اچھے اور قابل قدر سرکاری افسر بھی انتظام کاری اور حکومت کا فرق سمجھنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ جو ہم آئے روز بیڈ گورننس کی دہائی سنتے ہیں اورقومی خرابیوں کی تشخیص میں کرپشن کی تسبیح کی جاتی ہے یہ اسی فکری خلجان کا نتیجہ ہے۔ ہماری قومی خرابیاں محض روزمرہ بندوبست کے مسائل نہیں ہیں جنہیں ایک نیک نیت سرکاری افسر وقت پر دفتر پہنچ کر دور کر لے۔ مالی بدعنوانی کا دفاع نہیں کیاجا سکتالیکن ہمارے اجتماعی بحران کی اصل ذمہ دار وہ پرفتوح ہستیاں ہیں جنہوں نے ہماری معاشی ، دفاعی اور خارجہ پالیسی کے خدوخال طے کیے۔ جنہوں نے ہمیں ایسا نصاب تعلیم دیا کہ آدھی قوم تعلیم یافتہ طبقے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ کم نصیب عوام کو جاہل اور اجڈ قرار دیتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل سمجھنے کے لیے جیون خان صاحب کی تصنیف لطیف میں سے دومختصر اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
1977 ء کا مارشل لا نافذ ہونے کے بعد جیون خان ملتان کے ڈپٹی کمشنر متعین ہوئے۔ ملتان کے کور کمانڈر جنرل رحیم الدین خان تھے جو حسن اتفاق سے بلوچستان کے گورنر بھی تھے۔ جیون خان کی بصیرت کا نمونہ ملاحظہ ہو۔ ”اچھی بات یہ تھی کہ مارشل لا والے حرص و ہوس کے جال میں اسیر نہیں ہوئے… ضیاء دور میں مارشل لاحکام اور ضلعی انتظامیہ میں تعاون بے مثال تھا“۔کیوں نہ ہو صاحب، دونوں کو معلوم تھا کہ ووٹ کی پرچی جیسے ناکارہ جواز پر حکومت مانگنے والوں کو تڑی پار کر دیا گیا ہے۔ اب سیاں بھئے کوتوال، تعاون ہی سے دونوں کی کشتی پار اترے گی۔جیون خان کو محکمہ خوراک کا سیکرٹری مقرر کیا گیا۔اپنی کارکردگی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ”مارشل لا کی برکت سے سیاسی لوگ کونوں کھدروں میں دبکے ہوئے تھے“۔جیون خان اور ان کے ہم صفیر بہت اچھے لوگ ہیں لیکن اچھے لوگوں کو یہ جاننا چاہئے کہ اگر سیاسی لوگوں کو دبک جانے پر مجبور کر دیا جائے تو قوموں میں ایسی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جنہیں دور کرنا جیون خان جیسے نیک لوگوں کے بس کا رو گ نہیں ہوتا۔
تازہ ترین