• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نواز شریف ایک معتبر اور پاکستان کے مستند لیڈر ہونے کے حوالے سے تمام دُنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور خصوصاً وہ حلقے اور ممالک جو عمومی طور پر پاکستان کے مخالف ہیں یا جن کو پاکستان سے شکایت ہے اُن کے یہاں بھی میاں صاحب کے لئے نرم گوشہ پایا جاتا ہے، جیسے بھارت یا تحریک طالبان ۔پاکستان نے بھارت کے ساتھ میاں صاحب کے دور میں جو تعلق بنایا تھا اسکو جنرل پرویز مشرف نے اُسے اپنی حکمرانی قائم کرنے کیلئے استعمال کیا ، میاں صاحب کی حکومت کے خلاف مظاہرے کرائے اور لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کارگل آپریشن دراصل میاں نواز شریف کو ہٹانے کا میکنزم تھا جس سے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی جو امریکہ کے عراق پر حملہ کے بعد خطرہ محسوس کرچکے تھے پاکستان سے تعلق کے خواہاں تھے کیونکہ وہ راستہ جس سے عموماً فاتحین بھارت کے پانی پت کے میدان میں آجاتے تھے وہ پاکستان سے گزرتا ہے، اگرچہ اب اس کی اہمیت اس طرح باقی نہیں رہی ہے تاہم اس وقت بھارت پاکستان سے اچھے تعلقات قائم کرکے امریکی مداخلت کو روکنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ مگر وہ جنرل پرویز مشرف نے سبوتاژ کردیا اس لئے کارگل پر بھی ایک کمیشن بٹھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اصل واقعات کو منظرعام پر لائے۔میاں نواز شریف کیلئے سعودی عرب سے دوستی کھلی بات ہے اور شاہ عبداللہ نے 2010ء میں جنرل احسان الحق سے کہا تھا کہ ہم پاکستان کی ہر قسم کی مدد کیلئے دستیاب ہیں، اس لئے پاکستان کو تیل و گیس کی سپلائی کی کسی کمی سے کم از کم نواز شریف کے دور حکومت میں دوچار نہیں ہونا پڑے گا۔ سعودی عرب نے میاں صاحب کی حکومت کو مشکلات سے بچانے کیلئے 33بلین ڈالرز کا پیکیج دینے کا ارادہ ظاہر کردیا ہے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے تو اس کی راہ میں میاں صاحب مزاحم نہیں ہوں گے بلکہ ان کو نکلنے میں سہولت فراہم کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ اسکے علاوہ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات پر وہ کسی قسم کی سودے بازی نہیں کریں گے اور نہ ہی امریکی موقف کو اس سلسلے میں ان کے یہاں پذیرائی ملے گی۔ البتہ پاک ایران گیس پائپ لائن ضرور دباوٴ کا شکار ہوسکتی ہے۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ میاں نواز شریف جیسے مضبوط اعصاب کا مالک شخص یہ دباوٴ بخوبی برداشت کرلے گا اور اُن بہلاوے یا لالچ کو بھی خاطر میں نہیں لائیں گے جو امریکہ کی طرف سے قطر سے مائع گیس کی سپلائی یا سعودی عرب سے زیادہ تیل کی فراہمی یا شیل گیس کی ترسیل جو تیل کی ایک نئی قسم ہے اور وہ تیل سے تین گنا کم قیمت میں یورپ کو دستیاب ہے۔ یہ بھی دور کی بات ہے، اگر ایران پاکستان گیس پائپ لائن مارچ 2014ء میں مکمل ہوجاتی ہے تو میاں نواز شریف کی حکومت عوام کو پہلی راحت پہچانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ایران پاکستان اسٹرٹیجک اتحادی ہیں، وہ مل کر بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ میا ں صاحب ایران اور سعودی عرب کے بگڑتے تعلقات میں مزیدخرابی کو روک سکتے ہیں۔سیاسی اعتبار سے بھی یہ درست ہوگا اور پاکستان کی اہمیت بڑھے گی۔ اس کے علاوہ اُن کے یورپ سے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ وہ وہاں رہتے بھی ہیں اور اُن کو ایک باوقار شخص سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم ان کی حکمرانی کا وقت آج سے دو سال پہلے لانے کیلئے کوشاں تھے اور اُن پر حکمرانی کے حصول کیلئے دباوٴ بڑھا رہے تھے کہ وہ پی پی پی کی حکومت کے خلاف مزاحمت کرکے اسے ہٹائیں مگر ان کو تیسری قوت کی مداخلت کا خطرہ تھا اور ہمارے دباوٴ کو بھی شاید وہ تیسری قوت کا اثر سمجھتے رہے ہوں مگر سب نے حالات سے سیکھا ہے اور پاکستانی قوم قدرے سمجھدار ہوگئی ہے ویسے بھی تیسری قوت اس وقت بھی مداخلت کی پوزیشن میں نہیں تھی اور نہ ہی اب ہے۔ جہاں تک کراچی کے اندرونی معاملات کا معاملہ ہے لگتا ہے کہ برطانیہ اس سلسلے میں شکایات سے تنگ آگیا ہے اور وہ ایک سمت پر چلنے اور واضح پوزیشن لینے کی طرف بڑھ رہا ہے تو اس لئے میاں صاحب کیلئے یہ اندرونی مشکل بھی زیادہ تنگ نہیں کرسکے گی البتہ عمران خان ضرور اُن کو دباوٴ میں رکھیں گے۔
پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات پہلے ہی کافی بہتر ہوگئے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ان کے دور میں مزید بہتر ہوجائیں گے۔ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کی مکمل ممبر شپ مل جائے گی اور پاکستان امریکہ پر کم انحصاری کی جس پالیسی پر گامزن ہوگیا ہے وہ میاں صاحب کے دور میں اس پر مزید کام بڑھے گا۔ چین سے پاکستان کو روس سے تجارت اور کئی قسم کی ٹیکنالوجی کو حاصل کرنا چاہے گا۔جہاں تک چین کا معاملہ ہے اس میں مزید رنگ بھرے جائیں گے پاکستان اور چین کے تعلقات میں مزید گہرائی پیدا ہونے کے امکانات واضح ہیں۔ گوادر کی بندرگاہ کا انتظام چین کے حوالے کرنے سے اور ایران کے وہاں آئل ریفائنری لگانے سے معاملات بہتر ہوں گے۔ نئے چینی وزیراعظم کا دورئہ پاکستان اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے، البتہ بنگلہ دیش سے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ افغانستان کے معاملے میں پاکستان پالیسی وضع کر چکا ہے کہ اسکا کوئی ایک گروپ پسندیدہ نہیں اور وہاں امن کا خواہاں ہے، وہ اب اس کو اپنی زمینی گہرائی بھی نہیں سمجھتا، اسکے سابقہ شمالی اتحاد کے گروپوں سے تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ میاں صاحب کیلئے معدودے چند معاملات کے سوا حالات سازگار ہیں اور بلوچستان میں بھی علیحدگی کی تحریکوں کو رام کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اگر وہ صحیح حکمت عملی کو آگے بڑھاتے رہیں۔ تحریک طالبان پاکستان بھی میاں صاحب سے بہتر تعلقات قائم کرنے کا پیغام دے چکی ہے اور سندھ میں بھی بہتری کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ یوں پاکستان میاں صاحب کے دور میں ایک اچھی خارجہ پالیسی کا حامل ملک بن کر ابھرے گا اور دُنیا میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائے گا جس کا اس نے خواب دیکھا تھا۔
تازہ ترین