شاعر مشرق علامہ اقبال سے منسوب ’’گلشن اقبال پارک‘‘میں نصب اقبال کے مبینہ مجسمے پر آہ و فغان کا سلسلہ کئی روز جاری رہا اور آخر کار یہ مجسمہ ہٹا دیا گیا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس مجسمے پر جذباتی اور سیخ پا ہونے والوں نے کبھی اقبال کے شخصیاتی خاکے پر توجہ نہیں دی ۔اقبال کے فرمودات ،افکار ،خیالات اور نظریات کا تصور اس قدر مبہم ہے کہ ہر شخص ایک الگ تصویر لئے پھرتا ہے اور اگر ان سب تصویروں کو یکجا کیا جائے تو اس مجسمے سے کہیں زیادہ عجیب و غریب شبیہ متشکل ہوگی۔علامہ اقبال وہ واحد شاعر ہیں جن سے ہر شخص اپنے ظرف اور استعداد کے مطابق استفادہ کرسکتا ہے۔آپ اسلام پسند ہیں ،جمہوریت نوازیا پھر سوشلسٹ ،اقبال کی شاعری میں آپ کے ذوق کے عین مطابق کلام موجود ہے۔مثال کے طور پر اگر آپ سرخ پوش ہیں ،اشتراکیت پر یقین رکھتے ہیں اور یوم مزدور پر کسی احتجاجی جلوس سے خطاب کرتے ہوئے پانی میں آگ لگانے کے خواہاں ہیں تو یہ اشعار آپ ہی کے لئے ہیں:
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کا جگا دو
کاخ ِاُمرا کے درودیوار ہلادو
گرمائو غلاموں کا لہو سوزیقیں سے
کُنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
نوجوانوں میں عقابی روح بیدار کرنا ہو،ملک و ملت کا درس دینا مقصود ہو ،اسلامی انقلاب کی غرض سے نوجوانوں کے قلب و روح کو گرمانا چاہتے ہوں تو ارمغان حجاز میں ’’بڈھے بلوچ کی اپنے بیٹے کو نصیحت‘‘برموقع و برمحل محسوس ہوگی۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ﷲ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں پہ سہارا
محروم ،مجبور ،مقہور ،غربت کی زنجیروں میں جکڑے ،حالات کے ستائے ،بھوک سے تنگ آئے عوام کو ایک بار پھر قربانی دینے کے لئے تیار کرنا ہے ،ان کا جذباتی استحصال مقصود ہے تو بھی اقبال کی شاعری ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی
خلافت عثمانیہ کا چورن بیچنا ہو ،اسلامی اخوت اور وحدت کا درس دینا ہو ،ملت اسلامیہ کا نام لیکر ایک نئی روح پھونکنا چاہتے ہوں یا پھر اقبال کو مسلم اتحاد کا داعی اور پرچارک ثابت کرنا ہو تو بھی آپ کو مایوسی نہیں ہوگی اور کئی طرح کے اشعار بطور دلیل پیش کئے جا سکتے ہیں ۔مثال کے طور پر
چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اگر جمہوریت کا مقدمہ لڑ رہے ہیں،لوگوں کو جمہوریت کی افادیت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں ،غیر جمہوری طاقتوں کے مقابلے میں انقلابی جدوجہد کا آغاز کرنے کے خواہاں ہیں،آمریت کی بوسیدہ نشانیوں کو اُکھاڑ پھینکنے کیلئے اپنے چاہنے والوں کو لڑنے مرنے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں تو شعلہ بیاں مقرر کی حیثیت سے یہ شعر اپنی گفتگو میں شامل کر سکتے ہیں:
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے ،مٹادو
اس کے برعکس اگر آپ انتخابی نظام سے بیزار ہیں،جمہوریت کو تمام برائیوں کی جڑ سمجھتے ہیں، آمریت کے گن گانے والوں میں شامل ہیں اورلوگوں کو جمہوریت سے متنفر کرنا چاہتے ہیں تو بھی اقبال کی شاعری کو تیر بہدف نسخے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔مثلاً
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیںکرتے
کہنے کو تو بہت کچھ ہے ،ہر موضوع پر ،ہر دلیل کے حق میںاشعار پیش کئے جا سکتے ہیںلیکن اگر آپ کے پاس کلام اقبال سے کوئی موزوں شعر دستیاب نہیں تو کسی بھی شعر کو علامہ اقبال سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ بالخصوص اگر شعر میں عقاب کا ذکر ہے تو کسی کو ذرہ برابر شک بھی نہیںہوگا کہ یہ جعلی شعر ہے۔مثال کے طور پر سیاسی جلسوں میں ایک شعر بہت لہک لہک کر پڑھا جاتا ہے:
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
’عقاب‘ کا ٹریڈ مارک ہونے کی وجہ سے اسے اقبال کا شعر سمجھ لیا گیا حالانکہ یہ شکر گڑھ کے شاعرصادق حسین شاہ کاظمی کا شعر ہے ۔اور ان کے مجموعہ کلام ’برگ سبز‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ حسب ضرورت غلط اشعار اقبال سے منسوب کرنے کی روایت اس قدر مستحکم ہے کہ چند ماہ قبل وزیراعظم عمران خان نے غلط اشعار ٹویٹ کر دیے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ جس ملک میںایک طرف کے لوگ صوفی تبسم کو اقبال شناس کا درجہ دیتے ہوں اور دوسری طرف کے لوگ خادم رضوی کو اقبال شناس سمجھتے ہوں وہاں اسی طرح کا کٹا پھٹا مجسمہ ہی بن سکتا ہے۔ تاویل یہ دی جارہی ہے کہ وہ مجسمہ پارک کے مالیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا۔ درپیش صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک بھی شاید وہی مالی چلا رہے ہیں۔