• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہنے کو تو ساری دنیا سے ہمارے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات ہیں مگر برادرانہ اور دوستانہ کا مفہوم سمجھنے اور اس کا احترام کرنے کے بعد چند ملکوں کی ہی بات کی جا سکتی ہے اور ان ملکوں میں چین سرفہرست ہے جو واقعی ایک دوست ملک ہے اور اس نے ہر مشکل وقت میں بھائی چارے کا بھرم بھی رکھا ہے اور دوستی نبھا کر بھی دکھائی ہے۔
چین اس کرہٴ ارض پر بہت عظیم اور قدیم ملک ہے۔ چھ ہزار سال پرانی چین کی تہذیب و ثقافت دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے جس نے خود تحریری زبان ایجاد کی۔ ایسی زبان جس کا ایک حرف پورے لفظ یا جملے کو ظاہر کر سکتا ہے۔ شاید اسی لئے چینی اپنی زبان سے بہت محبت کرتے ہیں اور بدیسی زبان کو ترقی کا زینہ نہیں گردانتے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اپنی زبان، اپنی تہذیب سے جڑے رہنے سے انسان کس قدر ترقی کر سکتا ہے۔ معاشی، سماجی اور روحانی ترقی، کہ اصل ترقی تو وہی ہوتی ہے جس سے انسان کا تن اور من دونوں خوشحال ہوں۔ آرکیالوجی کی شہادتوں کے مطابق موجودہ انسان کی تاریخ دو لاکھ سال قبل تک ہے جبکہ چین میں ساڑھے بائیس لاکھ سال پہلے ایسے ابتدائی باشندے موجود تھے جو انسانوں جیسی ہیت رکھتے تھے۔ پہلا انسان شاید اسی زمین سے تعلق رکھتا تھا۔ مینڈرینی زبان میں چین کو ژونگ گوؤ کہا جاتا رہا ہے جس کا مطلب مرکزی ملک ہے۔ چین نے بقاء کے سفر کو کہیں رکنے نہیں دیا بلکہ اسے ترقی کیساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ کاغذ، قطب نما،بارود اور چھاپہ خانہ جیسی ایجادات کا سہرا چین کے سر ہے اور آج تو چین ہر میدان میں آگے ہے مگر دوستوں کے ساتھ ہے جبکہ ہم آج تک اپنی ترجیحات طے نہیں کر سکے۔ کہتے ہیں کہ دور کے رشتہ داروں سے نزدیکی ہمسایہ زیادہ مدد گار اور اہم ہوتا ہے، جو خوشی اور غمی میں وقت پر پہنچ جاتاہے مگر کیا کریں ہماری محبتیں تو اسی طرح کی ہوتی ہیں۔ سات سمندر پار کے کردار نہ جانے ہم پر کیا جادو کر جاتے ہیں کہ ہم نزدیکی دوستوں کو نظر انداز کر کے ان سے تعلقات کی پینگیں بڑھانے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں، یہ معاملات ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال جیسے دو طرفہ نہیں ہو سکتے پھر بھی محبت کئے جاتے ہیں۔ خواہ مخواہ روس سے فاصلہ رکھا، چین کو نظر انداز کیا۔ تعلقات ختم تو نہ ہوئے مگر سرد مہری کے دور آتے جاتے رہے اور آج دور دیس والے نہ ہمارے بنے اور نہ ہم ان کے بن سکے۔ دونوں اطراف شکوک و شبہات موجود ہیں اور جہاں شکوک ہوں وہاں دوستی کیسے پنپ سکتی ہے۔ دوسری طرف چین ہے جس کی ہزاروں سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ دوسروں کے معاملات میں عدم مداخلت کا اصول اپنایا ہے۔ بنیادی طور پر امن پسند قوم کسی کو اپنے معاملات میں دخل دینے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ چین اقوام عالم سے برابری کی سطح پر تعلق کا خواہاں ہے اور جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چین کی زیادہ تر آبادی لادین ہے مگر اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسدار ہے اور خدمت خلق اس کا شعار ہے اور خلق سے محبت خالق سے محبت کے مترادف ہے۔ ہمارے پیارے نبی نے تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا تھا کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ وہ یونان جیسے ملک کا نام بھی لے سکتے تھے۔ چین کا نام لینے سے چین کی بڑائی ظاہر ہوتی ہے۔ آج ہمیں ان کے قول میں چھپی ہوئی دانش کو سمجھنا ہے اور چین سے دوستی کو پائیدار کرنا ہے۔ سابقہ دور میں حکومت ِ پنجاب نے چین سے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے چین کا دورہ کیا اور اسی سال کو چین کی 60 ویں سالگرہ کے حوالے سے چین کا سال قرار دیا گیا اور صوبہ بھر میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ امید ہے آنے والے دنوں میں پاکستان اور چین کے تعلقات ایک نئی ڈگر پر ترقی کا سفر جاری رکھیں گے۔
آج جب پاکستان کو اندرون ملک بے شمار معاشی اور سماجی چیلنجوں کا سامنا ہے اور وہ عالمی سطح پر بھی تنہائی کا شکار ہے اسے کسی ایسے مخلص دوست کی ضرورت ہے جو نہ صرف اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے حالات کی دلدل سے نکلنے میں مدد کرے بلکہ عالمی قوتوں کے جارحانہ رویوں میں بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو۔ انتخابات کے فوراً بعد چینی وزیراعظم جناب لی کی چیانگ کا پاکستان کا دورہ انتہائی خوش آئند ہے اور اس سے بڑی بات یہ کہ صدر کے ظہرانے میں نومنتخب وزیراعظم نواز شریف، دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور اعلیٰ آرمی افسران کی شرکت سے یہ بات ثابت ہو گئی اور دنیا کو واضح پیغام بھی مل گیا کہ چین کے حوالے سے پاکستان میں کسی قسم کی گروپ بندی ہر گز نہیں۔ پوری قوم، ادارے اور حکومت ایک ہیں اور یہ دوستی حکومتی سے زیادہ عوامی سطح پر مضبوط ہے۔ چینی وزیراعظم نے اپنے خطاب میں پاکستان کے 1949ء کے جذبہ ٴ خیر سگالی کو سراہا اور کہا کہ جس طرح ایک دن پاکستان نے چین کو دنیا میں متعارف کروانے میں اپنا کردار ادا کیا آج چینی قوم اور حکومت بھی پاکستان کو اس صورتحال سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم حکومت سے اپنی توقعات کے ساتھ ساتھ خود کو بدلنے کی سعی بھی کریں اور یہ ضرور سوچیں کہ 1949ء میں آزاد ہونے والا ملک آج سپر پاور بن چکا ہے۔
تازہ ترین