کچھ دن پہلےاخباروں کی زینت بنی یہ سرخی ہمارے ہر دلعزیز وزیر اعظم عمران خان سے منسوب تھی کہ آپ تھوڑا صبر کرلیں بس پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔یہ وزیر اعظم کے وہی الفاظ ہیں جوانہوں نے پونے3سال پہلے بھی قوم سے خطاب کر تے ہوئے کہے تھے۔قوم نے دیکھ لیا ان3سال میں مہنگائی،بیروزگازی ،امن و امان کے بدتر حالات سب جھیلنے پڑے کہ شاید پی ٹی آئی حکومت ا ن پر قابو پا لے گی۔ہر صبح لیکن کسی نہ کسی چیزکی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ،کبھی پیٹرول ،ڈیزل کی سمری آجاتی ہے جبکہ دنیا میں تیل سستا ہو رہا ہے ۔ہماراڈالر بھی 162کا ایک سال سے ہے ۔مگر 12روپے فی لیٹر کی سمری سنا کر قوم سے 3چار روپے میں مک مکا کر دیا جاتا ہے۔ پھر ایک ہفتے کے بعد بجلی کے نرخ تبدیل کر دئیے جاتے ہیں ،پھر ایک ہفتہ بھی نہیں گزرتا گیس جو اب نا پید ہو چکی ہے، اس کے بھی ریٹ بڑھا دئیے جاتےہیں۔ فیکٹریوں میں بندش کے باو جود 12روپے کا اضافہ کس کے کھاتے میں جائے گا۔ صرف قومی ،صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے ممبروںکی تنخواہوں پر 35ارب54کروڑ روپے خرچ آجاتا ہے ۔جن کی کل تعداد 1195ہے ۔اس کے علاوہ تمام صوبائی،قومی اسمبلیوں کے وزراء 15ارب روپے کے قریب تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ۔یہ ایک غریب ترین ملک پاکستان کی کہانی ہے ۔جس کو ریاست مدینہ بنانے کا خواب دکھایا گیاتھا اور ہر صبح تمام میڈیا پر حزب اختلاف کے خلاف ایک ایک کا نام لے کر ہمارے یہ مہذب وزراء غیر مہذب زبان کاکثرت سے استعمال کر کے وزیر اعظم کو خوش کرنے پر اپنی توانائیاںصرف کر تے ہیں ۔قوم کی وہ خدمت کیا کریں گے؟باقی ان کے حواری آٹا،چینی اور پیٹرول مہنگا کر نے میں لگے ہوئے ہیں اوپر سے سینٹ کے الیکشن کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی گورنمنٹ میں روز ویلٹ ہو ٹل ضبط ہو گیا ،اسٹیل مل بکنے والی ہے، براڈ شیٹ کو پیسہ دینا ہے،پی آئی اے کے جہاز ضبط ہو رہے ہیں ،بلوچستان میں ریکوڈک گولڈ کا جھگڑا چل رہا ہے اوروہ جو کل تک مشرف، زرداری اور نواز شریف حکومتوں کے مزے لوٹ رہے تھے وہی آج پی ٹی آئی میں آکر وہی کھیل کھیل رہے ہیں اور عمران خان کی وفاداری کا ناٹک رچا رہے ہیں اور وزیر اعظم کو بے و قوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور سادہ لوح وزیر اعظم عمران خان ان پر پورا عتماد کر رہے ہیں۔ قوم دیکھے گی جیسے ہی عمران خان کی کشتی منجدھار میں آئے گی، یہ سب پہلوان کشتی سے باہر کودنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔اب 2سال اور کچھ مہینے باقی ہیں ،عوام عمران خان کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہو تے جا رہے ہیں ۔غالباًان کی تھپکی سے مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ سے ہٹا کر صرف عمران خان اور ان کی حکومت کی طرف کر دیا ہے اور آصف علی زرداری اور شہباز شریف کی پالیسیوں کی حمایت شروع کر دی ہے اور نواز شریف کو تنہا چھوڑنے کی تیاری بھی شروع کر دی ہے ۔اس سینیٹ کے الیکشن میں ضرور اس کی جھلک نظرآئے گی۔جس کی ایک مثال آصف علی زرداری کی طبی بنیادوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کر لی ہے اور نیب نے اس کی مخالفت نہیں کی ۔3سال کی بیروزگاری سے جے یو آئی کی ٹیم بھی پہلی مرتبہ 2بڑے گروپس میں تقسیم ہو چکی ہے ۔جس کا ایک دھڑا پی ٹی آئی کا حامی ہو تا جا رہا ہے اور وہ مولانا کی گدی کو بری طرح ہلا چکا ہے۔ عنقریب وہ جے یو آئی کے ناراض دھڑے کو ملا کر قبضہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ ان حالات میںبہ ظاہرکسی کو قوم کی فکر نہیں ،سب کو صرف اپنے مفادات کا تحفظ عزیز ہے ،جس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔گھوم پھر کر یہی افراد پارٹیاں بدل بدل کر اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں ۔70سال سے قوم یہ تماشہ دیکھ رہی ہے عمران خان آخری خواب تھا جو صرف 3سال میں چُور چُور ہو چکا ہے ۔اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے مگر آگے بھی کوئی مخلص نظر نہیں آرہا ہے جس کو ووٹ کا حق دیا جا سکے۔ دوسری جانب حکومت نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے اور دہری شہریت کے حامل بیرون ملک پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے سے متعلق 26ویں آئینی ترامیم قومی اسمبلی میں پیش کر دی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اپوزیشن اس کو پاس ہونے دیتی ہے یا نہیں ۔