• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر بنے کا پاکستان

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے، کشمیریوں کو پاکستان کا حصہ بننے یا آزاد رہنے کا حق دینگے مودی ہم سے مککر مسئلہ کشمیر حل کرے۔ ہماری پیشکش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

ہمیں وزیر اعظم کی نیت پر کوئی شک نہیں، انہوں نے سکھوں کیلئے راہداری کھول کر زوردار اقدام کیا مگر ان کی زبان سے بے خیالی میں کچھ غیر ارادی کلمات ادا ہوئے جیسے مودی کو انتخابات میں کامیابی ملی تو تعلقات میں بہتری آئے گی، وہ نہایت حساس کرسی پر بیٹھے ہیں بالخصوص کشمیر کے حوالے سے محتاط گفتگو کیا کریں کشمیریوں کو تیسرے آپشن کی پیشکش کم از کم ہماری جانب سے نہیں ہونی چاہئے۔ کشمیری خود بھی یہ نہیں چاہتے اور آزاد کشمیر اس کا بین ثبوت ہے کشمیر آزاد ہو گا اور بن کے رہے گا پاکستان، آج ہماری پوری آبادی میں کشمیری اسی طرح گھل مل کر رہ رہے ہیں جیسے تمام پاکستانی، ہمیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ بھارت نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے اس کا مداوا ضروری ہے مقبوضہ اور آزاد کشمیر ایک مکمل کشمیر کی صورت پاکستان کا حصہ بنے گا یہی کنٹرول لائن کے اس پار ہر کشمیری کی دلی خواہش ہے ہمیں کسی ایسے آپشن کی پیشکش نہیں کرنا چاہئے کہ کشمیریوں کی اس دلی خواہش کو ٹھیس پہنچے، آزادی کشمیر کیلئے مودی کو وارننگ دینی چاہئے کہ دو ایٹمی ملک مذاکرات کریں گے یا جنگ، بلکہ بھارت کو یہ تاثر جانا چاہئے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے ۔آخر اپوزیشن کو یہ خدشہ کیوں ہے کہ مودی اور عمران ایک پیچ پر ہیں بلاشبہ کشمیریوں کو فیصلے کا حق حاصل ہے مگر وہ تو ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر چکے ہیں ہم ہرگز خون خرابہ نہیں چاہتے مگر اس سے ڈرتے بھی نہیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

گورنر پنجاب سے ایک ملاقات

ملاقات کسی سے کسی بھی وقت ہو ایک حسین تجربہ ہے اور ر نگین بھی، معلوم ہوا تھا کہ گورنر پنجاب وکھری ٹائپ کے گورنر ہیں، اس لئے ملاقات کیلئے چل دیئے، گیٹ پر سے خوش اخلاقی شروع ہوئی تو منزل تک ساتھ ساتھ چلی، باوردی اور بندوق بردار بھی جا بجا دیکھے سب کا رویہ سفید پوش شرفاء جیسا تھا، یوں لگا کہ جیسے لکھنؤ آ گیا ہوں، پی آر او لالہ رخ نے استقبال کیا ان کے چہرے پر نام کے اثرات دیکھے اور آواز میں بیس بھی، کچھ ہی دیر میں ایک چاق چوبند اہلکار آئیں میرا نام پکارا اور سیدھا گورنر چودھری سرور حسین کے پاس لے گئیں وہ حاکم وقت کے سب تقاضے چھوڑ کر ملے میں نے اپنے اور اپنے علاقے کے مسائل پیش کئے، ان کے چہرے پر سرخی میں قدرے سنہرے رنگ کی آمیزش سے آنکھیں خوش ہوئیں، نہایت شائستہ اور شستہ زبان بولتے رہے کچھ سوال اور چند یاس آمیز جواب ملے، مگر انہوں نے امید کی ڈوری ٹوٹنے نہ دی، کام ہونہ ہو مگر کانوں میں رس گھلتا رہے تو لگتا ہے کہ کام ہو گیا، کچھ ایسی کیفیت بھی محسوس کی کہ نظیری نیشا پوری نے اس کی کچھ یوں عکاسی کی ہے ؎

رفتم بمسجد لے کہ ببینم جمالِ دوست

دستے بر رُخ کشید و دعا رابیانہ ساخت

(مسجد میں حسن یار دیکھنے گیا مگر اس نے منہ ہاتھوں سے ڈھانپ کر دعا کا بہانہ بنا لیا) بہرصورت ہم ان کے حسنِ اخلاق کے علاوہ کسی اور بات سے چنداں خوش نہ ہو سکے، وہ تعلیم سے بہت دلچسپی رکھتے یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی تمام جامعات کے چانسلر ہیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

قبر جنہاں دی جیوے ہُو

ﷲ اپنے دوستوں کے چہرے پر حزن وملال طاری نہیں ہونے دیتا، اسی جملے کی تصویر محمد اعجاز احمد قریشی تھے، ان کے فرزند نیک صفت حسیب اعجاز عاشر نے اپنے والد گرامی پر ’’ہمارے ابو جان‘‘ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے وہ اس لحاظ سے خاص ہے کہ اپنے خاندانی و خانگی حالات سے ہٹ کر ایک ولی ﷲ کی زندگی کے معمولات سے خلق خدا کو مستفیض ہونے کا سامان فراہم کیا ہے مرحوم و مغفور نے ساری زندگی اس طرح گزاری کہ دینوی امور کو بھی دینی سانچے میں ڈھال کر انجام دیا، اور جدا ہو دین دنیا سے تو رہ جاتی ہے بے دینی کے مصداق روز وشب گزار کر یوں چلے گئے کہ جیسے وہ گئے ہی نہیں ؎

ہرگز غیر وآنکہ دلش زندہ شد بہ عشق

ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

(جس کا دل عشق سے زندہ ہو وہ کبھی مرتا نہیں، صفحہ ہستی پر ہمارے امر ہونے کی مہر ثبت ہے) کتاب جس قدر سادہ اتنی ہی پُرکار ہے، اس سے صلاح وفلاح کا سبق سیکھا جاسکتا ہے حسیب اعجاز عاشر ایک اخبار کے ایڈیٹر ہیں‘ ان کی زندگی پر ولی کا مل باپ کی چھاپ صاف دکھائی دیتی ہے اور ان کی تحریروں میں کامیاب زندگی کے درس جابجا ملتے ہیں اسی کتاب کو اگر قارئین ہمارے بھی ابوجان سمجھ کر پڑھیں تو بہت استفادہ کر سکتے ہیں، حضرت محمد اعجاز قریشی عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم میں ڈوبے ہوئے تھے اور ان کی تعلیمات کے عملی پرچارک تھے خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

ذرا تول کے بولو!

٭شاہد خاقان عباسی،کشمیر پر جو موقف 1948ء سے لیکر چل رہے تھے وزیر اعظم نے اس کی نفی کر دی۔ کوٹلی میں خطاب اچھا تھا مگر بعض حوالوں سے عباسی صاحب کے ریمارکس کی تائید بھی کرتا تھا پختہ سیاسی سوچ آخر ہمارے ہاں کب آئے گی؟

٭شہباز گل۔کشمیر پر سیاست کرنیوالے آج اسے سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔

گِل کھلا رہی ہے کیا کیا گُل، بھلاکشمیر پر کون سیاست کرے گا اپوزیشن کی پوزیشن اس حد تک نہیں خراب کہ کشمیر پر سیاست چمکائے، ہمارا نعرہ ہے۔

دل کھول کے بولو

ذرا تول کے بولو

کشمیر بنے کا پاکستان

سن قائد کا فرمان

٭٭٭٭٭

تازہ ترین