• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لکشمی چوک پر لکشمی بلڈنگ کا اب صرف سامنے کا حصہ ہی باقی رہ گیا ہے، پچھلی طرف کوئی عمارت نہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ جب لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد صفدر پنجاب کے گورنر تھے، اس زمانے میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مال روڈ اور دیگر تاریخی عمارتوں کو گرایا نہ جائے اور ان کا فرنٹ تو بالکل بھی تبدیل نہ کیا جائے، ان کو اصل فنِ تعمیر کے ساتھ محفوظ کیا جائے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ پچھلے پچاس برس میں ہم نے لاہور کی ہر تاریخی عمارت کے فن تعمیر کو خراب اور تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور کئی تاریخی عمارتوں کو زمین بوس کر دیا۔

لکشمی بلڈنگ 1935ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ عمارت انتہائی مضبوط تھی پھر ایک سابق وفاقی وزیر نے اس تاریخی عمارت کو حاصل کر لیا اور اس کا تمام پچھلا حصہ گرا دیا۔ جب ہم نے اس عمارت کو دیکھا تو خاصی وسیع پارکنگ بھی تھی۔ کئی فلم سازوں اور تقسیم کاروں کے دفاتر تھے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس عمارت میں ماضی کی شان و شوکت نظر نہیں آتی تھی۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر تھے حالانکہ عمارت میں ڈسٹ بن موجود تھے۔ عمارت کے اوپر لکشمی دیوی کی تصویر تھی، دائیں اور بائیں طرف دو ہاتھی بھی تھے۔ یہ رقبہ آٹھ کنال ہے اور اب تک قبضہ مافیا سے بچا ہوا ہے۔ کسی زمانے میں یہ تاریخی عمارت لکشمی انشورنس کمپنی کی بھی ملکیت میں رہی ہے۔ لکشمی نام کی عمارت کراچی میں بھی قائم ہے۔ یہ عمارت سیٹھ لکشمن داس نے بنائی تھی جو غریبوں کے بڑے ہمدرد تھے۔ کبھی مسلم لیگ کا دفتر بھی اس عمارت میں قائم تھا اور سعادت حسن منٹو بھی یہاں کچھ عرصہ رہائش پذیر رہے۔ کاش اس تاریخی عمارت کو اس کے اصل حسن کے ساتھ محفوظ کیا جاتا۔ اس وقت اس کا ڈھانچہ ہی باقی بچا ہے۔ شاید وہ سابق وفاقی وزیر اس انتظار میں ہیں کہ اس کا داخلی ڈھانچہ خودبخود گر جائے اور پھر وہ وہاں پلازہ بنائیں۔ لکشمی چوک کھانے پینےکی چیزوں کے لئے بڑا مشہور ہے۔ کڑاہی گوشت اور توا قیمہ کا آغاز بھی سب سے پہلے لاہور میں لکشمی چوک اور ایبٹ روڈ سے ہی ہوا تھا۔ نشاط سینما کے سامنے کبھی توا چکن ملا کرتا تھا۔ وہ بھی دیسی مرغے کا اور اس کو پکانے والا بھی بڑا موٹا اور صحت مند تھا۔

اچھرہ میں کبھی شمع سینما، شیش محل سینما اور گلیگسی سینما ہوا کرتے تھے۔ شمع سینما اور شیش محل تو ایک ہی احاطے میں تھے۔ اس سینما کے نام پر آج بھی شمع بس اسٹاپ ہے۔ یہ تینوں سینما کب کے ختم ہو چکے‘ اسی طرح ملکہ ترنم نورجہاں کا سینما ساحل شاہدرہ میں تھا۔ گلبرگ میں لبرٹی اور کیپری تھا، سب قصہ پارینہ ہو چکے۔ اسی طرح میکلوڈ روڈ پر رٹز سینما تھا۔ اس کی گیلری گر گئی تھی۔ ہم بھی ایک مرتبہ وہاں فلم دیکھنے گئے تھے۔ رٹز کا پرانا نام ایکسیکیئر تھا۔ صنوبر سینما کی اسکرین کے پیچھے ایک مزار ہے جس کو ہم نے دیکھا تھا۔ صنوبر کا نام بعد میں ایمپائر کر دیا گیا تھا۔ یہ لاہور کا واحد سینما ہے جس کی ا سکرین کے پیچھے مزار ہے۔ کسی زمانے میں اچھرہ لاہور شہر سے آنے والی بسوں اور تانگوں کا آخری اسٹاپ ہوتا تھا بلکہ یہ ایک قصبے کی مانند ہی تھا۔ یہاں قصور جانے والی بسیں ہمہ وقت مسافروں کے انتظار میں کھڑی رہا کرتیں۔ وحدت کالونی کوارٹرز کے رہائشیوں کے لئے ایک بس صبح اور ایک شام کو چلا کرتی تھی۔ وحدت کالونی کوارٹرز کے آگے سارا علاقہ گائوں تھا۔ بھوگیوال، شاہ دی کھوئی، پھیکے وال، ہنجروال، بھنگالی، ڈیرہ چاہل، لکھو ڈیر، میاں میر گائوں، مناواں، چوہنگ، رائے ونڈ ، موہلنوال اور کئی دیگر دیہات تھے۔ کون یقین کرے گا کہ مال روڈ پر بے شمار درخت اور پھول ہوا کرتے تھے بلکہ مال روڈ کے اردگرد بھی ایک دیہاتی ماحول تھا۔ اسی مال روڈ پر سر گنگا رام اور بھائی رام سنگھ نے کئی تاریخی عمارتیں تعمیر کرائیں جو آج بھی موجود ہیں۔ جی پی او، میو اسکول آف آرٹس، ایچی سن کالج، اسٹیٹ بنک اور کئی قدیم گرجا گھر۔

لاہور کی مال روڈ نے بے شمار سیاسی جلوس، لاٹھی چارج، آنسو گیس کے شیل، ہنگامے، آغا شورش کاشمیری، نوابزادہ نصراللہ، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، ملک معراج خالد، ملک قاسم اور احمد سعید کرمانی کی گرما گرم تقاریر دیکھی اور سنی ہیں۔ 1977ء میں بھٹو کے خلاف زوردار تحریک اور شدید ہنگامے بھی اس تاریخی سڑک پر ہوئے تھے جو ہم نے بھی دیکھے تھے۔ مال روڈ کو کبھی ٹھنڈی سڑک کہا جاتا تھا۔ ویسے لاہور میں دو سڑکیں ایسی تھیں جن کا درجہ حرارت شہر کی دیگر سڑکوں سے ہمیشہ کم رہتا تھا۔ مال روڈ پر چیئرنگ کراس سے آگے اور سندر داس روڈ۔ سندر داس روڈ تو 1990ء تک ایسی تھی کہ سڑک پر دھوپ نہیں پڑتی تھی۔ میو گارڈن اور ایچی سن کالج کے درخت اور بانسوں نے سڑک کو پوری طرح ڈھکا ہوا تھا۔ کیا سڑک تھی۔ ڈیوس روڈ پر لال پھولوں کے بلند قامت درخت تھے اور سڑک ان پھولوں کی وجہ سے لال ہو جاتی تھی۔ اب ایک بھی درخت نہیں۔

کوئی یقین کرے گا کہ مال روڈ پر کبھی بڑے بڑے گلاب اور یاسمین کے پھول بھی ہوتے تھے۔ پورے لاہور کے تمام قریبی علاقوں اور دیہات میں گلاب کے بڑے وسیع باغات تھے۔ لاہور میں رات کی رانی، موتیے، گلاب اور سورج مکھی کے لاکھوں پودے تھے۔ کبھی یہاں آڑو، سنگترے، ناشپاتی، انگور، کھجور، انار، امرود، آم، چیکو، مالٹے اور دیسی لیموں وغیرہ کے بے شمار درخت، بیلیں اور پودے ہوا کرتے تھے۔ سب کو جدید لاہور، اورنج ٹرین، میٹرو بس، نئی بستیوں اور بڑے بڑے پلازے کھا گئے۔ مال روڈ نے کئی مدوجزر دیکھے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین