• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری سالگرہ کا دن بن پوچھے ہر سال میرے دروازے پر آ کھڑا ہوتا ہے تو میں سوچتی ہوں ایک اور سال بیت گیا۔ یہ احساس لمحات کو وزنی پتھر بنا دیتا ہے۔ پتہ نہیں ہم نے زندگی کو سالوں کے چکر میں قید کر کے خود اذیتی کا اہتمام کیا ہے یا خود احتسابی کا۔ شب و روز کے ڈھلنے کو سال کی طشتری میں رکھ کر نہ جانے کیا حاصل کرنا مقصود تھا۔ اس کے مثبت مقاصد تھے یا دنیا کی بے ثباتی کو نمایاں کرنا کہ سفر کو سفر ہی سمجھیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے یا ہمارے محسوسات بہت زیادہ فعال ہو گئے ہیں۔ ہم بچپن میں اسکول سے آ کر دوپہر کا کھانا کھا کر سو جاتے تھے، پھر اٹھتے تھے۔ سہ پہر کی چائے پیتے پھر گھنٹوں کھیلتے رہتے تھے۔ تب شام ہوتی تھی لیکن اب تو سورج نکلتا ہے اور ہمیں اپنے ساتھ دوڑاتا ہوا مغرب کی اس دیوار تک لے جاتا ہے جہاں اس کو بھی آرام کرنا ہوتا ہے اور بظاہر ہم کو بھی۔ انسان باہر کے سفر سےشدید ہانپ چکا ہے مگر اسے اپنے اندر جھانکے شاید زمانہ ہو گیا ہے اسی لئے وہ مضطرب ہے۔ پشیمانی اور پریشانی کا شکار ہے، بکھرا ہوا ہے، وجود سالم نظر آتا ہے مگر احساس کرچی کرچی ہے، سوچیں بکھری ہوئی ہیں اسی وجہ سے اس کی فکر میں شدت در آئی ہے۔ اس شب و روز کی دوڑ میں ہمیں محسوس نہیں ہوتا کہ ہم کتنی صبحوں اور شاموں کے درمیان کا عرصہ جی چکےاور کتنا جھیل چکے ہیں۔ زندگی میں کچھ سال ایسے بھی آتے ہیں جو آپ کی سوچ کا رخ ہی بدل دیتے ہیں شاید گزشتہ سال بھی ایسا ہی تھا۔ زندگی کے اتنے سارے سالوں میں یہ وہ شب و روز تھے جن کو میں نے لمحہ لمحہ جھیلا، اذیت کشید کی اور سوچ کی سُولی سے مکالمہ کیا۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں نے مجھے متاثر کیا۔ بھاگ دوڑ میں قدرت نے مجھے موقع فراہم کیا کہ میں ایک گھر کی چار دیواری میں محصور ہو جاؤں، زندگی کی نعمتیں بھی میرے ہاتھ کی پہنچ سے دور کر دی گئیں۔ یہ ایک کڑا چلہ تھا، ایک ریاضت تھی جس میں مجھے جاگنا بھی تھا، رونا بھی، چیخنا بھی ۔ ماتم کرنا تھا اور گڑگڑانا بھی تھا۔

ہوا یوں کہ میرے لب سے کچھ تکبر کے لفظ ادا ہو گئے تھے۔ میری سوچ میں بھی ایک لمحے کے لئے تکبر نے ڈیرہ جما لیا تھا لیکن مجھے اس کی بھاری قیمت ادا کرنی تھی کیونکہ جن کی رسی کو وہ تھام لیتا ہے پھر انہیں اس سمت جھانکنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ انتظامی معاملات کو سنبھالتے ہوئے ہم کئی لوگوںکی روز ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں، چھوٹی موٹی سزائیں دیتے ہیں مگر سائل سے تکبر کا اظہار کرنا بالکل مختلف ہے اور مجھ سے یہ غلطی ہو گئی تھی۔ مجھے فوری طور پر احساس بھی ہو گیا تھا لیکن وہ فرد گُم ہو گیا جس کومجھے معاف کرنا تھا سو معافی کی لمبی رہگزر سے گزرنا میرا مقدر ٹھہرا۔ اتنی مختصر زندگی میں بھلا ہم کب افورڈ کر سکتے ہیں کہ انسانوں کا دل دکھائیں۔ ہم مکمل طور پر اچھے کام نہیں کر سکتے نہ ہی ہر کسی کی مدد کر سکتے ہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں لیکن کسی کا دل توڑنے اور تضحیک کرنے سے تو باز رہ سکتے ہیں۔ اچھے لفظ بولنا کسی کی ڈھارس بندھانا تو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ان کار نرم لفظوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔

شب و روز کا چکر انسان کو احساس دلاتا رہتا ہے کہ وہ بوڑھا ہو رہا ہے کیونکہ کیلنڈر کی اسکرین پر بڑھتے ہوئے سال آپ کو نفسیاتی طور پر اس ہیجان میں مبتلا کر دیتے ہیں جس کا علاج نہیں۔ یوں گزشتہ برس خود احتسابی اور ضمیر کی خلش کی اذیت نے کئی صدیوں کے صحرا سے مجھے گزارا۔ میں قبل مسیح سے آج کی دنیا کی گلیوں میں ننگے پاؤں پھرتی رہی، روتی رہی۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ کثافت کی تطہیر زیادہ بڑامسئلہ تھی۔ پھر وقت نے میری گواہی دی۔ مجھے معاف کر دیا گیا، میری شب و روز کی آہ و زاری نے میرے لئے انعام کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔ آنسوؤں سے دل کا آئینہ صاف ہوا، آہوں سے روح کی خامشی جاگی اور مجھے مالا مال کر دیا گیا۔ وہ دولت عطا ہوئی کہ ہر سو سکون کی فضا چھا گئی۔ محبت نے میرے ساتھ نورانی سائے کا سائبان رکھا۔ مجھے خیر ہی خیر دکھائی دینے لگی۔ میں ایک نئی صغرا صدف سے ملی یا شاید اصل سے جو ایسی ہی تھی مگر زمانے کی گرد سے اٹ کر میلی ہو گئی تھی۔ سارے خول اور بہروپ چھین لئے گئے۔ آج میرے لئے یہ دن بہت اہم ہے کہ مجھے نیا جنم محسوس ہوتا ہے۔ ربّ کرے ہر دن ہم خدمتِ خلق کے حوالے سے کچھ اہم کر سکیں۔

قلم نصیب ہوا رت جگوں کے ساتھ مجھے

میں دیکھنے سے بہت پہلے خواب لکھتی رہی

تازہ ترین