• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلیں، اچھا ہوا اب پاکستان کی آئندہ نسلیں اپنے ملک کو الباکستان کہا کریں گی کہ پارلیمان میں بچوں کو پہلی سے 11ویں جماعت تک عربی زبان لازمی پڑھائے جانے کا بل منظور ہو چکا ہے لیکن کیونکہ عربی کے 28حروف تہجی میں تو ’پ‘ ہے ہی نہیں اور چ، ژ، ڈ، ز، گ وغیرہ بھی نہیں ہیں جبکہ اردو زبان کے حروف تہجی کی تعداد 37ہے، یہ نکتہ درست ہے کہ قرآن مجید کی زبان کیونکہ عربی ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے قرآن و حدیث کی زبان کو بہتر طور پر سمجھنا ضروری ہے لیکن بل منظور کرنے والوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اُن کروڑوں ہم جیسے لوگوں کا کیا کہ جنہوں نے مدرسوں، مسجدوں میں صرف عربی میں قرآن پڑھا ہے اور رٹا لگاتے ہوئے ہمیں علم ہی نہ ہو سکا کہ دین کی اصل تعلیمات کیا ہیں؟ کیا ہی اچھا ہوتا اگر بل اس طرح منظور ہوتا کہ اسکولوں اور مدارس میں عربی کے ساتھ ساتھ قرآن کا اردو ترجمہ بھی لازمی پڑھایا جائے گا۔ پھر ذرا اس پہلو پر بھی غور کر لیا جائے کہ کیا ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں اس ملک کے آئین تمام قوانین اور نظام کو قرآن و سنت اور احادیث کے عین مطابق ڈھالنے کی دستوری ضمانت جو آئین پاکستان میں دی گئی ہے کیا ہماری اشرافیہ اور مقتدر قوتوں نے اس پرعملدرآمد کرلیا ہے؟ ستمبر 2015ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دیا تھا جو کہ ایک آئینی تقاضا بھی تھا تو کیا اس پر عملدرآمد کیا جا چکا ہے حالانکہ آئین کے آرٹیکل 251میں درج ہے کہ اردو کو دفتری زبان بنایا جائے۔

دنیا بھر میں تقریباً 6500زبانیں ہیں لیکن فی زمانہ تعلیم و ترقی کے لئے انگریزی زبان ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعہ جدید علوم کے در کھلتے ہیں، یہ بات درست ہے کہ بہت سے ممالک کے حکمران اپنی ملکی زبان میں تقاریر کرتے ہیں اور اپنی ریاستی زبان میں ملک کا نظم و نسق چلاتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انہیں انگریزی آتی نہیں یا ان کے ملکوں میں انگریزی بولنے یا سیکھنے کی اجازت نہیں بلکہ وہ اپنی زبانوں پر فخر کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ ذہن میں رکھیں کہ ہندوستان کی سرکاری زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جانے والی ہندی ہے لیکن انگریزی بھی سرکاری زبان ہے ، اس کے ساتھ ہندوستان بھر کی ریاستی حکومتوں میں 23 زبانیں سرکاری حیثیت رکھتی ہیں تاکہ علاقائی سطح پر عوام بہتر طور سے معاملات کو سمجھ سکیں، آزادی کے بعد ہندوستان نے بھی بڑی کوشش کی کہ انگریزی کو اپنے روزمرہ کے معاملات سے نکال کر 15سال کے اندر صرف ہندی کو ہی سرکاری اور عام بول چال کی زبان بنایا جائے لیکن انگریزی کی بڑھتی ہوئی گرفت نے انہیں کامیاب نہ ہونے دیا، ہندوئوں کی قدیم مذہبی، فکری اور تاریخی ادب کا بڑا حصہ سنسکرت میں لکھا گیا ہے ان کی الہامی کتابوں رگ ویر، اپینشد اور بھگوت گیتا بھی اسی زبان میں ہیں لیکن آج ہندوستان بھر میں شاید گنے چنے لوگوں کو ہی یہ زبان آتی ہو گی اور نہ ہی کبھی کسی بھی بھارتی حکومت نے زبردستی یا قانوناً سنسکرت کو تعلیمی اداروں میں پڑھنا یا سرکاری زبانوں میں شامل کرنا لازمی قرار دیا بلکہ ہر صوبے یا ریاست کو اجازت ہے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق اپنی علاقائی زبان کو مقتدر یا سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کر سکتی ہے۔ اسی طرح بائبل مسیحیوں اور تورات یہودیوں کی مذہبی کتابیں عبرانی زبان میں ہیں لیکن پوری مسیحی دنیا میں جہاں جہاں انگریزی سمجھی جاتی ہے وہاں ان کتب کا انگریزی ترجمہ جو پہلی دفعہ 1610ء میں شائع ہوا پڑھا اور سمجھا جاتا ہے یہ ترجمہ 47مسیحی علماء نے چھ سال کے عرصہ میں مکمل کیا چنانچہ پاکستانی علماء بھی قرآن مجید کا ترجمہ اردو میں کر کے ایسی ہی کوشش کر سکتے ہیں تاکہ ہمیں اپنے دین کی سمجھ بہتر طریقے سے اپنی قومی زبان میں آ سکے۔

اردو ایسی بھی کوئی غیر معروف زبان نہیں ہے بلکہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے یہ بھارت کی چھ ریاستوں اور آئین ہندوستان کی بائیسویں دفتری زبان کی شناخت میں شامل ہے لیکن ان سب حقائق کے باوجود اصل بات یہ ہے کہ جن کروڑوں لوگوں کی مادری زبان انگریزی ہے ان کے علاوہ 150کروڑ افراد دنیا بھر میں یہ زبان سیکھ رہے ہیں چنانچہ حقیقت یہی ہے کہ انگریزی ہی ترقی و مستقبل کی زبان ہے۔ زبانیں انسانوں کے لئے رابطے کا ذریعہ ہوتی ہیں انہیں تعصب کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے اور نہ ہی جبراً کسی زبان کو پڑھایا جانا چاہئے بلکہ کسی زبان کو بولنا یا سیکھنا افراد کی اپنی مرضی پر چھوڑ دینا چاہئے اور بدلتے ہوئے وقت کی ضرورت کے مطابق اجتہاد کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے جیسا کہ ایک مسلمان ریاست دبئی نے انگریزی اور عربی کے بعد ہندی کو تیسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی بڑی تعداد میں امارات میں آباد ہیں ایسا کرنے سے انہیں آسانی ہو گی۔ ایک اور مثال اس ضمن میں یوں ہے کہ کنفیوشس ازم چین کا اہم مقامی مذہب ہے جو اڑھائی ہزار سال کی مسلسل تاریخ رکھتا ہے اور دو ہزار سال تک حکمرانوں کا مذہب رہا ہے اس کی تمام تر تعلیمات چین کی ایک معدوم زبان میں ہیں لیکن آج کے چین میں ان تعلیمات کو سٹینڈرڈ چینی یا جدید چینی زبان جو چین، تائیوان اور سنگا پور کی بھی سرکاری زبان ہے میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے چنانچہ عرض یہ ہے کہ زندہ قوموں کی طرح بس زور زبردستی اور جبر مت کیجئے۔

تازہ ترین