ہمیں کچھ بھی خالص نہیں ملا ۔ادویات ، مصنوعات،سبزیاں ،پھل ،آٹا ،شکراور مرچ سمیت کھانے پینے والی اشیاملاوٹ سے بھرپور ہوتی ہیں۔
شدھ اسلام کا فقدان ہے ،خالص جمہوریت چراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔ہم صبح وشام فریب خوردگی کی اس آگ میں جلتے ہیں کہ نجات دہندہ اور مسیحا فریبی اور دغا باز ثابت ہوئےہیںجبکہ راہبر،راہزن نکلتے ہیں۔
کبھی کوئی نیک طنیت فرمانروا میسر آبھی جائے تو اسے اچھی ٹیم میسر نہیں آتی ،صالح اور نیک مشیر نہیں ملتے ۔بدعنوانی کے خوگر ’اسٹیٹس کو‘‘کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اسے کامیابی کی طرف نہیں بڑھنے دیتے۔
قومی خزانہ خالی ملتا ہے ،سابقہ حکومتیں اچھی نہ ہونے کی وجہ سے ملکی حالات ٹھیک نہیں ہوتے ، سابقہ ادوار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے معاشی حالت دگرگوں ہوتی چلی جاتی ہے ،افسر شاہی تعاون نہیں کرتی ،قلم کی حرمت بیچنے والے صحافی رکاوٹ بنتے ہیں ،بدعنوان سیاست دان اپنا مال بچانے کے لئے سڑکوں پر آجاتے ہیں تاکہ این آر او حاصل کیا جا سکے۔ ناہمواری اور عدم تعاون کا یہ عالم ہے کہ انسان تو کیا حیوان بھی کرپشن پر مائل ہیں ۔
تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وزیراعظم کوساہیوال میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران یہ شکوہ کرنا پڑا کہ چین میں گائے 6گنا زیادہ دودھ دیتی ہے۔
بات ہو رہی تھی ،ملاوٹ اور جعلسازی کی۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں آج تک کچھ بھی خالص نہیں ملا۔سیاستدان تو ہیں ہی شعبدہ باز مگر ہمیں ڈکٹیٹر بھی ملے توپرلے درجے کے منافق اور جھوٹے۔افسرشاہی میں وہ رعب و دبدبہ اور طنطنہ دکھائی نہیں دیتا،کرگس اور شاہیں کا جہاں ایک ہوگیا ہے،علمائے حق اور علمائے سو میں کوئی خاص تفاوت باقی نہیں رہا ۔
کبھی کبھی تو یہ سارانظام ہی جعلی سا محسوس ہوتا ہے۔ پوتر اور شدھ کی تو تلاش ہی عبث ہے البتہ ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ میسر آنے والی چیز میں ملاوٹ زیادہ نہ ہو۔دھوکہ تو ہونا ہی ہے مگر اس کے بدلے میں ہونے والا نقصان کم سے کم ہو۔
مگرتمام تر تگ وتاز کے باوجود نقصان ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔گزشتہ ماہ ہمارے ہاں ’’براڈشیٹ‘‘نامی کمپنی سے ملکر کئے گئے فراڈ کا چرچا رہا ۔معلوم ہوا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے سہانے خواب دکھا کر کس طرح قومی خزانے کو لوٹا گیا۔
ہمارے ہاں پاکستانیوں کی بیرون ملک رقوم واپس لانے کی آڑ میں چونا تو کئی بار لگایا گیا البتہ آج تک ایک پائی بھی واپس نہیں لائی جا سکی ۔لیکن چند روز پہلے برطانوی نشریاتی اداے کی ایک رپورٹ نظر سے گزری تو معلوم ہوا کہ براعظم افریقہ کا ملک نائجیریا کس طرح بیرون ملک رکھی گئی لوٹی ہوئی رقوم میںسے 2.4ارب ڈالر واپس لانے میں کامیاب ہوا۔
جنرل ثانی اباچا جو نائیجیریا کے آرمی چیف تھے اور بعد ازاں ڈنڈے کے زور پر باوردی وزیر دفاع بھی بن گئے ،انہوں نے 17نومبر 1993کو عنانِ اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پھر 8جون 1998کو طبعی موت مرنے تک بطور ڈکٹیٹر حکومت چلاتے رہے ۔
جنرل ثانی اباچا کے دور میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی تو معمول تھی ہی، کرپشن اور لوٹ مار کے بھی نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔نہ صرف سرکاری ٹھیکوں میں مال بنایا جاتا بلکہ جعلی کمپنیاں بنا کر فرنٹ مین کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں کی غرض سے رقم جاری کرکے جنرل ثانی اباچا کے محل پہنچا دی جاتی۔
بتایا جاتا ہے کہ لوٹ مار کی رقم بعض اوقات ٹرکوں پر لاد کر جنرل ثانی اباچا کی رہائشگاہ پہنچائی جاتی۔جنرل ثانی اباچا کا خیال تھا کہ جب کبھی اسے اقتدار چھوڑ کو فرار ہونا پڑا تو وہ بیرون ملک کوئی جزیرہ خرید کر عیاشی کی زندگی بسر کرے گا ۔
وہ54برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے مرگیا تو ملک میں جمہوریت بحال ہوئی اور اس کے دور میںکی گئی لوٹ مار کی تحقیقات شروع کی گئیں۔ابتدائی طور پر تخمینہ لگایا گیا کہ ڈیڑھ ار ب ڈالر بیرون ملک اکائونٹس میں جمع کروائے گئے ہیں مگر پھر پتہ چلا کہ سوئس بنکوں میں جمع کروائی گئی رقم کئی ارب ڈالر ہو سکتی ہے۔
انہی دنوں میں جب ہمارے ہاں ایک ڈکٹیٹر کے دور کا آغاز ہو رہا تھا اور براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ کرکے بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع کیا جارہا تھا،نائجیریا کی حکومت نے سوئس وکیل اینرکو مونفرینی سے رابطہ کیا اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے مل کر کام کرنے کی پیشکش کی۔
ہمارے ہاں تو انتہائی ناقص اور بھونڈی شرائط کے عوض براڈشیٹ کو 20فیصد حصہ دینے کا وعدہ کیا گیا اور یہ بھی لکھا گیا کہ ہم ریکوری کریں گے تو اس میں سے بھی حصہ دیں گے مگر نائیجیریا کے حکام نے مونفرینی کو صرف 4فیصد کمیشن دینے کا وعدہ کیا۔
2008میں پہلی کامیابی ملی اور سوئس حکام نے 508ملین ڈالر نائیجیریا کی حکومت کو لوٹا دیئے۔چند برس بعد لیچٹینسٹن نے نائیجیریا کو 277ملین ڈالر بھجوا دیے اور پھر جرسی کے ایک اکائونٹ سے نائیجیریا کو 308ملین ڈالر واپس مل گئے۔
مجموعی طور پر 2.4ارب ڈالر وصول ہو چکے ہیں جبکہ ابھی برطانیہ سے 30ملین ڈالر ،فرانس سے 144ملین ڈالر اور جرسی سے مزید 18ملین ڈالر آنا باقی ہیں۔
مونفرینی نے یہ تفصیل اپنی کتاب Recovering Stolen Assetsمیں بھی بیان کی ہے۔اگر سمت تبدیل کرلی جائے ،اہداف بدل لئے جائیں اور نیت میں کھوٹ نہ ہو تو پاکستان بھی لوٹی ہوئی رقم واپس لا سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)