• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ دورِ حکومت میں یہ سوال زبان زدِعام ہے کہ ملکی پالیسیوں کی وجہ سے اگر عوام پریشان ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ پہلے ادوار میں بیوروکریسی پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کروانے میں اہم کردار ادا کرتی تھی اور سیاست دان ایک خاص حد تک اس میں دخل اندازی کرتے تھے لیکن اب حالات قدرے مختلف ہیں۔ موجودہ حکومت نے پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری مشیروں کو سونپ دی ہے جس سے سسٹم نے آگے بڑھنے کی بجائے ریورس گیئر لگا رکھا ہے۔ بیوروکریسی نے (GO SLOW) پالیسی اپنا رکھی ہے جس سے ریاست کے معاملات چلانے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس صورتحال کو ٹیکنیکل انداز میں دیکھا جائے تو بیوروکریسی ٹھیک ہی کر رہی ہے۔ اس وقت مروجہ رولز، رولز آف بزنس کے مطابق وفاق اور صوبوں میں سیکرٹری ہی اپنی منسٹری کی ورکنگ اور دیگر تمام انتظامی معاملات کیلئے حکومت اور دیگر اداروں کو جوابدہ ہے۔ اپنے محکمے کا پرنسپل اکائونٹنگ افسر بھی سیکرٹری ہی ہوتا ہے جو فنڈز کے استعمال پر جوابدہ ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت میں کام چونکہ مشیر چلا رہے ہیں اسلئے وہ حکم دیتے ہیں لیکن کسی غلطی کی صورت میں ذمہ داری سیکرٹری کی ہوتی ہے۔ حکومتی نظام میں یہ رجحان(PUSH & PULL) انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ اس کھینچا تانی کے باعث بیوروکریسی انتہائی محتاط ہو کر چل رہی ہے۔ حکومت کو بارہا دفعہ تجویز دی گئی ہے کہ اگر آپ نے مشیر بنانے ہیں، ضرور بنائیں لیکن پھر رولز آف بزنس میں ترمیم کریں جس میں کل کو بیوروکریٹس کے ساتھ ساتھ انہیں پالیسیوں پر عملدرآمد کروانے کا حکم دینے والے مشیر بھی حکومت اور اداروں کو جوابدہ ہوں لیکن حکومت رولز آف بزنس میں اس حوالے سے ترامیم کرنے سے نجانے کیوں گریزاں ہے۔ موجودہ (DICATOMY OF POWER) میں اتھارٹی اور جوابدہی بیورو کریٹس کی ہے لیکن اسے حکومتی مشیر احتساب کے خوف کے بغیر استعمال کر رہے ہیں۔ کسی کو بھی ان مشیروں کی تعلیمی قابلیت اور اہلیت پر شک نہیں لیکن انہوں نے جہاں سے تعلیم حاصل کی اور جن اداروں میں کام کیا، اس ماحول کا پاکستان کے زمینی حالات سے کوئی تعلق نہیں۔ پنجاب، بلوچستان، کے پی اور سندھ کے دور دراز علاقوں کی سیاسی، مذہبی اور معاشی ڈائنامکس مختلف ہیں۔ ان علاقوں کی مشکلات صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی سروس کے 20سے 30سال ان علاقوں میں گزارے ہوں۔ حکومت نے بےشمار مشیر اور کنسلٹنٹس رکھے ہوئے ہیں جن کا تعلق پرائیویٹ سیکٹر سے ہے۔ وزیروں اور عوام کے حقیقی نمائندوں جو ووٹ لے کر پارلیمان میں آتے ہیں اور جو معروضی حالات کا زیادہ بہتر ادراک رکھتے ہیں، کی سفارشات کو کم اور غیرمنتخب مشیروں کے آئیڈیاز کو زیادہ اہمیت دے کر پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔ پنجاب کے 36محکموں میں صرف خزانہ، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، تعلیم اور صحت میں کام ہو رہا ہے کیونکہ ان سے متعلقہ کاموں میں ’’ایمرجنسی‘‘ شامل ہوتی ہے۔ باقی 32محکمے ’’گو سلو‘‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں(POLITICAL STEWARDSHIP) کوئی نہیں۔ محکمے سیاسی پشت پناہی چاہتے ہیں لیکن کرنے والے خود کنفیوژ ہیں۔ دنیا کے موقر جریدے ’’اکانومسٹ‘‘ نے حال ہی میں اپنے انٹیلی جنس یونٹ کی طرف سے تیار کردہ ڈیموکریسی انڈکس رپورٹ شائع کی ہے جس میں دنیا کے مختلف ملکوں کے جمہوری نظام کو 4کیٹیگریوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک کیٹگری ’’فل ڈیموکریسی‘‘ کی ہے جس میں وہ ممالک سامل ہیں جہاں جمہوریت عوام کو اُن کے تمام حقوق دینے میں کامیاب رہی۔ دوسری کیٹگری میں "FLAWED DEMOCRACY" آتی ہے۔ اس میں وہ ملک شامل ہیں جو جمہوری ملک ہونے کے ناطے اپنی بیشتر ذمہ داریاں نبھانے میں کامیاب رہے لیکن عوامی حقوق کے حوالے سے مثالی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ تیسری کیٹگری میں (HYBRID REGIME OR AUTHORITARIAN REGIME) آتا ہے۔ یہ وہ کیٹگری ہے جس میں کسی ملک میں مخلوط قسم کی سیاسی حکومت ہو جو نامکمل جمہوری منتقلی کے نتیجے میں آمریت کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے۔ اکانومسٹ ڈیموکریسی انڈکس میں پاکستان کو ہائبرڈ ڈیموکریسی کے درجے میں رکھا گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ غیرمنتخب مشیروں سے مناسب ہدایات اور مشورے ضرور لے لیکن عوامی منتخب نمائندوں اور بیوروکریسی جو بنیادی مسائل اور حالات کا ادراک رکھتے ہیں، کی طرف سے دی گئی تجاویز پر من و عن عمل کروائے تاکہ ڈیموکریسی انڈکس میں یہ تاثر پیدا ہو کہ عوام کو ریاست کی طرف سے دیے گئے حقوق اُن کے منتخب نمائندوں اور اُن کی خواہشات کے مطابق دیے گئے ہیں۔

تازہ ترین