• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا تازہ انتخابات نے قومی سیاست کا منظرنامہ بدل دیا ہے؟
بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ جی ہاں ان انتخابات نے سیاست میں خاصی ہلچل پیدا کی ہے جس کے دوررس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا ایک بڑی قوت بن کر ابھرنا ، دوسری بڑی جماعت ، پیپلز پارٹی کا جوئے کم آب کی طرح سمٹ جانا ، مسلم لیگ (ق) کا معدوم ہوجانا، تحریک انصاف کی نمو ، اے این پی کی بے بال و پری اور ایم کیو ایم کے فولادی قلعے میں دراڑیں ، بدلے ہوئے سیاسی منظر کے نمایاں خدوخال ہیں۔ کیا یہ تبدیلی مستقلاً ہماری سیاست میں گھر کر جائے گی یا حالات اگلے انتخابات تک ایک اور بڑی کروٹ لیں گے؟ اس کے بارے میں حتمی طور تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن وہ جو علامہ نے کہا تھا کہ ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“ تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی عروج و زوال کی یہ کہانی کروٹیں بدلتی رہیں گی اور منظر تبدیل ہوتے رہیں گے۔
پیپلزپارٹی1997ء میں بھی اس آشوب سے گزرچکی ہے۔ تب وہ قومی سطح پر صرف اٹھارہ نشستوں تک محدود ہوکے رہ گئی تھی جو ساری کی ساری سندھ سے تھیں۔ باقی تینوں صوبوں میں اس کی کوئی نمائندگی نہ تھی۔ تب پارٹی کی باگ ڈور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھ تھی جو لڑنا بھی جانتی تھی اور تدبیر کاری کا فن بھی۔ ان کی پرکشش شخصیت عوام کے لئے بھی زبردست اپیل رکھتی تھی سو انہوں نے کسی نہ کسی طور پارٹی کو سنبھالے رکھا۔ ان کا وجود پارٹی کارکنوں کے لئے امید کی کرن رہا اور وہ کٹھن دنوں میں بھی خوابوں سے محروم نہ ہوئے۔ گیارہ برس بعد 2008ء میں پی پی پی ایک بار پھر اقتدار میں آگئی لیکن اس طرح کہ اس کے عارض و رخسار میں بی بی کا لہو دمک رہا تھا۔
پیپلز پارٹی کے کچھ وابستگان کہتے ہیں کہ اگر 1997ء میں اٹھارہ نشستوں تک محدود ہوجانے کے بعد پارٹی دوسرا جنم لے سکتی ہے تو تازہ شکست کے بعد بھی وہ ایک بار پھر پوری قوت سے انگڑائی لے سکتی ہے۔ اس دلیل کو رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سیاست کی جادونگری میں امکانات کے دریچے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں لیکن کچھ پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ پہلا یہ کہ جناب آصف زرداری اب بہرحال پارٹی کے تن مردہ میں روح پھونکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس میدان میں ان کی بے ہنری واضح ہوچکی ہے۔ انہوں نے پارٹی کے پرانے وابستگان کی جگہ اپنے وفا شعاروں کا ایک قبیلہ تراشا، ایسا قبیلہ جس کا بھٹو اور بے نظیر کی جماعت سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔ بلاول کے بارے میں ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ وہ سیاست میں کتنی دلچسپی رکھتا ہے اور کب پوری طرح متحرک ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت نے بدترین حکمرانی کی انتہائی متعفن مثال قائم کی ہے جسے دیر تک بھلایا نہ جاسکے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ 1997ء میں پیپلز پارٹی کا ووٹر بددل ہو کر گھر بیٹھ گیا تھا۔ پولنگ کی شرح صرف 31فی صد رہی تھی لیکن اس بار پی پی پی کا ووٹر گھر نہیں بیٹھا۔ وہ غصے اور اشتعال کی حالت میں گھر سے نکلا اور نواز شریف کو شکست دینے کے لئے پوری قوت سے تحریک انصاف کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پولنگ کی شرح 56فی صد تک جاپہنچی۔ گویا جوہری فرق یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حد تک تحلیل ہوگئی۔ اس کی جگہ عمران خان کی تحریک انصاف نے لے لی۔ میں کسی دن انتخابی نتائج کے اعداد و شمار کے حوالے سے واضح کروں گا کہ عمران خان نے کم و بیش وہی ووٹ لیا جو پیپلز پارٹی سے ٹوٹا۔اس میں کچھ نئے ووٹرز بھی شامل ہوگئے۔ 1997ء میں پی پی پی سے روٹھنے والا ووٹر واپس آگیا تھا لیکن اب وہ قطع تعلق کرکے پی ٹی آئی کی طرف نقل مکانی کرچکا ہے۔ آصف علی زرداری نے جو حکمت عملی تراشی اور اسے اربوں روپے سے سینچا، وہ غلط ثابت ہوئی۔ وہ عمران خان کا قدوقامت سنوارتے رہے کہ وہ نواز شریف کی تجوری توڑے گا لیکن اس نے زرداری صاحب ہی کی پونجی لوٹ لی۔
مسلم لیگ (ق) کو تحلیل ہونا ہی تھا۔ وہ پہلے پرویز مشرف اور پھر آصف زرداری کے حرم کی زینت بنی رہی لیکن فیصلہ عوام کے ہاتھ آیا تو انہوں نے اسے فارغ کردیا۔ اعدادوشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ”ق“ کے سارے ووٹرز قطار بنا کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے اور وہ تقریباً اڑسٹھ لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ گئی۔ کیا مسلم لیگ (ن) اپنا یہ ووٹ بینک برقرار رکھ سکے گی؟ اس کا انحصار اس کی حکومت پر ہے۔ لوگوں نے شہباز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے شیر کوووٹ دیئے۔ سرائیکی صوبے کا پُرفریب نعرہ بھی زرداری صاحب کے کام نہ آیا۔ جنوبی پنجاب نے بھی پہلی بار بھرپور انداز میں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا۔ بڑی بات یہ ہوئی کہ عمران خان اپنا سارا زور میاں نواز شریف پر صرف کرنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز نہ توڑ پائے۔ البتہ ان کی ”نواز دشمنی“ نے پی پی پی کے جیالوں کا دل ضرور گرمایا جو اپنی جماعت سے ناتا توڑ کر پی ٹی آئی میں آگئے۔ عوامی مقبولیت کے اس بے کراں اثاثے کو سنبھالنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کو مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
تحریک انصاف خواب فروشوں کے ہتھے چڑھ گئی۔ انہوں نے اسے زمینی حقائق سے بہت دور کردیا۔ عمران خان بھی اسی موج رنگ ونور میں بہہ گئے اور ان کے پرستار بھی۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ کیڑا کاری کرنے اور دھاندلی کا غوغا مچانے کے بجائے مسلم لیگ (ن) ہی کی طرح یوم تشکر مناتے۔ پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ لئے اور دوسرے نمبر پر رہی۔ پی پی پی کے 68لاکھ کے مقابلے میں اسے 76لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ وہ خیبرپختونخوا کی سب سے بڑی پارٹی بن کے ابھری۔ اس کا امتحان یہ ہے کہ وہ اس ووٹ بینک کو سلامت رکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ اپنے منشور کے مطابق خیبرپختونخوا کو تبدیلی اور انقلاب کی تجربہ گاہ بنائے۔ وہاں بھی پانچ سال پرلے درجے کی کرپشن کا راج رہا ہے۔ تحریک انصاف کرپٹ افراد کے کڑے محاسبے کا اہتمام کرے۔ اگر وہ اگلے پانچ برس کے دوران اپنے زیر اختیار صوبے کو خوابوں کے جزیرے میں ڈھال سکی تو مستقبل اس کا ہے۔ اگر وہ بھی اسٹیٹس کو کا گلّی ڈنڈا کھیلتی رہی تو یاد رکھئے کہ اس کا پڑھا لکھا ووٹر اس کا ساتھ چھوڑ جائے گا اور خیبرپختونخوا تو ویسے بھی ہر انتخاب میں نیا تجربہ کرنے کا ذوق رکھتا ہے۔
ایم کیو ایم مشکل میں ہے۔ الطاف بھائی کی صحت ٹھیک نہیں۔ کئی عوامل ان پر ذہنی دباؤ ڈال رہے ہیں۔ کراچی میں اس کی اجارہ داری پر کاری ضرب لگی ہے۔ اگر فوج کی زیر نگرانی انتخابات کا کڑا اہتمام ہوجاتا تو ایم کیو ایم کے قلعے میں کئی شگاف پڑ جاتے۔ اب بھی فصیلیں ہل گئی ہیں۔ اندرونی تلاطم بھی بہت کچھ ہورہا ہے۔ روایتی طور پر ایم کیو ایم کو ہمیشہ وفاق میں ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے اس کے تعلقات اچھے نہیں۔ حکومت سازی کے لئے اس کی احتیاج بھی نہیں۔ گورنر عشرت العباد بھی سامان سمیٹ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) وہاں اپنا گورنر تعینات کرے گی۔ سو آنے والے پانچ سال ایم کیو ایم کے لئے فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کا تذکرہ پھر سہی کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی توانائیاں انتخابی سیاست کی بھینٹ کیوں چڑھا رہی ہے؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ وہ فراخ دل اور کھلے دماغ سے اس زیاں کاری کا جائزہ لے؟
تازہ ترین