• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفا کے اپنے اپنے پیمانے ہوتے ہیں کوئی کسی دوست یا باس یا حکمران سے وفا کرتے ہوئے یا اسکی خوشنودی کے لئے سزا برداشت کر لیتا ہے، کوئی محبوبہ کا رشتہ نہ ملنے پر وفا کے تقاضوں کو نبھانے کے لئے خودکشی کر لیتا ہے، کوئی چوروں لٹیروں کے ہاتھوں بیوی بچوں کو بچاتے بچاتے گولی کھا کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، کوئی انعام واکرام کے لالچ میں میر جعفر اور صادق کی مانند اپنے سیاسی آقا سے بے وفائی کرکے غیر ملکی آقا سے وفا کرتا اور انعامات پاتا ہے ۔کوئی ملک و قوم یا دین سے وفا کے اعلیٰ تقاضے پورے کرتے ہوئے شہید ہو جاتا ہے اور شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر ہمیشہ کے لئے متمکن ہو جاتا ہے ۔ شہداء کے بارے میں فرمان الٰہی ہے کہ انہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور کھاتے پیتے ہیں ۔ یہ انعام ہے اللہ کا ان کے لئے جو اس سے وفا کرتے ہیں ۔ کوئی اپنے رب اور خالق سے وفا کے نشے میں ہر دم اللہ ھو کرتے کرتے جان مالک حقیقی کے سپرد کر دیتا ہے ۔گویا وفا کے اپنے اپنے پیمانے ہیں اور اپنا اپنا تصور ہے۔ ایک وفا کتے کی ہے جو روکھی سوکھی کھا کر اپنے مالک کے در پر بیٹھا رہتا ہے، اسے نہ سردی لگتی ہے نہ گرمی، وہ مالک کو دیکھ کر خوش ہوتا اور اسکے قدموں میں لوٹنے لگتا ہے اور مختصر یہ کہ وفا کی بہت سی قسمیں ہیں اور بہت سے درجے ہیں ۔ کوئی وفا کے اعلیٰ ترین درجے نشان حیدر کا مستحق ٹھہرتا ہے تو کوئی لعن طعن اور نفرت کی علامت بن کر تاریخ میں جگہ پاتا ہے ۔ کسی کی اپنے نفس اور ہوس سے وفا ملک و قوم سے دغا کر جاتی ہے اور اسے دغاباز، نمک حرام بنا کر عبرت کا نشان بنا دیتی ہے ۔ ہندوستان کی بڑی مسلمان ریاست اودھ کے والی واجد علی شاہ سے ان کے برادر نسبتی میر علی تقی نے بے وفائی کی اور انگریزوں سے دولت اور وعدے لیکر واجد علی شاہ سے کاغذات پر دستخط کروا کر اودھ کی ریاست انگریزوں کے سپرد کر دی ۔ انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے اور غلبے میں تین میروں نے اہم کردار سرانجام دیا اور ہندوستان کا مقدر بدل کر رکھ دیا ۔ میر جعفر، میر صادق اور میر علی تقی ،پہلے دو میروں پر تو علامہ اقبال نے بھی دکھ کا اظہار کیا ہے گویا یہ بھی وفا کی ایک قسم ہے کہ انسان اپنے نفس، اپنی ہوس سے وفا کرتے ہوئے قومی مفاد سے بے وفائی کر جاتا ہے ۔ اگر آپ ان بے وفاؤں کی وفاداری کا مطالعہ کریں تو جواز ان کے پاس بھی تھا کیونکہ جواز تو ہر شے کا ڈھونڈھا جا سکتا ہے ۔ عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے ۔ آخر قاتل، چور اور مجرم کا وکیل بھی تو سب کچھ جاننے کے باوجود اسکے حق میں دلائل دیتا اور اپنے دلائل کی برقی روشنی سے ججوں کی آنکھیں چندھیاتا ہے۔ اس دنیا میں انسان آزاد ہے ، حساب تو اگلے جہان دینا ہے اس لئے اکثر لوگوں کو حساب دینے کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ وہ فقط اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتے اور اسی دنیا کا مال و اسباب سمیٹتے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل میں نے اخبارات میں ایک خوفناک خبر پڑھی تھی جس نے کئی روز تک مجھے بے چین رکھا خبر یہ تھی کہ کراچی میں ایک انسان نما حیوان یعنی ایک مجرم پکڑا گیا جو قبرستانوں میں قبریں کھودتا اور رات کی تاریکی میں مردوں کی بے حرمتی کرتا تھا ۔ اخباری رپورٹر نے اسے حوالات میں انٹرویو کیا تھا جہاں اپنے کرتوتوں کے راز بیان کرتے ہوئے وہ موت کا متمنی تھا ۔ اس شخص نے انکشاف کیا کہ وہ اکثر قبروں کو کھود کر مردوں کی بے حرمتی کرتا رہا ۔ ایک رات اس نے حسب معمول قبر کھودی، میت باہر نکالی تو اس نے دیکھا کہ میت کے دل سے روشنی کی تیز شعاعیں نکل رہی ہیں اس روشنی نے اسے اس قدر خوفزدہ کیا کہ وہ جلدی جلدی میت کو قبر میں ڈال کر خوف کی حالت میں بھاگ گیا گھر آکر غسل کیا اور نماز پڑھ کر اللہ سے معافی مانگی اور گناہ سے توبہ کی ۔ کچھ عرصہ یہ توبہ قائم رہی پھر شیطان غالب آ گیا اور اس نے دوبارہ وہی دھندا شروع کر دیا ۔ اس بار وہ پکڑا گیا اور قانون کے شکنجے میں پھنس گیا فرق ملاحظہ فرمائیے توبہ کا اور سچی توبہ کا۔اللہ سبحانہ تعالیٰ توبہ قبول کرتے ہیں اگر وہ سچی اور خلوص نیت سے ہو ، ہاں تو موت کا متمنی مجرم حوالات میں یہ انکشاف کر رہا تھا کہ ایک میت جسے سپرد خاک کئے نہ جانے کتنا عرصہ گزر چکا تھا ان معنوں میں اب بھی زندہ تھی کہ اس کے قلب سے نور کی روشنی کی تیز کرنیں فضا میں پھیل رہی تھی اور اس روشنی میں اتنا دبدبہ اور وقار تھا جو دیکھنے والے کو ہیبت زدہ اور خوفزدہ کر دیتا تھا ۔ ذرا سوچیئے کون سی روشنی لوڈشیڈنگ سے بے نیاز ہے ، کونسی روشنی قلب سے نکلتی اور آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے، ظاہر ہے یہ وہ روشنی ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے اور یہ وہ روشنی ہے جو نہ میت کو خراب ہونے دیتی ہے اور نہ ہی بظاہر تنگ و تاریک قبر کو اندھیری کوٹھڑی میں تبدیل ہونے دیتی ہے بلکہ قبر میں حدنظر تک اجالا کرتی اور قبر کو حد نظر تک وسیع و عریض کر دیتی ہے ۔انسان کب مرتا ہے؟ جب اس کا قلب دھڑکنا چھوڑ دے کیونکہ قلب کو انسانی جسم میں مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور قلب ہی روح کا مسکن ہوتا ہے ۔ قلب کب مردہ ہوتا ہے جب قلب سے روح پرواز کر جائے کیونکہ جسم مر جاتا ہے لیکن روح نہیں مرتی، روح امر الٰہی ہے اس لئے اسے ابدیت حاصل ہے ۔ اب مجھے بتائیے کہ جس دل سے جسمانی موت کے بعد روشنی کا سیلاب امڈ رہا ہو کیا وہ دل مردہ ہو سکتا ہے ؟ مردہ شے تو مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتی ہے جبکہ روشنی تو اعلیٰ ترین زندگی کی اعلیٰ ترین نشانی ہے ۔ تو گویا وہ قلوب جو کہ موت کے بعد روشنی کے گھر بن جاتے ہیں وہ مردہ نہیں ہوتے بلکہ زندہ ہوتے ہیں، صرف ہمیں نظر نہیں آتے ۔سوال یہ ہے کہ موت کے بعد کون سے دل زندہ رہتے اور روشنی کے مسکن بلکہ بجلی گھر بنتے ہیں ؟ جواب سادہ سا ہے وہ دل جو اپنے مالک حقیقی یا اپنے رب سے وفا کرتے ہیں، زندگی میں اس سے غافل نہیں ہوتے، ہر لمحہ ذکر الٰہی سے دل کو منور رکھتے اور باطن کو روشن رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے اور اس کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں ۔ قلبی روشنی ذکر الٰہی کا انعام ہوتا ہے یہی وفا کی اعلیٰ ترین قسم ہے ۔ ہمارا رب قادر و عادل ہے وہ ہر شے پر قدرت رکھتا اور بہترین عدل کرتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اس کا ذکر کریں اور وہ آپکی ”محنت “ کا اجر نہ دے ۔اس کے اجر اور انعامات کی کوئی حد نہیں، قبر میں قلبی روشنی تو چھوٹا سا انعام ہے بڑے انعامات کا آپ تصور ہی نہیں کر سکتے ۔ اسی لئے تو میں عرض کرتا ہوں کہ انسان موت کے ساتھ مر جاتا ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی محبت میں غرق ہونے والے نہیں مرتے، بلکہ ہماری نگاہوں سے روپوش ہوتے ہیں، پردہ کر لیتے ہیں کہ یہ امر الٰہی ہے ۔ حضرت سلطان باھو  انہی کے بارے میں کہتے ہیں کہ قبر جنہاں دی جیوے ھو،
میرا ایک یار ہوتا تھا پروفیسر ظفر علی احسن سچا عاشق رسول تھا ۔باطن روشن تھا، آنکھوں سے حجاب ہٹ چکا تھا لیکن ایک دوسے زیادہ لوگ اس کی کیفیت سے واقف نہ تھے اس نے زندگی کے آخری کئی برس مدینہ منورہ میں گزار دیئے اور پھر وہیں جنت البقیع میں دفن ہوا ۔ کوئی بیس برس قبل میں ان کے ساتھ نبی کریم کے پیارے چچا حضرت امیر حمزہ  سید الشہدا کے مزار پر گیا فاتحہ خوانی اور حاضری کے بعد لوٹے تو میں نے حسب عادت پوچھا ”صاحب مزار سے ملاقات ہوئی ؟“ وہ زاہد و عابد کہہ سکتا تھا ”نہیں “ لیکن اس نے کہا ” حضور کے ہاتھ میں تیر کمان تھی اور کچھ کھا رہے تھے … “حاجی علی ساجد نے روح افروز کتاب لکھی ہے نام ہے ”معجزات رسول خدا حضرت محمد “ اس کتاب کے صفحہ نمبر 246پر ایک معجزے کا ذکر ہے ”رسول اکرم نے ایک شخص کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ وہ اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لائے گا جب تک آپ اس کی بیٹی کو زندہ نہ کر دیں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا مجھے اسکی قبر دکھاؤ، وہ شخص آپ کو اپنے ساتھ قبرستان لے گیا اور اپنی بیٹی کی قبر دکھائی ۔ حضور نے اس لڑکی کا نام لیکر آواز دی تو قبر کھل گئی اور لڑکی نے قبر سے نکل کر کہا یا رسول اللہ میں آپ کی اطاعت اور آپ کے دین کی تائید کے لئے حاضر ہوں۔ رسول خدا نے اس لڑکی سے فرمایا کیا وہ پسند کرتی ہے کہ دنیا میں دوبارہ آ جائے۔ لڑکی نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے والدین سے بہتر اور اپنے لئے آخرت کو دنیا سے اچھا پایا ہے ۔ پھر آپ کی دعا سے وہ لڑکی دوبارہ قبر کے اندر چلی گئی اور قبر بند ہو گئی “ ذرا غور کیجئے اور سوچیئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کب اور کیسے والدین سے بہتر اور آخرت دنیا سے کب بہتر بنتی ہے ؟
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرے ہیں
تازہ ترین