• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشکول میں ادھار کا پٹرول ہو تو وہ کشکول نہیں رہتا اور جو جلاوطنی میں سہارا اور پناہ دے سکتے ہیں وہ وطن میں پھر سے برسراقتدار آنے پر چند ارب ڈالر کیوں نہیں دے سکتے تاکہ ممنون احسان مہمان ذرا پکے پیر ہو جائیں اور یوں بھی اپنوں سے مدد، امداد، بھیک، خیرات، قرضہ وغیرہ لینے میں بھلا کیا مضائقہ؟ منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے کبھی کبھار کشکول کی ٹوٹ پھوٹ کا حوالہ اور بات ہے۔ مہذب ملکوں کے بیشتر لیڈر عموماً ”ہینڈ ٹو ماؤتھ“ ہوتے ہیں جبکہ ہم جیسے ملکوں کے لیڈر معزز کرنسیوں میں کھرب پتی جبکہ ملک بیچارہ ”پیلی پتی“ بھی نہیں ہوتا۔ رہ گئی خودمختاری جسے کچھ لوگ ”ساورنٹی“ کہتے ہیں وہ آپس میں نہیں غیروں کے ساتھ ہوتی ہے جنہیں ”اغیار“ بھی کہا جاتا ہے جیسے کچھ لوگ ”پچیس سال“ کو ”ربع صدی“ کہہ کر مخاطب کو متاثر کرتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ”ساورنٹی“ سگوں میں نہیں سوتیلوں میں ہوتی ہے اور ویسے بھی روٹی سے لیکر روشنی تک یہ کہیں نہیں لکھا ہوتا کہ مانگے تانگے کی ہے یا اپنی … کبھی ”قرض اتارو ملک سنوارو“ اور کبھی ”قرض چڑھاؤ ملک بچاؤ۔“ اصل منشور یہ کہ بیوقوفوں کو مزید بے وقوف بناؤ۔
عجب سیانے ہیں کہ بدی کے قدیم برگد کی شاخیں تراشتے ہیں، اس کی دور دور تک پھیلی ہوئی جڑوں پر کلہاڑا کوئی نہیں چلاتا کیونکہ اصل میں سارے ایک ہیں اور ان کے درمیان اک خاموش ان لکھا ”میثاق کرپشن“ یہ ہے کہ باری لینے کیلئے زور ضرور لگاؤ لیکن ایک دوسرے کو کاری ضرب ہرگز نہیں لگانی۔
ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے
گورے گورے گالوں نے کالے کالے بالوں نے
عوام یرقان زدہ، رنگتیں زرد، اول تو بال بچتے نہیں اور اگر بچ جائیں تو بچپن میں ہی سفید ہو جاتے ہیں۔ حضور! پیندے کے بغیر برتن کو تو سمندر نہیں بھر سکتا، آپ تو چلو بھر پانی میں نہیں۔ خیر خیرات امریکی ہو یا سعودی، ترکی ہو یا چینی اس ملک کو مزید بدحال اور کنگال کر دے گی۔ ادھار کی خوشحالی ذاتی بدحالی سے کہیں زیادہ بھیانک ہوتی ہے۔
میں نے کوئی ”مفت مشورہ کارپوریشن“ نہیں کھول رکھی صرف ریکارڈ کیلئے عرض ہے کہ ”امداد“ کی بجائے ”احتساب“ کی طرف آؤ کہ اس ملک کا اس قدر پیسہ باہر ہے کہ اندر آجائے تو پاکستان کے سائز کا اک پورا ملک خریدا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی وصولیوں کیلئے بین الاقوامی فضا بھی بہت سازگار ہے۔ سوئٹزر لینڈ سے لیکر یو این او تک بڑی زبردست قسم کی قانون سازی ہو چکی لیکن ایسا کرے گا کون کیونکہ اس طرح کا ہتھیار تو واپس بھی پلٹ سکتا ہے۔
دوسری طرف ”یوتھ“ کے منہ کو قرضوں کا خون لگانے سے پہلے اٹھاؤ ڈانگ اور شروع ہو جاؤ ان معزز چوروں کے خلاف جو ٹیکس نہیں دیتے۔ صرف یہ دو کام ہاتھ سے نکلتی ہوئی معیشت کو لگام دے سکتے ہیں لیکن اصل میں کیے جانے والے یہ دونوں کام ہی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اس لیے مجھے سو فیصد یقین ہے کہ صرف ”ایکشن ری پلے“ ہوگا۔ وہی سطحی، آرائشی، نمائشی، دکھاوے کے کرتب اور بازی گری … وقتی وا وا، جزوقتی بلے بلے، قوم پھر چکر کاٹ کر بوڑھ کے نیچے اور اجتماعی زندگی کے چند مزید سال برباد۔
لیپا پوتی ہی اصل پالیسی ہے، چوروں کے ساتھ آنکھ مچولی تو ہوگی لیکن چوروں کی ماؤں پر ہاتھ نہ ڈالے گا کہ ایسے دیرپا دوررس نتائج والے کام صرف وہ کرسکتے ہیں جن کی نظر آئندہ الیکشن نہیں آئندہ نسلوں پر ہوتی ہے۔ وہ گھسا پٹا لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ 6 فٹ اونچی چار دیواری میں زرافہ بند کردیا گیا لیکن زرافہ نکل گیا، چار دیواری 8 فٹ کی کردی گئی، زرافہ پھر نکل گیا، 8 سے بڑھا کر10 فٹ کردی گئی زرافہ پھر باہر۔ تب منتظمین کو کسی سیانے بزرگ نے سمجھایا کہ تم لوگ دیوار تو اٹھائے جارہے ہو لیکن دروازہ بند کرنا ہر روز بھول جاتے ہو“۔
یہی کچھ پاکستان میں ہورہا ہے۔ دروغ برگردن رپورٹر۔ میاں نواز نے زرداری صاحب سے پوچھا ”کرپشن کیسے ختم کی جاسکتی ہے؟ “ زرداری صاحب نے اپنا مخصوص قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ”جیسے ہم نے ختم کی تھی“ سو فیصد درست جواب ہے لیکن آسانی سے سمجھ میں آنیوالا نہیں۔ اس کیلئے تاریخ کا شعور چاہئے۔
کرپشن تب تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک اقتصادی انصاف سے لیکر عدالتی انصاف تک یقینی نہیں بنایا جاتا کہ صرف اسی کے نتیجہ میں ہی ”فرد“ اور ”ریاست“کا مفاد ایک ہوگا۔ بصورت دیگر ”ریاست“ عملاً اور جوہراً ”فرد“ کیلئے ولن سے زیادہ کچھ بھی نہ ہوگی۔ جہاں ”فرد“ اور ”ریاست“ کا مفاد ایک نہیں ہوتا وہاں صرف مفاد پرستی موقعہ پرستی اور مطلب پرستی میں سب کچھ ہوتی ہے۔ ”رول ماڈلز“ بھی وہی بنتے ہیں جو مندرجہ بالا ”صفات“ سے مالا مال ہوں۔
خود میاں برادران کے والد میاں شریف مرحوم کے جنازہ پر جتنے لوگ تھے، آج ان سے زیادہ روزانہ ان کے ملاقاتی ہوں گے اور یہ آج بھی پوچھ رہے ہیں کہ ”کرپشن کیسے ختم ہوگی“۔ معاشرہ کا کردار بدلنے کیلئے اوپر سے نیچے تک کا ”کلچر“ بدلنا ہوگا اور یہ کسی وزیراعظم یا سادہ سیاستدان کا نہیں کسی سٹیٹسمین کا کام ہے، مقبول لیڈر کا نہیں کسی مدبر کا کام ہے۔ سڑک سازی اور بم بازی سے نہیں کردار سازی سے کرپشن ختم ہوگی اور اس کے لیے خود مثال بننا ہوگا جو محال ہی نہیں، مہم جو سیاستدانوں کیلئے ناممکن ہے۔
محمد صادق اختر اپنی کتاب ”صبح صادق“ (1852) میں مسخ شدہ زوال پذیر معاشرہ کی نقشہ کشی کچھ یوں کرتے ہیں۔
اس زمانہ کے دوست و رفیق سب کے سب ریا کار، بے توفیق، وقت پڑنے پر دھوکہ دینے والے، بہانہ جو اور دروغ گو۔ سب دشمن جاں اور معاملات کو بگاڑنے والے سلاطین ہیں تو وہ تمام عدل و انصاف کے راستے سے بھٹکے ہوئے اور نخوت و غرور کی شراب سے بہکے ہوئے۔ عمال (گورنر وغیرہ) سب کے سب بدسرشت و برشت خو۔ پیش کار اور دفتر کے دیوان ہیں تو وہ سراپا شر، شب و روز رشوت ستانی کی فکر میں اور دروغ گوئی اور حق پوشی میں مسرور … قصہ مختصر کہ موالی (حاکم) سب کے سب ناقدر دان ہیں اور اہالی (رعایا) تمام کے تمام بداندیش۔ مقاصد فوت اور نامرادیاں درپیش۔
یہ ہے اک زوال پذیر معاشرہ کا 160 سال پرانا نقشہ جس کا موازنہ ”آج“ کے ساتھ کریں تو کارآمد ہوگا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ اور ہم ایک دن میں 6 جلسے تو کرسکتے ہیں لیکن 6 سال میں ایک کتاب نہیں پڑھ سکتے۔
کیوں قارئین!
کچھ آیا سمجھ شریف میں؟
تازہ ترین