• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈینیل پرل کیس پر نئی امریکی انتظامیہ کا سخت ردِعمل

ڈینیل پرل کیس کے مرکزی ملزم، شیخ عُمر سعید کی سپریم کورٹ کے حکم پر رہائی پر امریکی حکومت کی طرف سے جو ردّ ِعمل سامنے آیا، وہ اُن تمام لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، جو یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ جوبائیڈن انتظامیہ کی اسلام آباد سے متعلق خارجہ پالیسی کیسی ہوگی؟ ڈینیل پرل مقدمے کے فیصلے کے فوری بعد امریکا کے نئے سیکریٹری آف اسٹیٹ، انتھونی بلنکن نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کو فون کیا اور اُنھیں بتایا کہ امریکا، شیخ عُمر پر خود مقدمہ چلا کر مقتول کو انصاف دِلانے کے لیے تیار ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ، بلنکن نے رہائی کے فیصلے پر اپنی شدید تشویش چُھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور ڈپلومیسی کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہر قیمت پر اپنے نقطۂ نظر سے انصاف طلب کیا۔ غالباً معاملے کی سنگینی دیکھتے ہوئے ہی اٹارنی جنرل نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ اگر ملزم کی رہائی کا فیصلہ معطّل نہ ہوا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ مُلک کا اٹارنی جنرل کسی فیصلے پر ایسی استدعا کرے۔یہ تو وزیرِ خارجہ اور اٹارنی جنرل ہی بتاسکتے ہیں کہ سنگین نتائج سے اُن کی کیا مُراد ہے اور امریکی وزیرِ خارجہ نے آخر ایسی کیا بات کہی، جس پر حکومتِ پاکستان کو عدالت میں یہ بیان دینا پڑا۔ جوبائیڈن کی جیت کو پاکستان کے لیے ایک خوش گوار تبدیلی قرار دیا گیا تھا، غالباً یہ رائے رکھنے والے مغربی میڈیا سے متاثر ہوکر ٹرمپ پالیسیز کو مسلم دشمن سمجھتے تھے، مگر شاید اُن کے علم میں یہ بات نہیں کہ امریکا کی خارجہ پالیسیز پر حکومت کی تبدیلی کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ 

طالبان سے مذاکرات کے معاملے پر بھی نئے صدر نے یہی رویّہ اختیار کیا ہےکہ اگر طالبان تشدّد میں کمی لاتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ وہی پرانی فوجی پالیسی جاری رہے گی۔ایران کے معاملے میں بھی سخت شرائط برقرار ہیں کہ پہلے وہ ایٹمی معاہدے پر عمل کرکے دِکھائے، باقی باتیں پھر ہوں گی۔جب کہ ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی بھی برقرار ہے۔نئی امریکی انتظامیہ نے یروشلم (مقبوضہ بیتُ المقدِس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور عرب ممالک سے تعلقات کے معاملات بھی نہیں چھیڑے۔

اٹارنی جنرل، خالد جاوید نے اپنی استدعا میں یہ بھی کہا کہ یہ کوئی عام ملزم نہیں، بلکہ دہشت گردوں کا ماسٹر مائنڈ اور عوام کے لیے خطرہ ہے۔تاہم، سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ عُمر شیخ کو جیل کے ڈیتھ سیل سے بیرک اور پھر سرکاری ریسٹ ہاؤس منتقل کیا جائے، جہاں اُنہیں اپنے اہلِ خانہ سے صبح نو سے شام پانچ بجے تک ساتھ رہنے دیا جائے۔البتہ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولت نہ دی جائے۔عدالت نے وفاقی حکومت سے بھی کہا کہ وہ ملزم کے دہشت گردوں سے رابطے کا ثبوت دے۔ امریکا کے دونوں پارلیمانی ایوانوں کی ڈینیل پرل کیس پر قرار دادیں موجود ہیں، جن میں کیس کو انجام تک پہنچانے پر زور دیا گیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا اِس معاملے میں کس قدر دل چسپی رکھتا ہے۔

یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ جوبائیڈن حکومت اِس معاملے پر کہاں تک جاسکتی ہے، لیکن اس کا ابتدائی ردّ ِ عمل، جو خاصا سخت تھا، سامنے آ چُکا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اِس قسم کے حسّاس خارجہ امور کو بلاوجہ طول دینے کی عادت مُلک کی خارجہ پالیسی کے لیے بعد میں بڑا چیلنج بن جاتی ہے، جسے سلجھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں عوام کو خواہ مخواہ شامل کرکے جذباتی رنگ دیا گیا، جس سے پاک، امریکا تعلقات کو سخت دھچکا لگا۔

اُسامہ بن لادن، جن سے پاکستان کا کچھ لینا دینا نہیں تھا، وہ بھی مُلک کے لیے ایک مسئلہ بن گئے تھے۔دنیا اُنھیں ایک عالمی دہشت گرد قرار دے رہی تھی، جب کہ ہمارے ہاں معاملات جذباتی سطح پر ڈیل کیے جارہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنا امیج درست کرنے میں کئی برس لگ گئے۔طالبان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ معاملات فوری حل نہ کرنے کا خمیازہ ہزاروں لاشوں کی صُورت بھگتنا پڑا۔بلاشبہ، پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر بے مثال قربانیاں ہیں، لیکن اُن کا اعتراف عالمی سطح پر بھی نظر آنا چاہیے۔

نئی امریکی انتظامیہ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق اپنے خصوصی نمائندے، زلمے خلیل زاد کو عُہدے پر برقرار رکھا ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ امریکا، طالبان سے معاہدے کو فوری طور پر تبدیل نہیں کرے گا۔وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے امریکی ہم منصب سے ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد میڈیا کو بتایا کہ پاکستان نے اِس بات کا اعادہ کیا ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، صرف مذاکرات ہی سے کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔اِس حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ امریکا،پاکستان کی اُن کوششوں کو سراہتا ہے، جو وہ دہشت گردی کی خاتمے کے لیے کرتا رہا ہے، خاص طور پر وہ جانی اور مالی قربانیاں، جو اُس نے دیں۔لیکن طالبان سے مذاکرات پر کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی۔ ماہرین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ پھر وہی پرانی ڈو مور کی پالیسی کے اشارے دے رہی ہے۔

افغانستان میں تشدّد میں اضافہ ہوا ہے،جب کہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے بم باری بڑھ گئی۔ یہ باتیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ امریکی فوج کی واپسی کے بعد بھی کچھ فوجی کابل میں موجود رہیں گے تاکہ خانہ جنگی سے بچا جا سکے۔یاد رہے، اوباما دَور میں امریکا نے ڈرون حملوں کے ذریعے طالبان سے جنگ کی اور اپنا جانی نقصان کم سے کم رکھا۔اُدھر ملّا برادر کی سربراہی میں طالبان کے ایک وفد نے ایران کے صدر اور اعلیٰ حکّام سے ملاقاتیں کی ہیں۔لہٰذا ،اِن حالات میں اسلام آباد کو بہت دیکھ بھال کر قدم اُٹھانے ہوں گے۔ امریکی خارجہ پالیسی کا اصل رُوپ اُسی وقت سامنے آئے گا، جب نئی انتظامیہ کورونا پر قابو پا لے گی۔امریکی کسی بیرونی مسئلے کو اندرونی عوامی معاملے پر ترجیح نہیں دیتے۔ ایسا نہیں کہ اپنے گھر میں اندھیرا ہو اور دنیا بھر کے چراغ روشن کرنے کی فکر پڑی ہو۔

کچھ لوگ سڑک پر ناچ رہے ہیں، جنھیں معروف ڈانس ڈائریکٹر پورے انہماک سے ہدایات دے رہی تھیں۔سب کچھ نارمل تھا، صرف عجیب یہ تھا کہ پس منظر میں فوجی ٹینک حرکت کرتے نظر آ رہے تھے۔یہ ویڈیو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، لیکن جس طرح ڈانس حقیقی تھا، اُسی طرح فوجی ٹینکوں پر سوار فوجی بھی حقیقی تھے۔یہ میانمار کی فوج کا وہ دستہ تھا، جس نے حکومت کے خلاف بغاوت میں حصّہ لیا۔فوج نے حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور مُلک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔آنگ سان سوچی سمیت اہم حکومتی رہنما حراست میں لے لیے گئے۔یہ وہی کہانی ہے، جو کسی بھی مُلک میں مارشل لاء لگانے کے ساتھ ہی سامنے آتی ہے۔اِس فوجی بغاوت کی وجہ یہ بتائی گئی کہ سوچی کی پارٹی نے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے اکثریت حاصل کی۔

میانمار(برما) میں فوج کا حکومت میں آنا کوئی نئی بات نہیں۔وہاں 2011 ء تک مسلسل 50 برس تک فوج ہی کی حکم رانی رہی ہے۔ اسی فوجی حکم رانی میں روہنگیا مسلم اقلیت کو بدترین ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا۔ اُنہیں بار بار بُدھ اکثریتی آبادی کی طرف سے تشدّد کا سامنا رہا۔ سرِ عام قتل کیا گیا اوراُن کی املاک لوٹنا معمول کی بات رہی۔پوری دنیا نے اِس ظلم کی مذمّت کی۔سلامتی کاؤنسل کے اجلاس پر اجلاس ہوتے رہے، شدید بین الاقوامی دبائو اور مسلم دنیا کی طرف سے مذمّت کے بعد معاملات کچھ بہتر ہوئے۔

تختہ الٹنے والے من آنگ ہلینگ میانمار کے طاقت وَر فوجی سربراہ ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا، بلکہ حکومت کا تختہ اُلٹنے سے پہلے بھی وہ گزشتہ ایک عشرے سے اپنے عُہدے کی بدولت مُلک میں خاصا سیاسی اثرو رسوخ رکھتے تھے۔دس سال کے جمہوری دَور کے بعد میانمار پھر مارشل لاء کی طرف چلا گیا۔دنیا بھر نے اِس اقدام کی مذمّت کی اور فوجی حکومت کو ناقابلِ قبول قرار دیا۔

تاہم، آرمی چیف نے کہا کہ اقتدار پر قبضہ ناگزیر ہوگیا تھا۔ میانمار کے آئین کے مطابق پارلیمان میں 25 فی صد فوج کی نشستیں ہیں، جن پر حاضر سروس فوجی تعیّنات کیے جاتے ہیں۔فوجی سربراہ نے آنگ سوچی کی طرف سے آئین میں فوجی اختیارات کم کرنے کی تجاویز کو سختی سے روکا،مگر وہ یہی تاثر دیتے رہے کہ حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ 2017ء اور2018ء میں میانمار کی ریاست، ریخائن میں روہنگیا مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا، تو بین الاقوامی سطح پر اس کی مذمّت کی گئی۔اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کاؤنسل نے کہا کہ فوج کے اعلیٰ افسران، خاص طور پر فوج کے سربراہ، من آنگ ہلینگ کے خلاف اِس قتلِ عام کی تحقیقات کروائی جائیں۔نیز، اُن پر انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جائیں۔امریکا اور برطانیہ نے اُن پر پابندیاں عاید کیں۔

البتہ دُکھ اِس بات کا ہے کہ آنگ سوچی نے گزشتہ سال اپنی ایک تقریر میں فوج کی مسلم کُش کارروائی کی حمایت کی،لیکن یہ حمایت بھی کام نہیں آئی اور اُنہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔امریکا نے مارشل لاء کے نفاذ پر کہا کہ’’ واشنگٹن، میانمار میں انتخابی نتائج بدلنے کی کوشش کی مذمّت کرتا ہے۔فوج کو اس طرح کے فیصلے فوراً واپس لینے ہوں گے۔‘‘آسٹریلیا نے کہا کہ’’ فوج، قانون کی بالادستی کا احترام کرے۔‘‘چین نے فریقین پر زور دیا کہ وہ پُرامن طور پر معاملات حل کریں۔ آنگ سان سوچی میانمار کی آزادی کے ہیرو، جنرل آنگ سان کی بیٹی ہیں، جنھیں 1948 ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے سے کچھ دن قبل قتل کر دیا گیا تھا، جب سوچی صرف دوسال کی تھیں۔وہ 1989 ء سے 2010 ء تک تقریباً پندرہ سال نظر بندی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں، کیوں کہ وہ فوجی حکومت کو چیلنج کرتی رہی تھیں۔

اُنہیں انسانی حقوق کی روشن مثال کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور اِسی لیے اُنہیں امن کا نوبیل پرائز بھی دیا گیا۔2015ء میں جب اُن کی جماعت کو پہلی بار الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی، تو وہ بھاری اکثریت سے کام یاب ہوئیں۔تاہم، سوچی کے بچّے بیرونِ ممالک مقیم تھے، اس لیے آئینی طور پر وہ مُلک کی صدر نہیں بن سکتی تھیں، لیکن اس کے باوجود مُلک کی حقیقی حکم ران وہی تھیں۔سوچی بُدھ مت کے ماننے والوں میں بہت مقبول ہیں، جو روہنگیا مسلمانوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اِسی لیے وہ گزشتہ سال بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں فوج کے اقدامات کا دفاع کرنے پر آمادہ ہوئیں۔تاہم، اِس سے اُن کے انسانی حقوق کے داعی کے امیج کو نقصان پہنچا۔شاید سچ کا ساتھ دینا سیاست اور خاص طور پر میانمار جیسی تاریخ رکھنے والے مُلک میں بہت مشکل ہے ۔

پاکستانیوں کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ مُلک میں کورونا ویکسین لگانے کا سلسلہ شروع ہو چُکا ہے اور اس کے لیے چین نے پانچ لاکھ خوراکیں(ڈوزز) بطور تحفہ دی ہیں۔یاد رہے، پاکستان کی ریگیولیٹری باڈی، ڈریپ نے تین ویکسینز کی منظوری دی ہے اور چینی ویکسین’’ سائنو فارم‘‘ ویکسین لگانے سے قبل طبّی عملے کو ویکسین لگانے کی باقاعدہ تربیت دی گئی۔دنیا بھر کی طرح یہاں بھی پہلے فرنٹ لائن ورکرز یعنی طبّی عملے کو ویکسین لگائی جارہی ہے، خصوصاً اُن افراد کو جو کورونا وارڈز وغیرہ میں کام کر رہے ہیں۔ 

حکومت کا کہنا ہے کہ مزید لاکھوں خوارکیں اگلے ماہ تک پہنچنا شروع ہو جائیں گی۔حکومت کی طرف سے تو ویکسین مفت لگائی جارہی ہے، تاہم نجی کمپنیز کو بھی ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے، جو ایک اچھی بات تو ہے، لیکن قیمتوں پر کنٹرول حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

تازہ ترین