• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں محمدنوازشریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم پاکستان کا منصب جلیلہ سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔یہ ایسا اعزاز ہے،جو محترمہ بے نظیر بھٹوشہید کو بھی نصیب نہیں ہوا حالانکہ انہوں نے جمہوریت کیلئے بڑے مصائب جھیلے، قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور بالآخر اپنی زندگی بھی قربان کردی۔ پاکستان کی تاریخ میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کا اعزاز محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی نصیب نہیں ہوا۔ میاں نواز کو یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ان کی خوش نصیبی اور جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی بدنصیبی کاسوال لوگوں کے ذہنوں میں مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان کی خوش نصیبی پاکستان اور عوام کی خوش نصیبی بھی ثابت ہو۔
بھٹو خاندان کو تین بار وزارت عظمیٰ ملی۔ ایک بار ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے اور دو بار ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہیں لیکن اس کی انہیں بہت بڑی قیمت چکانا پڑی۔ بھٹو اپنے تین بچوں کے ساتھ گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں میاں نواز شریف یا ان کے خاندان کو جو قربانی دینا پڑی، وہ بھٹو خاندان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔کچھ دنوں کی جیل اور بعد ازاں سعودی عرب کے شاہی خاندان کے خصوصی مہمان کی حیثیت سے جلا وطنی، بس انہیں”مشکلات“ کے عوض انہیں تیسری بار وزارت عظمیٰ ملی ہے۔ یہ خوش نصیبی نہیں تو اور کیا ہے۔ ضیاء الحق کے مارشل لا میں بھی میاں محمد نواز شریف اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ 1988ء میں ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد 1999ء تک گیارہ سال کی غیر آمرانہ مدت میں میاں نوازشریف وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہے اور دو دفعہ وزیر اعظم بھی بنے۔ انہیں پیپلز پارٹی کی متبادل سیاسی قیادت کے طور پر پیش کیا گیا۔ 1988ء میں جمہوریت طویل اور کٹھن جدوجہد کے بعد بحال ہوئی تھی، جس میں میاں محمد نواز شریف کا کوئی حصہ نہیں تھا لیکن گیارہ سال کے جمہوری عرصے میں سب سے زیادہ اقتدار کے مزے انہوں نے لئے۔ بارہ اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویزمشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور انہیں وزیر اعظم ہاوٴس سے گرفتار کرلیا۔ پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جمہوری قوتوں نے پھر ایک طویل جدوجہد کی لیکن میاں محمد نواز شریف اس دور میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت نہ کر سکے اور پرویز مشرف کو معافی نامہ لکھ کر اس ملک سے چلے گئے اور سعودی عرب میں محلات میں زندگی گزاری۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کی آمریت سے ملک کو نجات دلانے کیلئے سیاسی اور سفارتی محاذ پر رات دن لڑائی کی اور میاں محمد نواز شریف کے دور میں اپنے خلاف بنائے گئے جھوٹے مقدمات کی وجہ سے وطن واپس آکر عوام کے ساتھ لڑائی میں براہ راست شامل نہ ہو سکیں۔ ان مقدمات کے باعث انہیں پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کے تحت معاہدہ کرنا پڑا تاکہ وہ خود پاکستان آکر سیاسی جدوجہد کو مزید تیز کرسکیں اور فوجی آمر کو عوامی مینڈیٹ چرانے سے روک سکیں۔ اس کوشش میں ان کی جان چلی گئی۔ اتنے بڑے سانحہ کے بعد پاکستان کی اصل ہئیت مقتدرہ نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو پانچ سال برداشت کیا اور ان پانچ سالوں میں ایسا ماحول بنایا جاتا رہا، جو اب محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے لئے جیسے یہ ماحول بنایا گیا ہو۔ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ فوجی آمر پرویز مشرف کے شکنجے سے جمہوریت کو چھڑانے کیلئے قربانیاں کسی اور نے دیں اور پہلے گیارہ سالہ جمہوری دور کی طرح اس مرتبہ بھی سب سے زیادہ فائدے میں میاں نواز شریف رہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام کو بھی کوئی فائدہ ہوتا ہے یا نہیں۔
1997ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی قدآور شخصیت اپوزیشن لیڈر تھیں جبکہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعت کو شاید اپوزیشن کا کردار بھی نہ دیا جائے۔ اب حکومت میں میاں صاحب خود ہوں گے اور ان کی اپوزیشن میں عمران خان ہوں گے، جو میاں نواز شریف کی طرح آمرانہ قوتوں کے خلاف نہیں بلکہ حقیقی سیاسی جمہوری قوتوں کو گالی دیکر لیڈر بنے ہیں۔ اس طرح حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ڈانڈے ایک جگہ جاکر ملتے ہیں لہٰذا میاں نواز شریف کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ عمران خان کراچی میں اپنی ایک خاتون کارکن کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کرا سکے، وہ میاں نواز شریف کی اپوزیشن کیا کریں گے۔ میاں نواز شریف سے زیادہ اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان میں اصل حکمرانی کن قوتوں کی ہے۔ میاں صاحب اس راز سے بھی واقف ہیں کہ کسی الیکشن میں مسلم لیگ (ن )کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور کسی الیکشن میں وہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ بھاری مینڈیٹ کے باوجود منتخب وزیر اعظم کو وزیر اعظم ہاوٴس سے گرفتار کیا جاسکتا ہے اور وہ دوبارہ وزیر اعظم بن کر اس شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے، جس نے انہیں وزیر اعظم ہاوٴس سے گرفتار کیا اور ملک کے آئین کو توڑا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ توقع کی جارہی ہے کہ میاں محمد نواز شریف اس آئین کا حلیہ نہیں بگاڑیں گے، جس سے پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے 1973ء کی اصل شکل میں بحال کیا ۔وہ دوبارہ امیر المومنین بننے کی کوشش بھی نہیں کریں گے اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ جمہوریت بھی بچی رہے اور ان کی اپنی سیاسی پارٹی بھی پہلے کی طرح وجود نہ کھو بیٹھے۔
میاں محمد نوازشریف کا یہ تجزیہ درست ہے کہ پاکستان مالی بحران کا شکار ہے اور بقول ان کے خزانہ خالی ہے۔ اپنے گزشتہ دور حکومت میں انہوں نے ملک کا خزانہ بھرنے کیلئے کئی اسکیموں پر عمل کیا تھا۔ ایک اسکیم یہ تھی کہ انہوں نے ڈالر اکاوٴنٹس منجمدکردیئے تھے تاکہ ملک سے سرمایہ باہر نہ جاسکے۔ اس اسکیم کا الٹا اثر ہوا اور ڈالر پاکستان میں آنا بند ہوگئے۔ اس طرح پاکستان میں سرمائے کا بہاوٴ رک گیا۔ ان کی دوسری اسکیم” قرض اتارو، ملک سنوارو“ کے حوالے سے تھی۔ ملک کو قرضے سے نجات دلانے کے لئے لوگوں نے اپنی بچیوں کے زیور تک دے دیئے لیکن قرض نہیں اترا۔ اب میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر بیٹھنے کے بعد سب سے پہلے یہ اعلان کریں کہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کا بیرون ملک موجود سرمایہ پاکستان لے آئیں گے اور اس میں سے کچھ رقم ملک کا قرضہ اتارنے کیلئے بھی دیں گے۔ پیرپگارا ہفتم شاہ مردان شاہ مرحوم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ جس ملک کا وزیر اعظم اپنا سرمایہ انڈیا میں لگاتا ہے اس ملک کے بارے میں کیا یقین سے کہا جاسکتا ہے۔ پیرپگارا مرحوم کاواضح اشارہ میاں نواز شریف کی طرف تھا۔ اب میاں صاحب کو چاہئے کہ وہ ایسی بات کرنے کا کسی کوموقع نہ دیں۔ اگر وہ اپنا سرمایہ پاکستان لے آتے ہیں تو ان کی تقلید میں باقی لوگ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے اور پاکستان سے بے یقینی کا خاتمہ ہوگا۔ جس ملک میں میاں نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنایا گیا ہے، انہیں اس ملک پر یقین کرناہوگا کہ یہاں ان کا سرمایہ محفوظ ہے۔ ان کے اس یقین کے بعد لوگوں کی بے یقینی ختم ہوگی اور مسائل کے حل کیلئے ساز گار ماحول پیدا ہوگا۔ ورنہ میاں صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ عمران خان ان کی اپوزیشن میں ہوں گے۔ میاں صاحب ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکومتوں کو کرپٹ کہنے کے سیاسی کام پر مامور تھے۔ اب عمران خان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی قوتوں کو کرپٹ کہنے کا کام کررہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کہتی تھیں کہ حقیقی سیاسی قوتوں کو بدنام کرکے غیرجمہوری قوتیں اپنے سیاسی چہرے لانا چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان میاں نواز شریف سے اگلی منزل پر ہیں لہٰذا سب سے پہلے میاں نواز شریف اپنا تمام سرمایہ پاکستان لے آئیں۔
تازہ ترین