• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

براڈشیٹ، ریکوڈک، کارکے، پنامے اور سیاست دانوں، بیورو کریٹس، پارلیمنٹیرینز کے اربوں روپے کے ماہانے بچانے کے لئے جب وکالت نامے پر مزید اربوں روپے کے فطرانے وصول کرنے کے بعد دل مانگے ہور اور بات اسلام آباد کے پارک کو گروی رکھنے تک پہنچ جائے اورفیصلہ یہ آئے کہ اسلام آباد ایکسپریس وے کو متبادل کے طور پر گروی رکھ دیا جائے اب تو یقین کرلیں کہ وارداتیے ہی واردات کے بعد چور مچائے یہ شور ہائے وے لوکو میں لٹی گئی اور پھر خود ہی پورے محلے کے ساتھ چور کی تلاش کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دیں کہ قصہ کچھ یوں ہے کہ کسی زمیندار کی بھینس نے دودھ دینا بند کر دیا۔ زمیندار بڑا پریشان ہوا اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا، ڈاکٹر نے ٹیکے لگائے، کوئی فرق نہ پڑا، تھک ہار کر وہ بھینس کو پیر کے پاس لے گیا، شاہ جی نے دھونی رمائی دم کیا، پھونک ماری لیکن وہ بھی بے سود رہی بھینس کوکوئی فرق نہ پڑا۔ اسے کسی سیانے کے پاس لے گیا، سیانے نے دیسی ٹوٹکے وٹکے لگائے لیکن وہ بھی بیکار ثابت ہوئے۔ آخر زمیندار نے سوچا کہ شاید کھانے کی مقدار بڑھانے سے مسئلہ ٹھیک ہو جائے! خوب کھل بنولہ کھلایا، کسی چیز کی کسر نہ چھوڑی لیکن بھینس نے دودھ دینا شروع نہ کیا، لاچار ہو کر وہ اسے قصاب کے پاس لے کر جانے لگا کہ یہ اب کسی کام کی نہیں تو ذبح ہی کروالوں، راستے میں اسے ایک سائیں ملا، سائیں بولا پریشان کیوں ہو، زمیندار نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا، سائیں نے کہا تم کٹا کہاں باندھتے ہو؟ زمیندار بولا بھینس کی کُھرلی کے پاس، سائیں نے پوچھا کٹے کی رسی کتنی لمبی ہے؟ زمیندار بولا کافی لمبی ہے۔ سائیں نے قہقہہ لگایا اور بولا سارا دودھ تو کٹا چُنگ جاتا ہے تمہیں کیا ملے گا؟کٹے کو بھینس سے دور باندھو۔دوستو پریشان نہ ہوں۔ یہ رام لیلا کوئی نئی نہیں۔ تین نسلوں کا بوجھ ہے جو ہم عذاب کی شکل میں اپنے کندھوں پر اٹھائے پھررہے ہیں۔ یہ کسی اور نے نہیں ہم ہی نے یا ہماری آئندہ نسلوں نے بھگتنا ہے۔ یہ نئے پرانے پاکستان کے ٹھیکیدار اندر سے سب ملے ہوئے ہیں۔ جب آپ ان کی جنم کنڈلیاں پھرولیں گے تو ان کے باپ دادا سب انگریزوں کے اصطبل میں چارہ ڈالنے والے سائس ہی نکلیں گے۔ جب گھوڑوں کے اصطبل کی بات چل نکلی ہے تو پھر سینیٹ الیکشن کی صورت انگریزوں کے نسلی گھوڑوں کی بات کیوں نہ کی جائے جن کی ایک بار پھر مانگ بڑھنے لگی ہے۔ مارکیٹ میں پیپلز پارٹی، ن لیگ کے نسلی گھوڑوں کے بھاؤ تاؤ آسمان کو چھو رہے ہیں تو دوغلی نسل کے گھوڑے بھی اپنی قیمت کے منتظر نظر آرہے ہیں اورہمارے خان اعظم کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ ان گھوڑوں کے ریٹ آسمان کو چھونے لگے ہیں اور کہیں اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے شوقین آصف زرداری سب پر بھاری نہ ہو جائیں لیکن ایک سنجیدہ سوال یہ بھی ہے کہ پہلا ریٹ کس نے کھولا؟ جب ہمارے خان اعظم اڑھائی سالہ دور اقتدار میں شفافیت کے نام پر تمام اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز روکے رکھیں، خود کچھ کریں نہ کسی کو کرنے دیں اور آپ سرکار سینیٹ انتخابات سے صرف ڈیڑھ ماہ قبل ان اراکین اسمبلی سے ملاقاتوں کے دوران پچاس پچاس کروڑ فی کس فوری جاری کرنے کی بولیاں بھی لگانے لگیں، دوسری طرف اپوزیشن کی گھوڑوں کی خریدوفروخت روکنے کے نام پر قانونی چارہ جوئی بھی کریںتو اس فکر مندی کو کیا نام دیں گے کہ جب اڑھائی سال کے دوران آپ پنجاب میں اپنے سب سے بڑے اتحادی کو اقتدار میں آنے سے قبل سب سے بڑا ڈاکو بھی قرار دیں اور برسراقتدارآکر انہیں نیب کے چکر بھی لگوائیں، تمام یقین دہانیوں کے باوجود عرصہ تک ان کی کوئی خیر خبر بھی نہ لیں جب سر پر آن پڑے تو آپ ان کے گھر بھی تشریف لے جائیں انہیں اپنا بھائی بھی قرار دیں اس ملاقات کے چند ہی روز بعد بڑے ڈاکوبھائی کو نیب کیسوں سے کلین چٹ بھی مل جائے تو خان اعظم یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ میں کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب خزانہ خالی پڑا ہو امور مملکت کے اخراجات روزانہ کی بنیاد پر قومی جائیدادیں گروی رکھ کر چلائے جارہے ہوں تو پھر یہ گھوڑوں کی خریداری کس مد میں کی جائے گی، اطلاعات تو یہی ہیں کہ پنجاب میں حکومتی و اتحادی ارکان کو چند دنوں میں ترقیاتی کاموں کی مد میں دس ارب روپے تقسیم کئے جاچکے ہیں اور مزید پانچ ارب جلد جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اپوزیشن ارکان کے لئے پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر کھلی آفر موجود ہے جبکہ خزانے کی صورت حال یہ ہے کہ 37 تھانوں کی زیر تعمیر نئی عمارتوں پر ٹھیکیدار نے فنڈز نہ ہونے پر کام بند کر دیا ہے۔ محکمہ خزانہ پنجاب نے پی ڈی ایم تحریک کے دباؤ میں بزدار حکومت کے اعلان کردہ لاہور منصوبوں میں ایل ڈی اے کو ریلوے اسٹیشن، کریم بلاک، شاہکام چوک فلائی اوورز اور گلاب دیوی انڈر پاس کی تعمیر کے لئے نو ارب روپے دینے سے انکار کر کے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک اورنج لائن ٹرین کے لئے لیا گیا دس ارب کا قرضہ واپس نہیں کیا جاتا رقم جاری نہیں ہوسکتی کیونکہ خزانہ خالی ہے جب آڈیٹر جنرل پنجاب مالی سال 2019-20 میں تحریک انصاف کے ایک سالہ دور میں 75 ارب کی مالی بے ضابطگیوں کی نشان دہی کریں توسوال در سوال یہ بھی ہے کہ گھوڑوں کی خریداری کے لئے ادائیگیوں کی رقم کہاں سے آئے گی؟ سیانے کہتے ہیں اچھے وقت میں بُرے وقت کا سامان کرلینا چاہئے۔

تازہ ترین