• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نئی حکومت بننے کو ہے ۔ قسمت کے دھنی میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے ہیں ۔ ماشاء اللہ ، ان کے چہرے کی چمک دمک ، مسکراہٹیں اور اعتماد بتا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے مشکل دور میں بھی جو خواب سجائے تھے وہ شرمندہ تعبیر ہوئے ۔ ملک اور دنیا سے مبارک سلامت بھی خوب ہوئی اور ہو رہی ہے ۔ وہ جتنے خو ش و خرم ہیں ، اللہ انہیں اتنا ہی خوش رکھے ،لیکن یہ مشروط ہے ۔ اس بھر پور مسرت و اطمینان کو بر قرار رکھنا ایک بڑا اور پیچیدہ چیلنج ہے۔ عوام کی باجواز توقعات کا ایک سمندر ہے جس کی لہریں بہت زور دار ہیں۔ دوسرے صوبوں کے مقابل پنجاب کی گزری شہباز حکومت کی بہتر کار کر دگی اور کچھ انتخابی مہم میں میاں صاحب کے گڈ گورننس کے دعووں نے عوامی توقعات کا گراف بہت بڑھا دیا ہے ۔ آنے والے وقت میں میاں صاحب کی مسکراہٹیں تب ہی بکھرتی رہیں گی جبکہ ان کی گورننس جدید زمانے کے تقاضوں اور عوامی توقعات کے درجے سے میچ کرے گی۔ یہ بھی نہ سمجھیں کہ عوامی توقعات غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ بڑے ہوشیار ہو گئے ہیں لو گ۔ اپوزیشن بلاجواز بھڑ کا سکے گی نہ میڈیا ۔ لیکن یہ بھی ہر گز نہ سمجھا جائے کہ سابقہ حکومت کی طرح ہر حالت میں حکومت کو مدت پوری کروائی جائے گی ۔ اس کی اور وجوہات تھیں وہ اب نہیں ہیں (اللہ نہ کرے نوبت آئے اس پر جب بات ہو گی کہ اگر آپ نے عوام کو نظر انداز کر کے حکومتی مدت پوری کر نے کی غلط توقع کی) میاں نواز شریف کی تیسری وزارت عظمیٰ اس پس منظر کے ساتھ تشکیل پا رہی ہے کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں متفقہ طور پر منتخب کیا گیا وزیر اعظم، قومی مفاد کے مقابلے میں اپنے قائدین کی قبروں اور نام کے تحفظ کے لیے لڑتا لڑتا خود ہی تخت سے لڑھک گیا، جب عدالت نے اسے عدالتی احکامات نہ ماننے پر پانچ سال کے لیے عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیا اور”تا برخواست عدالت “ کی سزا بھی ۔اسی عدلیہ نے دوسرے وزیر اعظم کو وزیر بجلی کے طور کرپشن کے الزامات کی تفتیش کے حوالے سے ، ٹھوس شواہد سامنے آنے پر گرفتاری کا حکم دیا اور اب ان کا نام ای سی ایل پر ہے ۔ اگر اب بھی گڈ گورننس کے لیے نئے وزیر اعظم کی نیک نیتی، انتخابی دعووں ، گزرے دور میں شہباز صاحب کی سب سے بہتر گورننس اور عوامی توقعات کے دباؤ کے بعد بھی آنے والی حکومت کو گڈ گورننس کی اہمیت سمجھنے میں کوئی مشکل ہے ،پھر میڈیا کی گورننس کو مانیٹر کر نے کی طاقت اور جوڈیشل ایکٹوازم کے علاوہ گیلانی ۔
راجہ حکومت کی بیڈ گورننس کے نتائج کی ذہن نشینی نئی حکومت کو عوامی توقعات کے مطابق گڈ گورننس کا مطلوبہ معیار قائم کر نے میں معاون ہو گی ۔ جیسا کہ آج ہی امریکی ، جرمن سفیروں اور بھارتی ہائی کمشنر سے میاں نواز شریف کی گفتگو کے حوالے سے ان کا جو بیان شہ سرخیاں بنا ہے کہ”ڈرون حملوں پر تحفظات ہیں ۔ وقت آگیا ہے امریکہ ہماری خود مختاری کا احترام کرے ۔ نہ صرف ہماری سا لمیت کا احترام کرے بلکہ پاکستان کو ہونے والے کھربوں کے نقصان کا ازالہ بھی“۔ میاں صاحب کا یہ بیان پہلے ہی قومی موقف بن چکا ہے ، جب قومی اسمبلی کی متفقہ قرار داد منظور ہوئی ، جسے ووٹ بنک کے اعتبار سے ملک کی نئی عوامی قوت تحریک انصا ف پچھلے دور میں پارلیمان سے باہر شدت سے اختیار کیے ہوئے تھی ۔ یہ عمران خان کی انتخابی مہم کے ابلاغ میں مرکزی نقطہ رہا ۔ اس اعتبار سے نئے حالات میں بھی میاں نوا ز شریف کا دیا گیا متذکرہ بیان ، برقرار ہی نہیں مزید اور نیا مینڈیٹ حاصل کرکے ایک بار پھر بھر پور قومی موقف بن گیا ۔ ا س حوالے سے اہداف حاصل کر نے کے لیے پوری قومی نئے وزیر اعظم کا ساتھ دے گی ۔ میاں نواز شریف کے قومی مو قف پر مبنی اس بیان سے عوام کی یہ توقع پیدا ہونا بھی فطری امر ہے کہ میاں نواز شریف کا یہ بیان پچھلے اور اس سے بھی پچھلے حکمرانوں کے ان” پبلک بیانات“ کی عیاری سے قطعی پاک صاف ہو گا ، جس میں ہمارے حکمران عوامی دباؤ سے بچنے یا عوام کو فقط مطمئن رکھنے کے لیے بیرونی طاقتوں سے اجازت لے کر اپنے ہی عوام سے ”ڈپلومیسی“کے مرتکب ہو تے تھے۔ تازہ ترین مثال امریکی میڈیا اور ویب رپورٹس سے بے نقاب ہونے والی وہ ”ڈپلومیسی“ہے جس میں سابق وزیر اعظم یو سف رضا گیلانی امریکیوں کو اعتماد میں لے کر یہ بیان دیتے رہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں ، دوسری جانب وہ امریکیوں کو کہتے رہے Go Ahead ۔ آج کے دور میں یہ بدترین انداز حکمرانی ہے ، جس کی چالاکیاں پکڑ ے دیر نہیں لگتی اور بے نقاب ہو نے پر حکمرانوں کے لیے تباہ کن ہوتی ہیں۔ ان کے اچھے کا م بھی دب کر رہ جاتے ہیں ۔ توقع ہے کہ ہماری نو منتخب حکومت عوا م کے ساتھ اس روایتی مکاری کی ہر گز مرتکب نہ ہو گی ۔ محتاط اندازہ ہے کہ قومی امور پر نظر رکھنے والے اہل نظر ، اپوزیشن او ر میڈیا گڈگورننس کے جن اہم ترین پہلوؤں پر نظر رکھیں گے وہ یہ ہونگے ۔
1۔ ملکی ریاستی نظام میں آئین کی مکمل اور حقیقی بالادستی2۔ قانون سازی کے عمل کا نیامعیار یا روایتی انداز کا تسلسل؟ 3۔میڈیا اور عدلیہ سے حکومت کے حساس تعلقات کی نوعیت کیاہے؟ 4۔حکومت اپنے منشور پر کتنی کار بند ہے ؟
5۔اوپر کی سطح پر کرپشن کا انسدا د یا موجودگی؟
6۔بحالی معیشت کے عمل (خصوصاً ٹیکس کولیکشن اور اس کا نیٹ بڑھانے ) میں ڈاکیومینٹیڈ اکانومی کا جدید طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے یا بدستور اجتناب؟
7۔قانون کا اطلاق معاشرے کے تمام طبقات پر یکسا ں ہو رہاہے ، یا عوام اور مراعات یافتہ طبقے پر اطلاق کی صورت مختلف ہے ؟ 8۔حکومت گورننس کے معاملات کو سٹریم لائن کر نے اورانتظامی اختیارات کے غلط استعمال کا انسداداورقاعدے قانون کی پابندی۔
9۔بہت اہم یہ کہ گڈ گورننس میں جدید ٹیکنالوجی (خصوصاً آئی ٹی ) کا کتنا استعمال ہو رہاہے اور حکومت ای گورننس کا کوئی ماڈل ڈویلپ کر نے کا قابل ہے یا نہیں؟
10۔حکومت بین الاقوامی برادری کے ترجیحی ایجنڈے ( ہر فرد کا ) Right to Knowکو اپنے ملک میں کس حد تک تسلیم کر رہی ہے ؟
11۔حکومت کا صوبوں سے تعلقات کے حوالے سے وفاقی کردار۔12۔حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات میں حکومتی رویہ۔
ان بارہ حوالوں سے گڈ گورننس کو وقت اور عوامی ضرورتوں کے مطابق معیار پر پہنچانے کی ضرورت میں کوئی بھی تو رکاوٹ نہیں ، بلکہ ملک کی سنگین حالت کو کم کرتے ہوئے اسے ختم کر کے ، مکمل امن کے قیام ، معیشت کی بحالی اور سیاسی و سماجی استحکام کا راستہ ہی یہ ہے ۔ ملک میں میسر ٹیکنالوجی ، تجربہ ، مہارت اور جدید علوم کاعملی زندگی میں اطلاق اس کا بہترین راستہ ہے ۔ متذکرہ نشاندہی کیے گئے شعبوں میں حکومت کی کارکردگی جتنی بہتر ہوتی جائے گی ، ملک ، حکومت اور خود حکمرانوں کے لیے بھی صورت حاصل اتنی ہی بہتر ہو جائے گی لیکن عوام کو نظر انداز کر کے روایتی انداز میں حکومت چلانا محال ہو گا ۔ ان پر عملدرآمد سے ہی میاں صاحب اپنے خوش و خرم چہرے کی مسکراہٹیں برقرار رکھ سکتے ہیں اور ان سے صرف نظر کر کے فکر اور ماتھے کی لکیروں میں اضافہ ہی ہو تا جائے گا ۔
تازہ ترین