• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر مملکت آصف زرداری باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں، وہ پاکستان میں جتنے متنازع ہیں اسی قدر مقبول بھی ہیں۔ ناموری کی وجہ ہر خیر و شر کا ان سے منسوب کیا جانا ہے۔ وہ متنوع خوبیوں کے حامل ہیں۔ پانچ سالہ دور میں ان کی فہم و فراست کے چرچے تھے، انتخابات 2013ء نے ان کی نظر اتار لی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ایوان صدر پر جتنی نظریں مرکوز رہیں، شاید ہی کسی صدر کا ”حُسن و جمال“ کبھی اس توجہ کا مستحق ٹھہرا ہو۔ اس مملکت خداداد میں ہوس زر کی کہانیاں نہ تو موجودہ دور سے شروع ہوئیں اور نہ ہی حالیہ انتخابات ان کا نقطہ انجماد ہیں۔ پاکستان میں آئے روز طبقاتی بالادستی حاصل کرنے والے نہ تو سب کے سب پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں اور نہ ہی سیم و زر کے تالابوں میں جامِ صحت سے لطف اندوز ہوتی جوانیاں محض موجودہ دور کی یادگاریں ہیں، لیکن پھر بھی جو رسوائی موجودہ حکمرانوں نے سمیٹی، وہ ایسا لاثانی و طولانی واقعہ ہے جس کے اصل و نقل پر مباحثے سیاست و صحافت کے میدان کارزار میں ہوتے رہیں گے۔
صدرآصف زرداری کے نقاد یہ نوٹ فرما لیں کہ جس خندہ پیشانی سے عالی مرتب صدر مملکت نے تنقید کے ہر تیر کو اپنے سینے پر ٹھنڈا کیا، شاید ہی کوئی اور اختیار مند اس طرح کا مظاہرہ کر پائے۔جو نئے ہیں وہ بھی آب زم زم سے دھلے دھلائے نہیں اور پھر ان پہاڑ جیسے دعوؤں کا کیا بنے گا جو کرتے وقت یہ صاحبانِ نووارد زیر لب خود بھی بڑبڑایا کرتے تھے۔ لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، مہنگائی، غربت اور کرپشن کے خاتمے کے وعدے تو اپنی جگہ، لیکن سب سے اہم وعدہ جو تقریباً تمام کامیاب ہونے والی جماعتوں کا مشترکہ ہے، وہ طالبان سے مذاکرات اور بدامنی کا خاتمہ ہے۔ تمام تر ذمہ داری اب نئے حکمرانوں کی یہ ہے کہ وہ اس نیک مشن کو جتنا ممکن ہو سکے بام مراد پر پہنچائیں۔ وسوسے مگر یہ ہیں کہ کامیابی کے بعد قیام امن کے داعی جس طرح اگر مگر کے ذریعے اس اہم بنیادی وعدے سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں، اس سے ان کی وقعت کی قلعی کھلتی نظر آ رہی ہے۔مزید یہ کہ میڈیا پر برہم ہونے کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
جمعرات کو ایک چینل پر ممتاز اینکر پرسن کے اسی حوالے سے سوال پر ایک طرف ڈاکٹر شیریں مزاری میڈیا کو کوسنے لگیں تو دوسری طرف اے این پی کے سینیٹر زاہد خان کی اس بات پر کہ چونکہ جماعت اسلامی کو عوامی مینڈیٹ ملا کنڈ ڈویژن سے زیادہ ملا ہے لہٰذا ملاکنڈ ڈویژن سے فوج کے انخلاء سے اس نیک کام کی ابتداء کی جائے۔ اس پر پروفیسر ابراہیم صاحب برا مان گئے اور زاہد خان صاحب کو جواب دیا کہ آپ اپنے 5 سالہ دور میں ایسا کیوں نہ کر سکے!؟
زاہد خان نے کہا کہ چلیں ہم تو نکمے تھے، آپ ہی یہ کار خیر کر لیں! جماعت اسلامی و دیگر یہی واویلا تو مچا رہے تھے کہ حکمران جماعتیں ناکام ہو گئی ہیں، ہمیں موقع دیا جائے۔ اب جن کے طفیل یہ موقع ملا، انہیں دلدل سے نکالنے کے بجائے سفید پوشوں کو ابھی سے اپنے دامن پر لگنے والے چھینٹوں کی فکر ہونے لگی ہے۔
عرض یہ کر رہا تھا کہ کسی اور بات پر بصد شوق بے شک صدر زرداری کو آپ نمبر نہ دیں لیکن کم از کم اس بات کی تو داد دیجئے کہ انہوں نے کسی لکھاری یا کسی تحریر کا برا نہیں منایا اور نہ ہی کسی ترجمان کو کسی تحریر کے جواب کیلئے اکسایا۔ ان کے ترجمان فرحت اللہ بابر تو ایسے نفیس انسان ہیں کہ انہوں نے کبھی اس حوالے سے شکوہ تک نہیں کیا۔ البتہ ہم جیسے طالب علموں و لا علموں کو ایک شکوہ صدر صاحب سے ضرور ہے اور وہ یہ کہ قبل از انتخابات جو انکشافات آپ کو کرنے تھے بعد از انتخابات ان کی ضرورت کیوں پیش آئی!
صدر صاحب کا ارشاد ہے ”انتخابات میں پیپلز پارٹی قومی اور عالمی اداروں کی سازش کا شکار ہوئی۔ پنجاب میں 40 سے 45 نشستیں حاصل کر سکتے تھے جو نہیں کر سکے۔ جذبوں کو حربوں سے شکست نہیں دی جا سکتی“۔ ہم بیان کی آخری سطر کو پہلے لیتے ہیں کہ ”جذبوں کو حربوں سے شکست نہیں دی جا سکتی“۔ نظری طور پر درست سہی اور تاریخ میں زندہ شخصیات و اقوام اسی فلسفے کی علامت ہیں، لیکن پیپلز پارٹی نے بہ وجوہ ایسے کسی مقام کو پانے کا موقع گنوا دیا ہے اور ان کے جذبوں کا حربوں نے بیچ چوراہے پر شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ صدر صاحب نے انکشاف میں جو دیر کر دی ہے، وہ بھی حربوں کی کارستانی لگتی ہے۔ ظاہر ہے اگر وقت پر یہ راز طشت از بام ہو جاتا کہ پیپلز پارٹی کو کون کون مال مفت سمجھ کر ہڑپ کرنے کیلئے منہ کھولے ہوئے ہے تو پیپلز پارٹی کے جیالے اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ وہ یوں تر نوالہ ثابت ہوتے، لیکن کمال ہنرمندی سے جہاں صدر صاحب اب تک اپنے لئے راہیں ہموار کرتے رہے ہیں اسی طرح انہوں نے ”قومی و عالمی اداروں“ کیلئے بھی آسانیاں بہم پہنچانے کا ”فریضہ“ بہ احسن و خوبی ادا کیا! اور اپنے ایثار سے ایسا تاثر نمایاں کیا کہ پیپلز پارٹی چونکہ انتخابات سے آؤٹ ہی ہے لہٰذا انتخابی مہم اور روایتی دمادم مست قلندر کا فائدہ کیا؟ اب جو صدر صاحب فرماتے ہیں تمام تجزیئے بھی اس پر دلالت کر رہے تھے لیکن ان نشستوں کو پیپلز پارٹی سے دور رکھنے کیلئے جہاں ”قومی و بین الاقوامی اداروں“ نے اپنا ہاتھ دکھایا، اس سے کہیں زیادہ ان نشستوں کو پیپلز پارٹی سے دور رکھنے کیلئے صدر صاحب کا ”ہاتھ“ کام آیا۔ سادہ الفاظ میں صدر صاحب نے اپنے ”قناعت پسند“ عمل سے ایسے جذبوں کو حرکت ہی کرنے نہ دی جو حربوں کو شکست دے سکتے تھے!پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے سیاستدان تمام تر جدوجہد کے باوجود ”قومی و بین الاقوامی اداروں“ کے شکنجے سے خود کو آزاد نہیں کر پاتے۔ اس میں جہاں ان اداروں کی طاقت کارفرما ہے تو اس سے بھی کہیں زیادہ سیاستدانوں کی کمزوریوں کا اس میں عمل دخل ہے۔ معروضی منظر نامہ کا ایک تشنہٴ پہلو یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کو اقتدار ”اگلے باری پھر زرداری“ کیلئے نہیں دیا گیا تھا اور اسی عہد کے ایفاء کیلئے با امر مجبوری سہی لیکن صدر صاحب نے دامے درمے سخنے ان اداروں کا ساتھ دیا جن کے خلاف چڑیاں چگ گئی کھیت کے مصداق اب دکھاوے کے پچھتاوے سے وہ غمگسار ہیں۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ صدر صاحب نے آنے کے بعد اس زنجیر کو توڑنے کی حتی المقدور کوشش کی جو ایوان اقتدار میں آنے والے ہر سیاستدان کا استقبال کرتی ہے لیکن یہاں بھی ان کی ناکامیوں کے لئے ان ”کارناموں“ نے راہ ہموار کی، جو میڈیا کے شبانہ روز محنت شاقہ سے زبان زد عام ہو گئے تھے!
ہر پاکستانی جانتا ہے کہ چونکہ اے این پی کسی این آر او کی قائل نہیں لہٰذا موجودہ منظر نامے سے باہر رکھنے کے لئے اس کا حشر نشر کرنا ہی ضروری سمجھا گیا اور جو این آر او کے فن سے آشنا ہیں ان کے فن کو سمندر پار کی دعاؤں نے نکھار بخشا۔ صدر صاحب مان لیں کہ وہ جس جنت کی آرزو میں قصر صدارت کے مکین بنے تھے، وہ اندر سے ویسا ہے نہیں کہ جیسا نظر آتا ہے! قومی و بین الاقوامی اداروں کے طفیل اقتدار پانے اور انہی کی برکت سے اس سے نکالے جانے والے حکمران جانتے ہیں کہ مسند اقتدار ایسا طلسم کدہ ہے جو ہر آنے والے کے ایسے ہوش اڑا دیتا ہے کہ پھر اس کا اپنا سب کچھ بھی اپنا نہیں رہتا اور وہ اقتدار کے عوض گروی رکھ لیا جاتا ہے۔ صدر صاحب مان لیں کہ 5 سال اقتدار میں رہنے کے بعد ان کے جوہرِ بے مثال کا نچوڑ یہی تجربہ تھا جس نے پیپلز پارٹی کو خام اور اس کے اتحادیوں کو بانجھ بنا دیا۔
تازہ ترین