• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچپن میں اسکول کی کتاب میں ایک اندھے اور لنگڑے کی کہانی پڑھی تھی ۔ اندھے کو برابر والے گاوٴں میں کسی دوست کی شادی میں جانا تھا ۔ وہ گاوٴں میں کہتا پھر رہا تھا کہ کوئی اس کو برابر والے گاوٴں میں لے جائے ۔ اتفاق سے اسی گاوٴں میں ایک لنگڑا بھی رہتا تھا اس کو برابر والے گاوٴں میں جانا تھا اس نے اندھے کو کہا تم دیکھ نہیں سکتے ، میں چل نہیں سکتا لہٰذا تم مجھے اپنے کندھوں پر سوار کر لو ، میں راستہ بتاتا جاوٴں گا اس طرح ہم دونوں برابر والے گاوٴں میں پہنچ جائیں گے چنانچہ دونوں برابر والے گاوٴں میں پہنچ گئے دونوں کا مسئلہ حل ہو گیا۔ یہاں تک تو کہانی ٹھیک تھی مگر ہمارے ملک میں جب الیکشن کرانے کا وقت آیا تو صاحب اقتدار پی پی پی کی حکومت نے شاید اسی کہانی سے ملتا جلتا عمل کر ڈالا اور ایک الیکشن کمیشن تشکیل دیااور اس کا سربراہ ایک بہت ہی نیک نام جہاندیدہ مگر عمر رسیدہ شخص جناب جسٹس(ر)فخرالدین جی ابراہیم کو بنا کر شفاف الیکشن کرانے کا ٹاسک دیا ۔ اس الیکشن کمیشن نے بڑی تندہی سے اس کام کا بیڑا اٹھایا ، بڑے بڑے دعوے بھی کئے الیکشن کی شرائط بھی نافذ کیں، تمام حد بندیاں جاری کیں، تما م اسٹیک ہولڈر سے مشاورت بھی کی، حد درجہ سب کو مطمئن بھی کیا اور آخر میں مزید شفاف رکھنے کیلئے الیکشن فوج کی نگرانی میں بھی کرانے کا اعلان کیا ۔ رینجرز کی سیکورٹی دی گئی اور مقامی پولیس کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ الیکشن کمیشن نے جو (Critirea)بنایا تھا اس سے کوئی بھی کرپٹ شخص الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہی کسی قسم کا ڈیفالٹر یا داغدار امید وار۔ پھر حکومت نے ایک غیر جانبدار نگران حکومت مرکز میں اور تمام صوبوں میں خود اس کی اپنی بنائی ہوئی حزبِ اختلاف سے مشاورت کر کے تشکیل دی ۔ مرکز اور سندھ میں بھی معمر ترین اشخاص کو یہ منصب سونپا گیا۔ وزیر اعظم اور تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ کا تعلق کسی نہ کسی طرح ماضی میں پی پی پی سے وابستہ رہا تھا ہر کوئی اس کو شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ یہ نگراں حکومت کیسے وقت پر شفاف الیکشن غیر جانبداری سے کر وا سکے گی۔
پھر نگراں حکومت نے انتظامیہ میں بھی کافی ردوبدل کرنے کا عمل جاری رکھا ۔ ہر صوبے میں اپنی مرضی اور اطمینان کے لئے نیچے سے اوپر تک تبدیلیاں کیں کچھ نیک نامی بھی کمائی تو کہیں کہیں جانبداریاں بھی دیکھنے میں آئیں پھر آخری مرحلہ آیا تو واقعی الیکشن مقر ر کردہ تاریخ یعنی11مئی 2013ء کو ہی منعقد کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا مگر یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ اس دوران الیکشن کمیشن کی تمام شرائط کا کسی نے بھی خیال نہ کیا ۔ تمام کرپٹ نادہندگان سب کے سب ریٹرننگ افسروں یا عدلیہ سے الیکشن کیمپ میں پہنچا دیئے گئے ۔ ہر طرف سے ایک دوسرے پر الزام تراشی، ہر میڈیا سے کی گئی ۔ بڑے بڑے اشتہار ، پوسٹر ، ٹی وی چینلز سے اپنی اپنی کارکردگیوں کے قصیدے سنائے گئے ۔ ہر پارٹی نے اربوں روپے اس مہم پر خرچ کئے، ہوائی جہاز چارٹر کئے اور الیکشن کمیشن کی لگائی گئی حدوں کو بری طرح سے روند ڈالا ۔ الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہا کوئی مداخلت نہیں کی صرف سابق مرد آہن جنرل پرویز مشرف کو ہدف بنا کر نااہل قرار دے کر ان کو اپنے ہی گھر میں جو انہوں نے بڑی چاہت سے بنوایا تھا، قید کر دیا گیا اور بقایا امیدواروں جن میں جعلی ڈگریاں ثابت ہونے والوں ، کھربوں روپے کی کرپشن میں ملوث وزیر اعظم سمیت متعدد وزراء ، سیاستدان ، ماضی اور موجودہ دور کے نادہندگان سب کے سب الیکشن لڑنے کے اہل قرار پائے یہ تھی الیکشن کمیشن کی کارکردگی۔جب نگران حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی تو اس نے بھی مداخلت سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے ہم صرف غیر جانبداری سے الیکشن کروا کر سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔ پھر الیکشن والے دن ہر طرف سے دھاندلیوں کا شور اٹھا بلوچستان اور سندھ کی سیاسی جماعتوں نے تو الیکشن کا بائیکاٹ بھی کیا، فوج کی نگرانی کا وعدہ بھی وفا نہ ہوا ، رینجرز نے بھی معذوری دکھا کر شفاف الیکشن کا خواب چکنا چور کر دیا۔ مقامی پولیس اور پریذائیڈنگ افسران نے کھل کر دھاندلیوں پر اپنی آنکھیں موند لیں اور ہرے بھرے الیکشن کو دھاندلیوں سے دھندلا دیا ۔ ہر طرف شور اٹھا ہارنے والے تو چلا ہی رہے تھے خود جیتنے والے جو دھاندلیوں کے مرکزی کردار تھے ، چور خود چور چور کا شور مچا کر الیکشن کمیشن کو گمراہ کر بیٹھا۔ اب ایک طرف الیکشن کمیشن علاوہ اشک بلبل ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم ، کم حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروا کر خاموش ہو چکا ہے اور اپنی کمزور انتظامہ پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو چکاہے۔ باوجود میڈیا پر دکھائی جانے والی دھاندلیوں ، بیلٹس پیپر کے بنڈلز ، بغیر انگوٹھے لگے ووٹوں کی موجودگی کے باوجود الیکشن کمیشن خاموش ہے ۔ فخرو بھائی کی زندگی کی شاید سب سے خراب پرفارمنس پر قوم اور خصوصاً نئی نسل غم و غصہ میں مبتلا ہے ۔ کیا قوم نے سوچا تھا اور کیا کر دکھایا اس الیکشن کمیشن اور نگران حکومت دونوں نے مل کر۔ 5سال کے لئے قوم کو پھر انہی سیاستدانوں کے حوالے کر دیا جو 2بار حکمرانی کر کے جعلی ڈگریوں ، کرپشن اور قوم کو لوٹنے میں ملوث تھے۔ زندہ باد اے نگران حکومت اور پائندہ باد اے الیکشن کمیشن ، قوم کو تم پر فخر رہے گا کیونکہ بہت جلد دوبارہ تمہاری ضرورت پڑے گی یہ میں نے نہیں بلکہ خورشید شاہ نے فرمایا ہے۔ جو اب حزبِ اقتدار سے قائد حزبِ اختلاف بن چکے ہیں ۔ اللہ ان کی زبان مبارک کرے ۔ اس سے عمران خان کا کام آسان ہو جائے گا اور قوم کا خواب بھی پورا ہو جائے گا۔
تازہ ترین