• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیوں نہ آج بڑی بڑی باتوں کی جگہ بڑے چھوٹے معصوم بے ضرر سے ٹوٹے چلا کر دیکھیں مثلاً
ٹوئیٹر پر بیشمار پاکستانی الیکشن کمیشن آف پاکستان سے پوچھ رہے ہیں … ”میرا ووٹ کہاں گیا؟“ جہاں آج تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ ”آدھا پاکستان کہاں گیا؟“ وہاں کسی کے ووٹ کی کیا اوقات ہے؟
آج کل ہمارے ملک میں مذاکرات کا بہت چرچا ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے گھر کے صدر دروازے کو دیمک لگی۔ دروازہ کیونکہ تقریباً ڈیڑھ سو سال پرانا تھا اس لئے پریشان ہو کر میں نے دیمک کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیئے۔ میں نے ”باجی دیمک“ … ”بھائی جان دیمک“ … ”انکل دیمک“ وغیرہ کو بڑے واسطے دیئے، بڑے ترلے کئے لیکن دیمک تھی کہ کسی قیمت پر باز ہی نہ آتی تھی۔ تب کسی نے مشورہ دیا کہ ”بیوقوفا! دیمک سے مذاکرات نہیں ہوتے اس کا علاج کرانا پڑتا ہے۔“ تب دیمک مار کمپنی سے رابطہ کیا اور یوں دروازہ کی جان چھٹی۔
جمشید دستی نے ثابت کر دیا کہ اگر کوئی بے دست و پا بے وسیلہ آدمی بھی ارادہ کر لے کہ عام آدمی کی نمائندگی بھی عام آدمی ہی کرے گا تو جاگیرداری کے گڑھ میں بھی جاگیرداروں کے لئے گڑھا کھود کر فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ ڈگری بیشک جعلی ہو لیکن آدمی سو فیصد اصلی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر پاکستان کے ہر انتخابی حلقہ میں ایک ایک جمشید دستی پیدا ہو جائے تو ہو گا کیا؟
گجرات میں کتنے معصوم بچے ”قتل“ ہو گئے۔ چند روزہ ماتم کے بعد ہم سب اس سانحہ کو بھی بھول جائیں گے لیکن میں سوچتا ہوں کہ اگر… اگر… چند ہفتوں کے اندر اندر ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں تختہٴ دار پر پہنچا دیا جائے تو کیا دوبارہ کوئی ایسی جرأت کر سکے گا؟ لیکن جہاں سابق گورنر اور سابق وزیراعظم کے بیٹوں کا کوئی پرسان حال نہیں وہاں افتادگان خاک کی اولادیں کس شمار قطار میں
قتل طفلاں کی منادی ہو رہی ہے شہر میں
ماں مجھے بھی مثل موسیٰ تو بہا دے نہر میں
سنیٹر زاہد خان کو سلام جس نے کہا ہے کہ ”دفاعی محکموں اور ہسپتالوں کو لوڈ شیڈنگ سے چھوٹ دی جائے۔ ان کے علاوہ سب برابر ہیں۔“ سینٹ کمیٹی میں یہ بھی کہا گیا کہ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، ججز کالونی اور دیگر ایسے مقامات پر بھی لوڈ شیڈنگ کی جانی چاہئے۔ واقعی یہ امتیازی سلوک غیر اسلامی بھی ہے۔ غیر آئینی بھی، غیر اخلاقی بھی۔ جس دن ایسے وی آئی پی مقامات پر اندھیرا چھا گیا… پورا ملک روشن ہو جائے گا لیکن عوام کو ٹائر جلانے کے علاوہ اور کچھ جلانے کی سوجھتی ہی نہیں۔ اشرافیہ اور بدمعاشیہ میں فرق سمجھنے کے لئے اک مثال پیش خدمت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انگلینڈ میں اشیائے
خوردونوش کی شدید راشننگ شروع ہوئی تو جو گورے ہندوستان میں موجود تھے انہوں نے یہ راشننگ خود بخود اپنے اوپر لاگو کر لی تاکہ ہم وطنو کے ساتھ اظہار یکجہتی کر سکیں لیکن یہاں تو بے حیا ٹھگوں اور بے رحم بہروپیوں کے جتھے ہیں جنہوں نے پاکستانیوں کو جن جپھا ڈالا ہوا ہے اور اگر کوئی انہیں اس جن جپھے سے چھڑانا بھی چاہے تو یہ نہیں مانتے۔ نجانے کتنے اقبال، فیض اور جالب اس بے فیض جدوجہد کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہم جیسے چمپو کس بہی کھاتے میں لیکن پھر وہی بات کہ ”مالی دا کم پانی لانا بھر بھر مشکاں پاوے“ جمال صاحب نے جس جمال و جلال و کمال کے ساتھ ن لیگ جوائن کی ہے اس پر بانکے ترین شاعر عدیم ہاشمی مرحوم کے یہ شعر یاد آ رہے ہیں #
گروتھ ساتھ گرے شان شہسواری بھی
زوال آئے تو پورے کمال میں آئے
تمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کا
پڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں آئے
چک شہزاد کا قیدی نجانے کیا سوچ رہا ہو گا
سبحان اللہ… معاشی اصلاحات کے نام پر ن لیگ کو سرکاری زمینوں کی فروخت کا مشورہ دیا گیا ہے۔ رب العالمین ہماری آئندہ نسلوں پر رحم فرمائے جن کے ”قرضے“ تو قائم رہیں گے لیکن ”اثاثے“ بیچ دیئے جائیں گے۔ ہے کوئی اس ملک میں جو ایسے شیطانی مشورے کا نوٹس لے۔ لاہور میں میٹرو بس سروس برقرار رکھنے کے لئے پنجاب کو ماہانہ ایک ارب روپیہ سبسڈی دینا پڑ رہی ہے۔ سستی روٹی سے مہنگی میٹرو تک ہر جگہ سبسڈی … کراچی والو! بھاگو میٹرو وائرس تمہارے پیچھے بھی پہنچ رہا ہے۔ ایک طبی مذاکراہ کے نتیجہ میں علم ہوا کہ دس میں سے ہر چوتھا شخص ذیابیطس یعنی شوگر کا شکار ہے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ پاکستان کا تو ہر شہری ہی ”ضیا بیطس“ کا شکار ہے۔ معاف کیجئے اسے سمجھنے کے لئے دماغ پر ضرورت سے کچھ زیادہ بوجھ ڈالنا پڑے گا جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ جاوید ہاشمی کی ساری جدوجہد تو وزیراعظم بننے والی تھی لیکن قسمت بھی کوئی چیز ہے۔ میں پی ٹی آئی کا ممنون ہوں جو جاوید ہاشمی کو وزیراعظم نہ سہی اس کا ”امیدوار“ تو بنا رہی ہے۔ ن لیگ نے تو اسے اپوزیشن لیڈری کے قابل بھی نہ سمجھا تھا۔ چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ پنجاب میں گن کرائم کا تناسب 22 فیصد تک پہنچ گیا واقعی غربت جرائم کی ماں ہے۔
تازہ ترین