• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سچی بات یہ ہے کہ میں ایک گنہگار شخص ہوں، عبادات میں بھی کوتاہی کرتا ہوں اور مجھ میں وہ بعض معاشرتی خرابیاں بھی موجود ہیں، جنہیں ان دنوں خرابیوں میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ، مگر اس کے باوجود میں خود کو ذہنی طور پر اپنی خاندانی میراث روحانیت سے جڑا ہوا محسوس کرتا ہوں اور ان لوگوں کی تلاش میں رہتا ہوں جن سے مل کر مجھے روحانی آسودگی حاصل ہو سکتی ہو، چنانچہ میری ملاقات بہت سے ”بابوں“سے ہے اور میں ان سب کا دلی احترام کرتا ہوں تاہم میری خواہش ہوتی ہے کہ میں جب کسی سے ملوں تو مجھے یہ احساس ہو کہ ایک انسان دوسرے انسان سے مل رہا ہے، یہ نہ لگے کہ ایک انسان کسی فرشتے کو گلے لگانے کی کوشش کر رہا ہے، جو نور ہی نور ہے، جس کی گرہ میں کرامتیں ہی کرامتیں ہیں اور اس میں عام انسانوں والی کوئی بات ہی نہیں، چنانچہ جب میں نے اپنے کچھ دوستوں سے عبداللہ بھٹی صاحب کا ذکر خیر سنا تو میرے دل میں ان سے ملنے کی خواہش بیدار ہوئی ، اور پھر یہ ملاقات ہو بھی گئی ، میں نے دیکھا کہ ایک ہینڈسم نوجوان خوبصورت شرٹ اور پتلون میں ملبوس میرے سامنے بیٹھا ہے اور ایک عام انسان کی طرح باتیں کر رہا ہے ۔ مختلف موضوعات پر عام سے انداز میں گپ شپ ہو رہی ہے، وہ موقع محل کی مناسبت سے سنجیدہ بھی نظر آتا ہے اور قہقہے بھی لگاتا ہے، وہ مجھے یہ احساس ہی نہیں ہونے دے رہا کہ وہ کسی بھی حوالے سے کسی غیر معمولی صلاحیت کا مالک ہے اور یوں مجھ سے بہتر ہے لیکن جب اس نے میرے ایک سوال کے جواب میں میرے ماضی کے کچھ ورق پلٹے تو میں بہت حیران ہوا بلکہ میں اس وقت مزید حیران ہوا جب عبداللہ بھٹی صاحب نے کہا ”جن باتوں پر آپ حیران ہو رہے ہیں یہ کوئی بڑی باتیں نہیں، یہ سب کچھ ریاضت سے آپ بھی حاصل کر سکتے ہیں “ ان لمحوں میں مجھے ان کی شخصیت مزید خوبصورت لگی کہ جانتا تھا کہ یہ ریاضت کیا ہے اور اس کے دوران کن جان لیوا قسم کے حالات سے گزرنا پڑتا ہے !
عبداللہ بھٹی صاحب مریدوں کی کمائی پر چلنے والے ”پیروں “ میں سے نہیں ہیں، وہ ایک کالج میں پروفیسر ہیں انہوں نے روحانیت کے موضوع پر بہت پڑھا ہے اور اس حوالے سے ان کی ایک کتاب چند ماہ پہلے شائع ہوئی تھی اور دوسری کتاب ”فکر درویش“ اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے جو تصوف کے موضوع پر لکھی گئی چند اچھی کتابوں میں سے ایک ہے ، تصوف ہے کیا ؟اس کا جواب خود انہی کی زبانی سنیں :۔
میں کون ہوں؟ کیوں ہوں؟ کیا ہوں؟ دنیا کے ہر باشعور انسان کو کبھی نہ کبھی خود سے ان سوالوں کے جوابات مانگنے پڑتے ہیں ۔ دراصل یہی معلوم سے نامعلوم یا پھر نامعلوم سے معلوم کا سفر ہے ، انسان یعنی میں محمد عبداللہ بھٹی وجود اندر وجود ایک چھوٹا سا جرثومہ ہوں ، کائنات کی وسعتوں کی تلاش کے سفر پر نکلا ہوں، یہ تلاش کا سفر کیسا جان لیوا ہے، کتنا پرخطر ہے، کتنا پیچیدہ اور ٹیڑھا میڑھا ہے، اس کا احساس اس راہ کی مسافت پر نکلنے والے ہی کر سکتے ہیں، جس تن بیتے وہ تن جانے، جدید دور کا اپنی خواہشات کے چنگل میں پھنسا انسان جس کے لئے ہر اگلے قدم پر کوئی نہ کوئی ترغیب تحریص اور پھندا موجود ہوتا ہے، اس راستے کے کانٹوں سے اپنا دامن کیسے بچائے ؟ اپنی راست فکری کو کیسے برقرار رکھے اور خود کو یہ یقین کیسے دلائے کہ اس کی سمت صحیح ہے اور وہ ایک روز منزل پر ضرور پہنچ جائے گا، حسین بن منصور حلاج نے ”طواسین“ میں لکھا ہے جس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں نے اس کو حقیقتاً پہچان لیا، اس نے اپنے وجود کو معروف کے وجود سے بھی زیادہ عظیم اور بزرگ بالاتر کر لیا، کیونکہ جو شخص کسی شے کو اس کی حقیقت کی تہہ تک پہنچ کر پہچان لیتا ہے وہ دراصل اس شے سے بھی زیادہ قوی اور مضبوط ہو جاتا ہے، یہ حقیقت ہے کیا ؟ جس کو شناخت کرنے کی جستجو انسان کو ساری زندگی تڑپائے رکھتی ہے جو اسے جان گئے انہوں نے گویا زندگی ہی میں کئی زندگیاں پالیں ، نامعلوم کی تلاش ایسا سفر ہے جس میں مسافر خود گم ہو جاتا ہے ۔ زمان کیا ہے اور مکان سے پہلے وہ کس صورت میں تھا وہ جو گہری دھند میں کہیں دورتا حد نگاہ دکھائی نہ دینے والی دھند میں چھپا بیٹھا ہے وہ کون ہے ؟ کیا ہے ہمارااس سے تعلق کیا صرف خائق اور تخلیق کا ہے یا اس اسرار میں میرا بھی کوئی کردار ہے، یہ تھے وہ سوال جو مجھے بچپن ہی سے بے چین رکھتے تھے میں نے سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں نگر نگر کی خاک چھانی ہے، صحراؤں، جنگلوں، دریاؤں اور پہاڑوں میں گھوما ہوں، در در کا سوالی بنا ہوں، کہیں سے کچھ بھیک ملی، کہیں سے کچھ، فقیر کا کاسہ اسی طرح بھرتا ہے میں نے سفر آغاز پر ہی جان لیا تھا کہ مقدر سے زیادہ اور وقت سے پہلے کہیں سے کسی کو کچھ نہیں ملتا میں ہمیشہ اس پر شاکر رہا ہوں، صبر اور ریاضت کو میں نے اپنا شعار بنایا اور اپنی دھن میں مگن آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔
معافی چاہتا ہوں، اقتباس کچھ زیادہ طویل ہوگیا لیکن یہ ضروری تھا، اس سے عبداللہ بھٹی صاحب کے اس سوز نہاں کا پتہ چلتا ہے جو انہیں ایک در سے دوسرے در تک لے جاتا رہا۔ کتاب کے مطالعے کے دوران میرے لئے یہ امر بھی طمانیت کا باعث تھا کہ مصنف ان لوگوں میں سے نہیں جو خود کو تلمیذالرحمن کہہ کر مطالعے سے اپنی جان چھڑاتے ہیں بلکہ تصوف کے موضوع پر ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع ہے، چنانچہ میرے نزدیک یہ کتاب ان لوگوں کی رہنمائی کرے گی جو تصوف کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ان دنوں جس تصوف کا پرچار کیا جارہا ہے وہ مذہب کے مودبانہ انکار کا دوسرا نام ہے جبکہ بھٹی صاحب کی کتاب کے مندرجات اس سوچ سے انکار کرتے نظر آتے ہیں۔ کتاب میں بعض محیرالعقول واقعات بھی بیان ہوئے ہیں۔ میں نے اس طرح کے واقعات عہد حاضر اور ماضی کے بہت سے صوفیاء کی کتابوں میں بھی پڑھے ہیں ۔ میں ان کی صحت سے انکار یا اقرار کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ میں نے زندگی میں ایسا کوئی واقعہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تاہم اس سے قطع نظر تصوف کے موضوع پر یہ اعلیٰ درجے کی تحقیقی اور علمی کتاب ہے اور اس کے مصنف کی زندگی اس امر کا عملی ثبوت کہ اسلامی تصوف، مسیحی رہبانیت سے الگ تھلگ چیز ہے۔ نیز یہ کہ اس کا”امریکی تصوف“سے بھی کوئی تعلق نہیں جس میں کھیل تماشے تو موجود ہیں تصوف کہیں نظر نہیں آتا۔
عبداللہ بھٹی صاحب نے اپنی جستجو کا سفر جن سوالوں کے جواب کے لئے کیا ہے ہمارے کلاسیکی شعراء ہی اس سوالوں کا جواب نظری طور پر تلاش کرتے رہے ہیں۔ انسان کیا ہے اور وہ سب کچھ کیا ہے جو ہمارے اردگرد نظر آتا ہے۔ اس کائنات کے آغاز کا پہلا اور اختتام کا آخری سرا کہاں ہے، وہ کون ہے اور کیسا ہے جو چھپا ہوا مسیحاہے اور ظاہر بھی ہے، غالب پوچھتا ہے۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
عشوہ و غمزہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
میر#اور درد# تو خیر باقاعدہ صوفی شاعر تھے ، ان کا سارا کلام اس ”حقیقت“ کی تلاش ہے جو کئی پردوں میں نہاں ہے۔ وہ بے چینی اور اضطراب کے عالم میں خود سے بہت سے سوالوں کے جواب مانگتے رہتے ہیں۔
درد# کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے، کدھر چلے؟
اور جب وہ”حقیقت“ عقل کے دائرے میں نہیں آتی تو ہمارے آج کے شاعر عبدالحمید عدم# کہتے ہیں
آگہی میں اک خلاء موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
سو عبداللہ بھٹی صاحب بھی اسی راہ کے مسافر ہیں مگر انہوں نے اس رستے کے بہت سے مصائب جھیلے ہیں اور ان کے بقول”بالآخر میں سرکار بری امام کے قدموں میں ڈھیر ہوگیا، جنہوں نے مجھے سینے سے لگایا، اپنا بنایا اور تلاش کے اس سفر کو سنگ میل بنادیا“، تاہم مجھے ان باتوں کے بیان سے ڈر لگتا ہے کہ ان دنوں تصوف بعض لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہے جو وہ اناڑی ہاتھوں میں دے کر انہیں اندھے راستوں کے سفر پر روانہ کردیتے ہیں، اس طرح کے نام نہاد صوفی سیاسی شاعروں کے ہاتھوں میں بھی کھیلنے لگتے ہیں۔ کون آرہا ہے ،کیا لارہا ہے، کب جارہا ہے”فائل“تیار ہے،”دستخط“ ہونے والے ہیں۔”دستخط“ ہوگئے ہیں اور اس سارے”پراسیس“ میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں جس سے دلوں میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے کہ شاید روحانی دنیا میں بھی”سرخ فیتہ “ کار فرما ہوتا ہے۔ ہمارے کالموں میں بھی ان”اللہ والوں “ کا ذکر ان کی خوشخبریوں کی صورت میں سامنے آتا یا سامنے لایا جاتا ہے بلکہ اس طرح کے”اللہ والوں“ کی صحبت میں زیادہ وقت گزارنے والے کالم نگار خود بھی یہ تاثر دینے لگتے ہیں کہ وہ بھی ”اللہ والے“ ہوچکے ہیں، اللہ کرے ہمارے عوام ان توہمات کا کبھی شکار نہ ہوں،مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں نے عبداللہ بھٹی کی زبان یا قلم سے کبھی”فائلوں“ کی کہانی نہیں سنی، وہ تصوف کے راستے کے مسافر ہی نہیں ایک پڑھے لکھے شخص بھی ہیں چنانچہ جانتے ہیں”خاصوں“ کی باتیں”عاموں“ کے سامنے نہیں کی جاتیں۔ ان کی تازہ تصنیف ”فکر درویش“ تصوف کے موضوع پر ایک تحقیقی نوعیت کی کتاب ہے اور مجھے یقین ہے اس سے وہ لوگ پوری طرح استفادہ کرسکیں گے جو تصوف سے دلچسپی رکھتے ہیں۔
تازہ ترین