• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف سینیٹ کے انتخابات کی منڈی لگ گئی ہے اور دوسری طرف عدالت کو دبائومیں لانے کے لئے حکومت کی طرف سے اس کے گزشتہ انتخابات میں خیبرپختونخوا کے ممبران کی خریداری کی ویڈیو لیک کی گئی ۔

اس ویڈیو کو اس دلیل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی اس عمل کو ختم کرنے کے لئے سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ تبدیل کرنا چاہتی ہے ۔اگرچہ ابھی وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں لیکن یہ وڈیو عمران خان صاحب کے اعلان کے مطابق انہوں نے 2018میں دیکھی تھی ۔

صرف یہ ایک وڈیو نہیں بلکہ میری معلومات کے مطابق ایسی ایک درجن سے زائد ویڈیوز عمران خان کو فراہم کی گئی تھیں ۔ ان میں سے صرف چند حصے اس وڈیو میں ایڈٹ کرکے لیک کئے گئے ہیں ۔

اب اگر لوٹا کریسی کا خاتمہ مقصود تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ اس وڈیو میں نظر آنے والے سلطان محمود کو ٹکٹ کیوں دیا گیا اور پھر انہیں وزیر قانون کیوں بنایا گیا ؟یوں ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرا ان حقائق کا پھر سے جائزہ لیا جائے ، جو 2018کے انتخابات سے متعلق ہیں۔

میں لکھ چکا ہوں کہ 2018کے انتخابات میں جب یہ اندازہ ہوا کہ پی ٹی آئی کے ممبران بھی درجنوں کی تعداد میں بکیں گے تو خود پی ٹی آئی نے امیر لوگوں کو ٹکٹ دے کر اپنے ایم پی ایز سے کہا کہ وہ دوسروں کے ہاں نہ بکیں کیونکہ ان کو اپنے امیدوار بھی پیسے دیں گے ۔یوں یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پی ٹی آئی کے ممبران، جنہوں نے خود اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دئیے ، ان کو بھی پیسے دیے گئے۔

میں الیکشن سے قبل خبردار کرچکاتھا کہ یہ کام ہونے جارہا ہے ۔ میرا پہلا کالم 6فروری کو روزنامہ جنگ میں ”ڈنکی ٹریڈنگ“ کے نام سے شائع ہوا جس میں معاملے کی سنگینی کو واضح کرنے کے لئے میں نے ہارس ٹریڈنگ کی بجائے ڈنکی ٹریڈنگ کی اصطلاح استعمال کی اور ضمیر فروخت کرنے والوں کو گدھوں سے تشبیہ دی لیکن پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں خریداری کا میچ زوروں پر رہا۔

الیکشن میں بری طرح خریدوفروخت ہوئی اور نئے پاکستان کے علمبرداروں نے یہ نئی روایت بھی ڈال دی کہ خود اپنی پارٹی کے کھرب پتی امیدواروں نے اپنے ایم پی ایز کی خریداری کی ۔ چنانچہ الیکشن کے فوراً بعد میں نے ”گدھوں سے معذرت“ کے زیرِعنوان ایک اور کالم لکھا جو روزنامہ جنگ میں 7مارچ 2018کو شائع ہوا ۔

اس میں پی ٹی آئی کی طرف سے اپنے ارکان کو رقم دینے کا میں نے نہ صرف انکشاف کیا بلکہ یہ تفصیل بھی دی کہ پی ٹی آئی کے کتنے لوگ بکے ہیں؟ کالم کا ایک پیراگراف کچھ یوں تھا:”خیبر پختونخوا اسمبلی میں تبدیلی کی علمبردار جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دو درجن سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی جن میں صوبائی وزراء بھی تھے، فروخت ہوئے ۔

حالانکہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کی صورت میں ان کو اپنی حکومت کی طرف سے دیگر مراعات کے ساتھ ساتھ رقم بھی مل رہی تھی لیکن دوسری پارٹی کی رقم چونکہ بہت زیادہ تھی ، اس لئے یہ بے شرم نوٹوں کے آگے ڈھیر ہوگئے۔ بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنی حکومت سے رقم لے کر بھی ووٹ فروخت کیا جبکہ بعض ایسے ہیں جنہوں نے دوسری پارٹی سے رقم لے کر بھی ووٹ اس امیدوار کو نہیں ڈالا۔

خیبر پختونخوا کے عوام نے گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کومسترد کرکے تبدیلی کے نام پر تحریک انصاف کو ووٹ ڈالے تھے اور بعض ایسے لوگ بھی ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہوئے جو گدھوں کے اصطبل کا انتظام چلانے کے بھی اہل نہ تھے ۔

عوام کے مینڈیٹ کی رو سے پیپلز پارٹی کو اتنی کم سیٹیں ملی تھیں کہ ان کا ایک سینیٹر بھی منتخب نہیں ہوسکتا تھا لیکن ان ضمیر فروشوں کی وجہ سے اس کے دو سینیٹرز منتخب ہوئے اور تیسرا سینیٹر منتخب ہوتے ہوتے رہ گیا“ ۔

21اپریل کو ”عمران خان اور مبینہ گدھے“ کے زیرِعنوان اپنے کالم میں لکھا کہ : ” سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان سب لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی جنہوں نے ووٹ فروخت کئے اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کہیں بعض ایسے ممبران اسمبلی پر تو ڈنکی ٹریڈنگ کا الزام نہیں لگایا گیا جو بے قصور ہیں یا کہیں ایسے لوگوں کو بھی تو بدنام نہیں کیا گیا جو پی ٹی آئی کا حصہ ہی نہیں تھے ۔

میں مانتا ہوں کہ جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی ، اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کے بارے میں پہلے دن سے کہا جارہا تھا کہ وہ ووٹ فروخت کرچکے ہیں لیکن افسوس کہ حسبِ عادت ان کے خلاف کارروائی کرتے وقت تحریک انصاف کی قیادت نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے ۔

اسی طرح بعض ایسے لوگ بھی نظرآتے ہیں جن کے بارے میں گمان ہے کہ انہیں قیادت سے قربت کی وجہ سے بچایا گیا۔ بعینہ بعض ایسے لوگوں کو بھی بدنام کیا گیا جن کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔“

اب سوال یہ ہے کہ عمران خان اگر سینیٹ انتخابات میں پیسے کے کھیل کو ختم کرنا چاہتے تھے تو پھر انہوں نے پارٹی کے لوگوں کی بجائے نووارد ارب پتیوں کو ٹکٹ کیوں دیے؟ اور بعض ایسے ممبران کو کیوں بچایا جو ضمیر فروشی کے مرتکب ہوئے تھے؟ خان صاحب نے جن لوگوں کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا ان میں تین ایم پی ایز بابر نسیم ، معراج ہمایوں اور امجد آفریدی کا پی ٹی آئی سے تعلق بھی نہیں تھا۔

اسی طرح ان نکالے جانے والوں میں ایک نام عارف یوسفزئی کا بھی تھا جنہوں نے خان صاحب کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کیا تھا ۔ چنانچہ ان کو منانے کے لئے نہ صرف پارٹی رہنمائوں کوان کے گھر بھیجا گیا بلکہ اب ان کو پارٹی عہدہ بھی دیا گیاہے ۔

اسی طرح پی ٹی آئی کے یہ ممبران پیپلز پارٹی نے توڑے تھے لیکن صرف ایک ہفتہ بعد عمران خان نے اپنے چیئرمین سینیٹ کے لئے پیپلز پارٹی کے ان سینیٹروں سے ووٹ مانگا بلکہ اپنے سینیٹروں کا ووٹ بھی پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کے حق میں استعمال کیا۔

اب اگر وہ واقعی اس گند کو صاف کرنا چاہتے ہیں تو کیا نئے انتخابات کا طریقہ کاربدلنے سے قبل یہ ضروری نہیں کہ کہ وہ سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل کمیشن بنا کر گزشتہ سینیٹ انتخابات میں ہونے والی خرید و فروخت اور چیئرمین سینیٹ کے عدم اعتماد کے معاملے کی انکوائری کروا ئیں اور جو لوگ ہارس ٹریڈنگ کے مرتکب پائے جائیں ، پہلے ان پر سینیٹ کے دروازے بند کئے جائیں نہیں تو اپوزیشن کے اس دعوے کو درست سمجھا جائے گا کہ مقصد سینیٹ کے انتخابی عمل کو شفاف بنانا نہیں بلکہ اپنے چہیتوں اور چند مزید ارب پتیوں کو منتخب کرواناہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین