• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ، برطانیہ اور یورپ کئی دہائیوں تک ایکسپورٹ کی سب سے بڑی مارکیٹس مانی جاتی تھیں لیکن امریکہ اور یورپ میں مالی بحران، مندی اور بیروزگاری میں اضافے کے باعث ان مارکیٹس سے ایکسپورٹ کے آرڈرز میں کمی آتی رہی اور اسی دوران ایشیاء اور افریقہ سے ایکسپورٹ آرڈرز میں اضافہ ہوا اور اس طرح روایتی ایکسپورٹ مارکیٹس کی ایشیاء اور افریقہ منتقلی دیکھنے میں آئی۔ 2012ء میں پاکستان کی امارات، افغانستان اور چین کو ایکسپورٹس ملکی مجموعی ایکسپورٹ 23.65 بلین ڈالر کا 28% جبکہ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کو 24% رہی۔ مالی اعتبار سے 2012ء میں پاکستان کی امریکہ اور یورپ کو 10 بلین ڈالرز جبکہ ایشیاء و افریقہ کو ایکسپورٹ 13.4 بلین ڈالررہیں۔ روایتی ایکسپورٹ مارکیٹس کی ایشیاء اور افریقہ منتقلی ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ پاکستان کو اپنی ایکسپورٹس میں اضافے کیلئے اب غیر روایتی مصنوعات مثلاً سیمنٹ، جیولری، حلال گوشت، فوڈ آئٹمز وغیرہ اور افریقہ و ایشیاء کی غیر روایتی مارکیٹوں مثلاًبنگلہ دیش، چائنا، انڈیا، انڈونیشیا،ملائیشیا، تھائی لینڈ، ویتنام، خلیجی ریاستوں ، مصر، مراکو، تیونس جہاں پاکستانی ایکسپورٹس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کو فوکس کرنا ہوگا ۔عرب امارات دنیا کا تیسرا بڑا ایکسپورٹ حب ہے جہاں اشیاء امپورٹ کرکے دنیا بھر کو ایکسپورٹس کی جاتی ہیں۔ TDAP کے مطابق پاکستان اور عرب امارات کے مابین باہمی تجارت گزشتہ 3 سالوں میں دوگنا ہوکر تقریباً 10 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے جس میں یو اے ای سے پاکستان کو ایکسپورٹ7.7 بلین ڈالرز اور پاکستان سے یو اے ای کو ایکسپورٹ 2.3 بلین ڈالرز شامل ہے۔اس کے علاوہ 2012ء میں پاکستان سے کھانے پینے کی اشیاء، حلال گوشت اور دیگر مصنوعات کی ترکی ایکسپورٹ 456 ملین ڈالر، سعودی عرب 418 ملین ڈالر، ہانگ کانگ 394 ملین ڈالر، جنوبی کوریا 379 ملین ڈالر، انڈیا 338 ملین ڈالر اور سری لنکا 305 ملین ڈالر رہی۔ 2012ء میں پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹ میں امریکہ 3.5 بلین ڈالرز کے ساتھ پہلے نمبر پر، عرب امارات 2.3 بلین ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر، افغانستان 2.3 بلین ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر، چائنا 2.2 بلین ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر، برطانیہ 1.2 بلین ڈالرز کے ساتھ پانچویں نمبر پر، جرمنی 1.1 بلین ڈالر کے ساتھ چھٹے نمبر پر، بنگلہ دیش 634 ملین ڈالر کے ساتھ ساتویں نمبر پر، اٹلی 580 ملین ڈالر کے ساتھ آٹھویں نمبر پر، بلجیم 523 ملین ڈالر کے ساتھ نویں جبکہ اسپین 490 ملین ڈالر کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے جس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی ایکسپورٹ مارکیٹس اب ایشیاء کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ یہ سب حقائق میری اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آنے والا وقت علاقائی تجارت کا ہے اور آنے والی صدی میں سب سے زیادہ گروتھ ایشیاء میں ہوگی جس کی نشاندہی میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں کی تھیں جن میں، میں نے بتایا تھا کہ ایشیاء کی گروتھ میں چین، انڈیا، جاپان، ترکی اور جنوب مشرقی ایشیاء میں جنوبی کوریا، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور فلپائن نمایاں کردار ادا کریں گے، بنگلہ دیش نے بھی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ افغانستان، پاکستان اور کسی حد تک سری لنکا میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے وہ خطے کے دیگر ممالک کی طرح تیز معاشی ترقی حاصل نہیں کرسکے لیکن سری لنکا میں تامل باغیوں کے خاتمے کے بعد اب وہاں سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے۔ایشین ممالک سے تجارت میں اضافے کی وجہ ان ممالک کی تیز گروتھ اور ان میں مڈل کلاس طبقے میں اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ ان ممالک سے تجارت میں اضافے کی دوسری وجہ ان کے درمیان زمینی راستے ہیں جس کی بدولت ان ممالک میں کم خرچ اور کم وقت میں اشیاء کی نقل و حمل کی جاسکتی ہے۔ چائنا کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ (FTA) سائن کرنے کے بعد ہماری باہمی تجارت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ خلیجی ممالک سے ہماری تجارت میں اضافے کی وجہ ان ممالک سے تیل، کھاد اور استعمال شدہ انڈسٹریل مشینری کی امپورٹ اور ان ممالک کو چاول، ڈیری، حلال گوشت، سی فوڈ، گولڈ جیولری، سیمنٹ اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹس ہے۔ انڈیا کے ساتھ بھی مکمل طور پر آزادانہ تجارت کے فروغ کے بعد ہماری باہمی تجارت میں خاطر خواہ اضافے کی امید کی جارہی ہے۔ ملائیشیا سے ہم پام آئل اور انڈونیشیا سے الیکٹرونکس اشیا امپورٹ کررہے ہیں۔ جلد ہی پاکستان اور انڈونیشیا کے مابین فری ٹریڈ ایگریمنٹ ہونے والا ہے جس سے آنے والے وقت میں دونوں ممالک کی تجارت مزید بڑھے گی لیکن 2012ء میں ہماری بنگلہ دیش سے ہماری ایکسپورٹس کم ہوکر 650 ملین ڈالر تک آگئی ہیں۔ دنیا میں ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے 4 مختلف ماڈل اپنائے گئے ہیں۔ پہلے ماڈل میں جدید ٹیکنالوجی، عالمی معیاراور برانڈ ڈویلپمنٹ سے ایکسپورٹ میں اضافہ کیا گیا ہے جس میں جرمنی، جاپان، کوریا اور ہالینڈ قابل ذکر ہیں۔ دوسرے ماڈل میں ویلیو ایڈیشن کرکے ایکسپورٹ میں اضافہ کیا گیا ہے جس میں سنگاپور اور تائیوان سرفہرست ہیں۔ تیسرے ماڈل میں پیداواری صلاحیت بڑھاکر پیداواری لاگت میں کمی کے ذریعے ایکسپورٹ میں اضافہ کیا گیا ہے جس میں چین اور تھائی لینڈ قابل ذکر ہیں جبکہ چوتھے ماڈل میں صنعتوں کی ان ممالک میں منتقلی جس میں سستی ہنر مند لیبر، مطلوبہ صنعتی انفرااسٹرکچر اور عالمی معیار کی پیکیجنگ انڈسٹری ویلیو ایڈیشن کرنے کیلئے موجود ہو کے ذریعے ایکسپورٹس میں اضافہ کیا گیا ہے جس میں ملائیشیا اور انڈونیشیا کامیاب مثالیں ہیں۔ پاکستان کیلئے تیسرا اور چوتھا ماڈل اپنانا مناسب ہے جس کے ذریعے پیداوار میں اضافہ اور ویلیو ایڈیشن کے ذریعے مقابلاتی نرخوں پر اشیا ایکسپورٹ کی جائیں جس سے ہم اپنی ایکسپورٹ بڑھاسکتے ہیں۔
پاکستان کی تجارتی پالیسی 2012-15ء میں پاکستان کی ایشیاء میں ایکسپورٹ کو 3 سالوں میں 46% سے بڑھاکر 60% تک لانے کیلئے کئی اقدامات لئے گئے ہیں اور ایشیاء میں چائنا، افغانستان اور ایران سے ترجیحی بنیادوں پر تجارت بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ میں ہمیشہ اپنے کالموں اور انٹرویوز میں علاقائی تجارت کے فروغ پر زور دیتا رہا ہوں جو دنیا میں تجارت بڑھانے کا سب سے کامیاب ماڈل ہے۔ نارتھ امریکن بلاک (NAFTA) ممالک کی باہمی تجارت 68%، یورپی یونین (EU) ممالک کی 53% اور آسیان (ASEAN) کی باہمی تجارت 26% ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا سارک (SARC) ممالک کی باہمی تجارت صرف 5% ہے جس کی اہم وجہ سارک کے دو ممالک انڈیا اور پاکستان کے مابین سیاسی اختلافات ہیں جنہیں دور کرکے ہم اپنے خطے کے ممالک کے مابین بھی علاقائی تجارت کو زمینی راستے کے ذریعے بڑھاسکتے ہیں۔ حال ہی میں چین کے وزیراعظم نے خطے میں تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے پاکستان اور انڈیا کا دورہ کیا۔ بڑی آبادی رکھنے والے ہمارے خطے کے یہ تینوں ممالک دنیا کی بڑی مارکیٹس ہیں جو آنے والی دہائیوں میں عالمی تجارت میں اہم کردار ادا کریں گے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم عالمی ایکسپورٹس کی ایشیاء منتقلی کے پس منظر میں ان کے پوٹینشل سے فائدہ اٹھائیں۔
تازہ ترین