• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت بننے کے اعلانات کے بعد اب ساری قوم میاں نواز شریف اور ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ نئے مالی سال کا بجٹ کیا پیش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے قوم کی خواہشات تو بے حد ہیں لیکن جس طرح کے معاشی حالات سے پاکستان اس وقت دو چار ہے اس میں نئی حکومت کیا کمال دکھاتی ہے اور معاشی مسائل کے بارے عوام کو کیسے مطمئن کرتی ہے۔ اس وقت انہیں صرف بجلی اور گیس کی نہیں روٹی اور سیکورٹی کی بھی ضرور ت ہے۔ روٹی بند فیکٹریوں اور کارخانوں سے تو نہیں مل سکتی اس کے لئے انہیں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ انہیں ہر طرح کے تحفظات دینے کے لئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ویسے تو یہ بات سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت آنے کی اطلاعات کے بعد عوام کی اکثریت قدرے اطمینان اور سکون کا اظہار کررہی ہے لیکن اس سکون کے اظہار کے بدلے میں نئی حکومت انہیں کیا دیتی ہے، یہ اصل امتحان ہے، میاں نواز شریف کا۔ جن کے پاس اقتصادی منیجرز کی ٹیم تو کافی اچھی ہے مگر موجودہ حالات کے معاشی تقاضے کس طرح وہ پوری کرتی ہے اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا، البتہ یہ بات طے ہے کہ نئی حکومت کا پہلا بجٹ ہی ان کی جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے تسلسل کی ضمانت دے گا اگر تو کئی مشکل چیلنجز کے باوجود نئی حکومت ایک عوام دوست بجٹ دے دیتی ہے تو اس سے ایک تو ان کے سیاسی مخالفین کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں پڑیگی دوسری طرف عام افراد بھی مطمئن ہوسکتے ہیں کہ ان کے مسائل حل ہونا تو شروع ہوئے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو اگلے پانچ سال بھی مارا ماری اور لڑائی جھگڑے کی نذر ہوسکتے ہیں جس سے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے والی ملکی و غیر ملکی قوتوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں جبکہ پاکستان ایسے حالات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اس حوالے سے مسلم لیگ کی حکومت کو اندرون ملک عوام کو اور بیرون ملک امریکہ ،برطانیہ اور سعودی عرب سمیت تمام طاقتوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔ اس وقت پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کی بہتری اور توسیع کے حوالے سے پیش رفت اطمینان بخش ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ گوادر کے بعد چین کی طرف سے انرجی کے بحران کی سپورٹ کے اعلان کو کیسے دیکھتا ہے۔ اس لئے کہ امریکہ بھی کئی سال پہلے پاکستان کو یو ایس ایڈ پروگرام کے ذریعے اس بحران کو حل کرنے کے لئے پیشکش کرچکا ہے۔ اس طرح افغانستان میں امریکہ کی خواہش پر بھارت کی خواہشات کیسے پوری ہوتی ہیں جبکہ افغانستان میں چین معاشی ترقی کے شعبوں میں کافی آگے نکل چکا ہے، غرض نئی حکومت کو اندرون ملک اور بیرون ملک کئی مشکل فیصلے اپنی خواہشات کی قربانی دے کر کرنے ہوں گے۔ نئے بجٹ کے حوالے سے حکومت کو یہ سوچنا ہوگا کہ عام آدمی کی قوت خرید میں بہتری لانے کے لئے کیا کیا جائے کہ اس سے وہ مطمئن ہوسکیں۔ انہیں چند گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کرکے اور سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی اجناس کی قیمتوں کو دو تین سال نہیں تو کم از کم ایک سال کے لئے منجمد کرنے پر غور کرنا چاہئے۔ غیر سیاسی بنیادوں پر سارے ملک میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو از سر نو بنانے کے بعد فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے ملک میں اگر ”اکنامک گورننس“ ٹھیک ہوگی تو مجموعی طور پر گورننس کے حالات میں بہتری آئے گی جس سے امن و امان اور دہشتگردی کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ رول آف لاء پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ ملک میں ٹیکسوں کے نظام پر عوام کا اعتماد بحال کیا جائے اس سلسلہ میں عوام کو دی جانے والی کسی سہولت کو”ریلیف“ کا نام نہ دیا جائے بلکہ اسے عوام کا حق انہیں دینے کا اعلان کیا جائے۔ ”ریلیف“ کا لفظ عموماً قدرتی آفات یا کسی تباہی بربادی کے بعد متاثرہ افراد کی فوری سپورٹ کے حوالے سے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ساری قوم کو ”ریلیف“زدہ نہ بنایا جائے تو اس سے قوم کے وقار اور اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ اندرون ملک معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے عمل کو تیز کرنے کے لئے وفاق، چاروں صوبوں اور اس سے نیچے اکنامک ایڈوائزیری کمیٹیاں بنائی جائیں جو زراعت ،صنعت ،بنکاری، مائیکرو فنانس اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے تجاویز مرتب کریں اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان پر عمل کریں۔پاکستان میں ایک ہزار سے زائد جن میں ریٹائرڈ افراد، بیوائیں، عام تنخواہ دار افراد جن کے اثاثے پانچ کروڑ روپے مالیت سے کم ہیں ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے ”فیملی ٹیکس پیکیج“ بنایا جائے جس میں انہیں اس مالیت کے ماضی کے اثاثوں پر کوئی پوچھ گچھ کے بغیر ٹیکس ریٹرن دینے کی پیشکش کی جائے۔ اس حد میں اگر کسی نے کسی بزنس وغیرہ میں سرمایہ کاری کررکھی ہے تو اسے یہ رعایت نہ دی جائے بلکہ یہ صرف اور صرف نان بزنس سیکٹر کے فیملی ممبران کے لئے ہو۔ اس سے جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد سے ڈیڑھ فیصد اضافہ ایک ہی سٹروک میں ہوسکتا ہے اور دوسری طرف عام افراد جو ٹیکس نیٹ میں آنے سے گھبراتے ہیں وہ آسانی سے ٹیکس سسٹم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی حکومت ملک بھر کے تاجروں کو مجبور کرے کہ وہ جی ڈی پی کے لحاظ سے اپنا موجودہ حصہ جو سات فیصد تک بنایا جاتا ہے اسے کم از کم دو گنا ضرور کریں اس سلسلہ میں جو تاجر جتنا ٹیکس دے اس تناسب سے اسے رعاتیں دی جائیں۔ زرعی شعبہ کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے تمام فارم ہاؤسسز کے کمرشل استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ہر شہر کے ساتھ جڑے ہوئے بڑے بڑے رقبوں اور گھروں کو بھی پورا ٹیکس دینے کی عادت ڈالی جائے۔ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات میں اب ا میر اور کھاتے پیتے افراد کو زیادہ ٹیکس دینے کی طرف آنا ہوگا جیسا کہ امریکہ اور یورپ میں بھی ہورہا ہے اگر ایسا نہ ہوا تو جس امید پر عوام نے انہیں ووٹ دیئے ہیں وہ آہستہ آہستہ اپنے دل اور فیصلے بدلنے پر مجبور ہوسکتے ہیں اس لئے کہ اچھی تقاریر سے پیٹ بھرنے کے دن چلے گئے، اب تو حکومت ہو یا اپوزیشن سب کو ”ڈلیور“ کرنا پڑیگا۔
تازہ ترین