نوازشریف اورآصف علی زرداری کی کرپشن سے پوری قوم کو چیخ چیخ کر آگاہ کرنے والا لیڈرعمران خان،اپوزیشن میں رہ کرکامیاب سیاست کرنے والا عمران خان جس نے کرپشن اور مہنگائی پرعوامی جذبات کا ساتھ دیتے ہوئے اتنے بھرپور انداز میں اپنی سیاسی مہم چلائی کہ اکثریت عمران خان کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگی اور انہیں لگا کہ عمران خان کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ایسا قابل،ایماندارلیڈر عطا کردیا ہے جو اقتدار میں آتے ہی ان کے سارے مسائل حل کردے گا اور ایک عام آدمی کو سہولتیں فراہم کرکے،اسے مہنگائی سے نجات دلا کراور اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے سیاسی لیڈروں سے پاک کرکے پاکستان کو واقعی قائداعظم محمدعلی جناح کا ملک بنا دے گا لیکن عمران خان نے تو پرانے پاکستان کو درست کرنے کی بجائے قوم کو نیا پاکستان بنانے کا خواب دکھایا جہاں سب کچھ عوام کی خاطر،عوام کے لئے اور عوام کی رائے سے ہوگا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے قوم سے جو وعدہ کیا پورا کرکے دکھایا۔شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر ہو یا نمل یونیورسٹی کا قیام،عمران خان نے ثابت کیا کہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینا جانتا ہے پھر ایک کرکٹر کے طور پر بھی اس نے ماضی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ وہ کرکٹ ٹیم کا کپتان بننے کے بعد پاکستان کیلئے دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا اعزاز ’’کرکٹ ورلڈ کپ‘‘ جیت کر لائے گا ۔پاکستان نے پہلی اور آخری بار کرکٹ کا ورلڈ کپ عمران خان کی قیادت میں ہی جیتا اور یہ جیت ہی عمران خان کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی جس کے بعد اس نے اپنے انتہائی عروج کے زمانے میں کرکٹ کو خیر باد کہہ کر سماجی اورسیاسی میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور سماجی میدان میں شوکت خانم کینسر اسپتال اور تعلیمی میدان میں نمل یونیورسٹی بنا کر اپنی قابلیت،اہلیت اورایمانداری کے جھنڈے گاڑ دیے۔
میں ایک بات واضح کردوں کہ میرا شمار عمران خان کے مخالفین میں نہیں بلکہ حامیوں میں ہوتا ہے لیکن کسی سیاسی لیڈر کا حامی ہونے یا اس کو پسند کرنے کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ آپ اس کی خامیوں کی بھی بے تکی تعریف وتوصیف یا دفاع کرنے لگیں۔ انسان چونکہ غلطی کا پتلا ہے اس لئے کسی بھی شخصیت کی محبت یا حمایت میں اتنا آگے نہیں بڑھناچاہئے کہ آپ کا شمار اس لیڈر کے حامیوں کے بجائے چمچوں میں کیا جانے لگے لہٰذا میرے اس کالم کو کسی عمران خان مخالف کالم نویس کی تحریر نہ سمجھا جائے کیونکہ کسی بھی سیاسی لیڈر یا حکمران کے سچے حامی جہاں اپنے پسندیدہ لیڈر کی کامیابیوں کے گن گاتے ہوئے نہیں تھکتے وہاں وہ اپنے لیڈر کے سچے ہمدرد بن کر اسے اس کی خامیوں سے بھی آگاہ کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پربھی اپنے لیڈر کی غلط باتوں کا دفاع نہیں کرتے لیکن جو چمچے ہوتے ہیں انہیں اپنے لیڈر کی کوئی خامی نظرنہیں آتی یا پھر شاید انہیں اس بات کی پیمنٹ ملتی ہے کہ فلاں لیڈر یا حکمران کی مبالغہ آمیز تعریفوں کے ساتھ اس کی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جیسے بھی ممکن ہو، اس کا دفاع کرکے عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں۔ میرا خیال ہے کہ قارئین اب حامی اور چمچے کے درمیان جو فرق ہے، اسے اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے اور اسی تناظر میں میرا شمارعمران خان کے حامیوں میں ضرور ہوتا ہے لیکن میں ان کا چمچہ ہر گز نہیں ہوں ۔
لیکن افسوس کہ عمران خان اقتدار میں آنے اور وزیراعظم پاکستان بننے کے بعد سے لے کر اب تک عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے صرف ایک ہی وعدہ اور دعویٰ پورا کرسکے اور وہ تھا نواز اور زرداری کو رُلانے کا وعدہ جس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے کیونکہ انہوں نے شروع سے ہی اپنی ساری توجہ، صلاحیت اور کوشش اس ایک پوائنٹ ایجنڈہ پر مرکوز رکھی کہ کسی طرح نواز شریف اور آصف زرداری اور ان دونوں کےسیاسی چیلوں کو کرپشن کے الزامات میں جیل ڈال کر ان سے لوٹا ہوا پیسہ وصول کیا جائے اور یہاں بھی عمران خان کو آدھی کامیابی ملی کیونکہ وہ نواز اور زرداری کو جیل میں ڈالنے اور ان کو ڈرانے دھمکانے میں تو سو فیصد کامیاب رہے لیکن ان دونوں سے تا حال ایک روپیہ بھی وصول نہ کرپائے۔البتہ یہاں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ان کی جانب سے کیے گئے چند مثبت اقدامات کی تعریف ضرور کرنی چاہیے کہ انہوں نے غریب اورلاچار طبقے کے لئے مفت پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کا نظام پہلی بار حکومتی سطح پر متعارف کروایا جس سے ایسے نادار اور مفلس لوگوں کو بہت سہولت حاصل ہوئی جو سڑکوں پر سوتے اور بھیک مانگ کر کھانا کھایا کرتے تھے لیکن خان صاحب نے ان کے لیے سونے کے لیے جگہ اور مفت کھانا کھانے کے لیے لنگر خانے کھول کر بےسہارا اور بےآسرا لوگوں کی دعائیں لیں۔ پوری قوم مشکلات میں مبتلا ہے لہٰذا ہم عمران خان کو کامیاب سیاست دان نہیں کہہ سکتے۔