• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچ کا کھوج آسان کام نہیں، یہ اُسی طرح مشکل ہے جیسے سچ بولنا یا سچ کا سامنا کرنا۔ شاید ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا سیاست دان اور ریسرچر، صحافتی و تعلیمی محقق ، خالص تحقیق کو پسِ پشت ڈال کر اپنا اپنا سچ تراش لیتے ہیں، یہ سچ حقیقت کے گرد کم گھومتا ہے اور پاپولر رائے کو اپنا مرکزہ بنالیتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر کامیابی ملنا محال ہوجاتا ہےاور بات ذات کے گرد طواف ہی میں توانائی ضائع کردیتی ہے۔

پچھلے سال انہی شبانہ روز میں، میں ہائر ایجوکیشن کے سندھی سفیر، سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی اور ان دنوں شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور کے وائس چانسلر ڈاکٹر رضا بھٹی کے سنگ سندھ کے مختلف شہروں کی تعلیمی و طبی ترقی کو خوردبینی و دوربینی نظروں سے دیکھتا رہا۔ اس دفعہ فرق یہ تھا کہ تھر کے کوچہ و بازار کے علاوہ زیریں سندھ کے مختلف شہروں میں گھومے جبکہ پچھلے اسٹڈی ٹور میں اپر سندھ کے اضلاع تھے۔ دورانِ سفر جو مَن میں مسلسل رہا وہ یہ کہ ’’تیری وادی وادی گھوموں، تیرا کونا کونا چوموں، تو میرا دلبرجان، تو میرا پاکستان‘‘۔ میں نے اپنے سابقہ کالم میں عرض کی تھی کہ لاڑکانہ بالکل اس دور کے برعکس نکلا جو میں نے ضیائی دور کے پی ٹی وی ڈراموں میں دیکھا، یہ تو سیاسی و تعلیمی و سماجی رنگ میں لاہور ہی کی طرح کا ہے، سکھر میں خورشید شاہ کی ترقی کا زینہ اور ذوق ایسے ہی اوپر جاتا ہے جیسے احسن اقبال کے نارووال کا تاہم وہ گمبٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ اور اسپتال میں جگر کی پیوند کاری کے ساڑھے تین سو کامیاب آپریشن یہ واضح کرتے ہیں اب لیور ٹرانسپلانٹ کیلئے بھارت یا چائنہ جانے کی ضرورت نہیں، پھر یہاں ایک ہی وقت میں ماہرین نے کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ کر دکھائے اُس سے جو دل باغ باغ ہوا، اس کے بیان کو کوئی ہمارا جیالا پن نہ سمجھے، حُب الوطنی یا امید کے جلتے چراغ سمجھے تو عنایت ہوگی۔

عمر کوٹ، مٹھی، اور اسلام کوٹ کے تھری و شادابی علاقوں سے نظریں ملیں اور تھر کے باسیوں سے ہم کلام بھی ہوئے، واللہ جو جو سنتے آئے، اُس سے بہت مختلف پایا، جتنی تیزی سے تھر میں ترقی ہورہی ہے اس پر سندھ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔ ہم نے مانا کہ پی پی پی کا مسلسل تیسرا دور ہے ہم اس ترقی کو آئیڈیل نہیں کہہ سکتے مگر خوشگوار تبدیلی نہ کہنا ناانصافی ہوگا۔ ہماری چشمِ بینا تحریک انصاف و نون لیگ و جی ڈی اے ’’طرز‘‘ کی تو نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ تھر کو تھر کے تناظر، نیاپاکستان، تنقید برائے تنقید زاویوں سے دیکھیں تو تھر کی ’’کہانیاں‘‘ کچھ اور ہیں حقائق کچھ اور، تھر میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پروجیکٹس کے بندھن میں اینگرو گروپ اور حکومتِ سندھ تھری زندگی کی تعمیر و ترقی میں دیرپا کردار ادا کررہے ہیں۔ تھر کول پر کام دیر آید درست آید کے مصداق ہے تاہم ضیاء الحق و محمدخان جونیجو اور نواز شریف کی نسبت اس ضمن میں بےنظیر بھٹو کا یہ وژن اور اقدام آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ واضح رہے کہ بھارت اپنے راجستھانی جڑواں ریگستان سے کوئلہ کب کا نکال کر استفادہ بھی کرچکا۔ ایک ملاقات میں ایچ ای سی کے بانی چیئرمین ڈاکٹر عطاءالرحمٰن نے بتایا کہ بھارت نے ایچ ای سی ہمیں دیکھ کر بنائی مگر ہم پیچھے کیوں رہ گئے؟ کیونکہ بھارت پلیجرزم اور اندھا دھند بےمعنی و بے سود ریسرچ میں ہمارے نقشِ قدم پر نہیں چلا!

لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جام شورو جیسی جاندار دانش گاہ کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر بیکھا رام اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف آپتھامالوجی اینڈ وژئیول سائنسز جیسی منفرد و بےمثال تحقیقی و طبی درس گاہ و علاج گاہ کے ای ڈی ڈاکٹر خالد تالپور سے فریاد کریں گے تحقیق پہلا قرینہ ہے ترقی کے قرینوں میںاپنی نوعیت کے یہ دونوں ادارے پاکستان میں اپنی مثال آپ ہیں مگر ابھی بہت آگے جانا ہے ، امرجنگ گلوبل ٹرینڈز کو مدنظر رکھنے کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ملٹی ورسٹی نظر کو فروغ دیتے ہوئے بلوچستان و پنجاب و کےپی کے سنگ کنسورشیا کو رواج بخشیں۔ مانا کہ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے18 فارمیسی و ٹیکنالوجی و ٹیکنیشن پروگراموں کو ایم بی بی ایس و بی ڈی ایس کے ساتھ چلا رہے ہیں اور یہ قومی ریکارڈ ہے مگر بانجھ ہے وہ یونیورسٹی جہاں تحقیق کے نام پر محقق بیدار نہ ہو، امراضِ چشم کا حیدرآبادی انسٹیٹیوٹ گر الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں تساہل سے کام نہ لے اور پروفیسروں کی کمی کو پوری کرے تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔ ڈاکٹر نیلوفر شیخ کا آرکیالوجی پر کام سندھی ثقافت میں روح پھونکنے کے مترادف ہے اور اِسی طرح وی سی آرٹ، ڈیزائن و ہیریٹیج یونیورسٹی ڈاکٹر بھائی خان اور ڈاکٹر اسلم عقیلی وی سی مہران انجینئرنگ و ٹیکنالوجی سے بھی بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ کیا امیدیں، یہ کہانی پھر سہی!المختصر، پنجاب کے سیاستدانوں کو معلوم ہے ان سے معصوم سا سوال کیا ہے تاہم سندھ کا وفاقی سہرہ سجانا اور قربانیاں دینا صرف بھٹوز ہی کا فرض ہے دیگر وڈیرے اور جیالے سیاستدان اپنا خول کیوں نہیں توڑتے؟

ہرکوئی اپنے حصے کی شمع کیوں نہیں جلاتا؟ ہم پورا ملک، پورا وفاق، اور پورا سچ کیوں نہیں بولتے؟

تازہ ترین