• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم سوتیلی ماں کے بچے ہیں اس لئے پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں، حقیقی ماں سب درد، تمام تکالیف خود سہتی ہے پھر بھی چپ رہتی ہے۔کہتی ہے تو بس اتنا کہ میرے بچے میرے نونہال، ہوگا دنیا میں تو بے مثال مگر سوتیلی ماں کے بارے میں سرائیکی ضرب المثل کوزے میں سمندر سمیٹے ہوئے ہے”ماں مترائی پیو قصائی“(ماں سوتیلی ہو تو سگا باپ بھی قصائی اور جلاد بن جاتا ہے)سوتیلی ماں شعبدہ بازی میں حقیقی ماں سے بہت آگے ہوتی ہے۔مگر اس جھوٹی ممتا اور کھوکھلے پیار سے بچے کا کردار نکھرتا نہیں بگڑتا چلا جاتا ہے۔ سیاست دان نونہالان قوم کیلئے ماں کا درجہ تو رکھتے ہیں مگر سوتیلی ماں جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ قوم کے کھلنڈرے بچوں کو خوش کن نعروں، دل فریب وعدوں اور مسحورکن خوابوں کا لالی پوپ دیتے ہیں۔ان کے دکھ درد میں شریک ہوکر ٹسوے بہاتے ہیں، انتخابی مہم کے دوران جنت ارضی کے نقشے کھینچ کر دکھاتے ہیں۔الٰہ دین کا چراغ جلاتے ہیں مگر اقتدار ملنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر شیریں دکھائی دینے والے یہ اکابرین تو کوڑتمے کی طرح اندر سے کس قدر زہرناک ہیں۔
ہم تو سنتے آئے ہیں کہ ماں قدرت اللہ شہاب کی ہو یا میکسم گورکی، بچوں کا درد یکساں طور پر سمجھتی ہے کیونکہ مائیں توسب کی سانجھی ہوتی ہیں مگر اس آفاقی حقیقت کا اطلاق شاید حقیقی ماؤں پر ہی ہوتا ہے، سوتیلی مائیں مستثنیٰ ہیں۔اس مرتبہ ماں کا کردار نبھانے کیلئے قوم نے میاں نوازشریف کا انتخاب کیا ہے جو میرے قابل احترام بزرگ صحافی کے مطابق دستیاب”ماؤں“ میں سے بہترین ”ماں“ہیں۔ میرا خیال ہے میاں نوازشریف کتاب زیست کے تنگ وتاریک اوراق سے بخوبی واقف ہیں۔ان سے بڑھ کر کسے معلوم ہوگا کہ لیل ونہار کی بے رحم گردشیں اور فلک کج رفتار کی غلط بخشیاں کس قدر ناقابل اعتبار ہوا کرتی ہیں۔ قسمت یاوری کرے تو زمانہ دوسروں کے اوصاف مستعار لیکر ودیعت کر دیتا ہے اور وقت برا چل رہا ہو تو اپنے محاسن بھی چھین لیا کرتا ہے۔گزشتہ دور حکومت میں مدح سراؤں نے انہیں قائد جمہوریت کا خطاب دے ڈالا مگر تخت اور بخت کے منہ موڑتے ہی انہیں خوشامدیوں نے قائد جمہوریت پر آمریت کی پھبتی کسنے اور امیرالمومنین کاطعنہ دینے میں دیر نہ کی۔جو بھلے وقتوں میں ان کے حکمت وتدبر اور فہم وفراست کی مالا جپتے تھے وہ جلاوطنی کے دور میں ان کی مبینہ حماقتوں اور نادانیوں کے قصے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے رہے۔ انہیں وہ وقت بھی یاد ہوگا جب ان کے دولت کدے پر حاجت مندوں کا جھمگھٹا لگا رہتا تھا اور یقیناً میاں صاحب ابتلا و آزمائش کا وہ دور بھی نہیں بھولے ہوں گے جب ان کے”جاں نثار“میاں محمد شریف کی میت کو کندھا دینے کی ہمت بھی نہ کر پائے۔عیش وعشرت کا وہ سنہرا دور تو یقیناً ان کی یادوں کے گلدستے میں نمایاں ہوگا جب لوگ ماڈل ٹاؤن میں ان کی ڈیوڑھی کا طواف کیا کرتے تھے اور رائے ونڈ میں ان کے ہاں حاضری کو سعادت خیال کیا کرتے تھے مگر الم ویاس کی وہ گھڑیاں بھی ذرا ذرا یاد رکھنی چاہئیں جب وہی”عقیدت مند“ان کی گلی کو کوچہٴ یار کے بجائے وادی پُرخار سمجھ کر یوں بھاگتے تھے جیسے کوئی آفت زدہ علاقہ ہو۔جب قدم بڑھاؤ نوازشریف کے نعرے لگتے ہیں تو یقیناً ان کے چشم تصور میں وہ پل بھی جھونکے کی طرح آتے ہوں گے۔جب انہوں نے 12/اکتوبر 1999ء کی شام قدم بڑھا کر پیچھے دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا۔انہیں ڈیگال سے تشبیہ دینے، چرچل کے ہم پلہ قرار دینے اور قائداعظم ثانی کا خطاب دینے والوں کی اب بھی کوئی کمی نہ ہوگی کیونکہ ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے، خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔
وقت کا دھارا بدل چکا ہے کبھی منتخب حکمرانوں کو سمجھانے کیلئے جی ایچ کیو طلب کیا جاتا تھا اور اب یہ عالم کہ عساکر پاکستان کے سربراہ حلف اٹھانے سے پیشتر ہی متوقع وزیراعظم کو بریفنگ دینے ان کے گھر پہنچے…مگر میرا اور آپ کا مسئلہ تو کچھ اور ہے، ہمیں اس بات سے کیا غرض کہ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں کس کا پلہ بھاری رہتا ہے ہماری غرض وغایت تو یہ ہے کہ ممتا کو ترسے فرزندان قوم کو وہ راحت نصیب ہو پائے گی جو کسی طفل کوکب کو آغوش مادر میں ملتی ہے؟کیا ہمارے درد کا درماں ہو سکے گا؟ لوڈشیڈنگ کے عفریت سے نجات مل پائے گی؟ بدامنی کا جن واپس بوتل میں بند ہوسکے گا؟ معاشی انحطاط کے منہ زورگھوڑے کو لگام دی جاسکے گی؟سیاسی مخالفین انتخابی مہم کے دوران میاں شہبازشریف کی یقین دہانیوں اور وعدوں کی جوکلپنگ دکھاتے رہے ان میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی زیادہ سے زیادہ ڈیڈ لائن تین سال تھی۔مگر اب تو بڑے میاں صاحب نے واضح کر دیا کہ یہ سب جذباتی باتیں تھیں اور وہ اپنے چھوٹے بھائی کی طرح کوئی جذباتی وعدہ نہیں کریں گے۔اے عشق مرحبا کہ وہ تبسم اور تکلم کی چوکھٹ سے نکل کر تجاہل اور تغافل کی دہلیز تک تو پہنچے، آگے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہی ریت ہے کہ برسراقتدار آنے سے پہلے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے ہوتے ہیں، نظام بدلنے کی بڑھکیں ماری جاتی ہیں، چٹکی بجاتے ہوئے چند دن میں مسائل کا پہاڑ سر کرنے کی نوید دی جاتی ہے مگر اقتدار ملتے ہی لب ولہجے بدلنے لگتے ہیں۔ مجبوریوں، رکاوٹوں اور بندشوں کی طویل فہرست سامنے آتی ہے۔آٹے دال کا بھاؤ بتایا جاتا ہے، خزانہ خالی ہونے کا جواز بنایا جاتا ہے، عالمی سازشوں کا عذر پیش ہوتا ہے، وسائل کی کمی اور مسائل کی بہتات کا رونا رویا جاتا ہے اور یوں جو حکمران دھاڑتے چنگھاڑتے آتے ہیں شرماتے، منہ چھپاتے اور دامن بچاتے ہوئے نکل جاتے ہیں یا پھر ڈھیٹ بن جاتے ہیں۔آسمان سے تارے توڑ کر لانے والے بعد میں اس تاویل کا سہارا لیتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ تھوڑی ہے کہ ادھر رگڑیں اور اُدھر مسائل حل ہوجائیں۔ آپ میاں صاحب کے انتخابی جلسوں کی تقریریں سن لیں اور گزشتہ ایک ہفتے کے بیانات اٹھا کر سامنے رکھ لیں۔ معلوم ہوجائیگا کہ اس مرتبہ فرزندان قوم کو حقیقی ماں کا پیار مل پائے گا یا نہیں۔
تازہ ترین