• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میانمار (برما) میں فوج نے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس سے یہ مفروضہ غلط ثابت ہو گیا ہے کہ فوجی کودیتا (Coup) کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میانمار کے عوام بھی ایک بار پھر فوجی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آگئے ہیں۔ اس سے یہ مفروضہ بھی کمزور پڑ گیا ہے کہ موجودہ حالات میں دنیا میں بڑی مزاحمتی تحریکیں نہیں چل سکتیں۔

اس طرح میانمار نے آج کے عہد کے دو بڑے سیاسی مفروضے غلط ثابت کر دیے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا صرف میانمار کے مخصوص حالات کی وجہ سے ہوا یا ایسی صورت حال کا اطلاق باقی دنیا پر بھی ہو سکتا ہے؟

میانمار میں عوام کی جمہوری جدوجہد کی تاریخ بہت طویل اور قابلِ رشک ہے۔ حقیقی جمہوریت کی خاطر وہاں کے عوام نے بہت قربانیاں دیں اور تکالیف برداشت کیں مگر وہ بہت بدنصیب ثابت ہوئے۔

1948میں آزادی کے بعد وہ زیادہ تر فوجی حکومتوں کے زیرِ تسلط رہے۔ کٹھن اور طویل جدوجہد کے بعد انہیں 2008میں محدود جمہوریت والا آئین ملا۔ اس آئین کا مسودہ فوج نے تیار کیا اور ’’ریفرنڈم‘‘ کے ذریعے اس کی منظوری لی۔

اس ریفرنڈم میں ’’99فیصد‘‘ ووٹ پڑے اور پوری دنیا نے اسے فراڈ ریفرنڈم قرار دیا۔ اس آئین کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان کا 25فیصد تقرر خود فوج کرتی ہے اور باقی ارکان عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہو کر آتے ہیں۔

آئین میں فوج کو حکومتی امور میں بےپناہ اختیارات حاصل ہیں۔ اسی آئین کے تحت 2010اور 2015میں عام انتخابات ہوئے۔ دونوں مرتبہ جو بھی ’’جمہوری‘‘ حکومتیں قائم ہوئیں، وہ صرف نام کی حکومتیں تھیں۔ انہیں بظاہر اقتدار تو منتقل ہوا لیکن اختیارات منتقل نہیں ہوئے۔

جمہوریت کے ساتھ ’’فلرٹ‘‘ ہوتا رہا۔ اس لولی لنگڑی جمہوریت کے ساتھ فلرٹ بھی ایک عشرہ سے زیادہ نہ چلا اور فوج نے پھر اقتدار پر براہ راست قبضہ کر لیا۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ بلا شرکت غیرے حکمراں ہونے کے باوجود فوج کو مسئلہ کہاں آ رہا تھا؟

2010کے عام انتخابات میں فوج کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت یونین سالیڈیرٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ( یو ایس ڈی پی ) کو کامیابی ملی۔ بیرونی دنیا نے ان انتخابات کو بھی 2008کے ریفرنڈم کی طرح فراڈ قرار دیا۔ یو ایس ڈی پی کی حکومت پانچ سال تک آرام سے چلتی رہی۔

فوج کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ لوگوں میں سخت سیاسی بےچینی موجود رہی اور امریکہ، یورپ اور دیگر ملکوں کی طرف سے میانمار پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد رہیں۔

2015کے عام انتخابات میں مقبول خاتون سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت ’’نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی‘‘ ( این ڈی ایل ) کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔ 2015کے عام انتخابات کو بیرونی دنیا نے میانمار کی تاریخ کے انتہائی شفاف انتخابات قرار دیا لیکن فوج نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ اور فراڈ قرار دیا۔ وہاں کے الیکشن کمیشن میں سینکڑوں انتخابی عذر داریاں ڈالی گئیں۔ سوچی کی حکومت بےاختیار تھی۔ سوچی نے فوج کے ساتھ تصادم کا نہیں ’’مفاہمت‘‘ کا راستہ اختیار کیا۔

این ڈی ایل کی حکومت سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ پارلیمنٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے میانمار کو نیا آئین دے گی جس کے ذریعے حکومتی امور میں فوج کا عمل دخل مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا لیکن این ڈی ایل کی حکومت نے ایسا نہیں کیا۔

سوچی نے فوج کے لئے کوئی مسائل پیدا نہیں کئے۔ یہاں تک کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوج نے جو آپریشن کیا، اس پر سوچی خاموش رہیں۔ اس کے باوجود فوج ان کے ساتھ آرام دہ نہیں تھی۔

ویسے تو ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکہ کے اکثر ممالک میں اسی طرح کی کشمکش جاری ہے، جو میانمار میں ہے۔ 20ویں صدی کے دوسرے نصف میں جن ملکوں میں جمہوری تحریکیں کامیاب ہو گئی تھیں، وہاں بھی جمہوری قوتوں کی فتوحات کا معکوس عمل شروع ہو چکا ہے اور زیادہ تر ملکوں میں جمہوری دساتیر میں تبدیلیاں ہو گئی ہیں اور حکومتی امور میں افواج کے آئینی اور غیرآئینی کردار میں اضافہ ہو چکا ہے۔

تھائی لینڈ کے بعد میانمار میں فوجی کودیتا سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ بہت سے ملکوں میں ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ عالمی سطح پر جمہوری اور بنیادی حقوق کی تحریکیں گزشتہ صدی کی نسبت بہت کمزور ہیں۔ البتہ عوامی مزاحمت کی تحریکوں کا انحصار ہر ملک کے اپنے حالات پر ہے۔ میانمار کے عوام کی مزاحمتی تحریک میانمار کا خاصا ہے۔

اس تحریک نے تھائی لینڈ کی جمہوری تحریک میں بھی جان ڈال دی ہے۔ 1988میں بھی آنگ سان سوچی عوام کی عظیم مزاحمتی تحریک کی قیادت کر رہی تھیں اور آج بھی کر رہی ہیں۔

خوش قسمتی سے ان کے ساتھ وہ نہیں ہوا، جو تیسری دنیا کے اکثر مقبول رہنماؤں کے ساتھ ہوا، یعنی وہ غیرطبعی اموات کا شکار ہوئے یا قتل کر دیے گئے۔ سوچی کی سیاسی جماعت این ڈی ایل نے عوام میں اپنی سیاسی ساکھ کو برقرار رکھا۔

این ڈی ایل کی قیادت کی کوئی کمزوریاں نہیں ہیں اور نہ ہی اِن پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوچی بہت دلیری کے ساتھ میانمار کے عوام سے کہہ رہی ہیں کہ ’’فوجی کودیتا کو قبول مت کرو اور اس کے خلاف بھرپور مزاحمت جاری رکھو‘‘۔

تازہ ترین