• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینک کا دروازہ اندر کی جانب کُھلا، تو سب کی نگاہیں بے ساختہ دروازے کی جانب اُٹھ گئیں۔ یہ ایک پوش علاقے کا بینک تھا۔ اندر داخل ہونے والے صاحب تعلیم یافتہ اور مالی طور پر خاصے خوش حال نظر آرہے تھے۔ چہرے پر منہگا ماسک تھا، لیکن خاصے چھوٹے شارٹس اور چُست شرٹ دیکھنے والوں کو کوفت میں مبتلا کر رہی تھی۔ کچھ نظریں جُھک گئیں، کچھ میں ملامت کا تاثر اُبھر آیا۔ مگر نووارد کے رویّے میں ایک شانِ بے نیازی تھی۔ گویا وہ کسی کو خاطر میں لانے کو تیار ہی نہیں تھے۔ شاید دماغ میں صاحبِ حیثیت ہونے کا خمار تھا۔

آپ اس دُنیا میں اکیلے رہتے ہیں، نہ پوری دُنیا آپ کا بیڈ روم ہے۔ ہمیں ماحول، معاشرے اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اور مہذّب ہونے کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ اپنے گردوپیش رہنے والے تمام افراد کے احساسات کا خیال رکھا جائے۔ معاشرتی اقدار کا احترام کیا جائے۔ بے شک کوئی کتنا ہی تعلیم یافتہ یا صاحبِ حیثیت کیوں نہ ہو، اُسے یہ بات ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہیے کہ لباس اور رویّے، اردگرد کے ماحول کو متاثر کرتے ہیں۔ اور یہ بات ہم کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کرسکتے اور کرنی بھی نہیں چاہیے۔ کیوں کہ معاشرتی اقدار نظر انداز کرکے زندگی نہیں گزاری جاسکتی ۔ لباس، انسان کو اللہ کی جانب سے اس کا جسم ڈھانپنے کے لیے عطا کیا گیا۔

یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں کیا ہے۔ سورۃالاعراف میں اللہ تعالی فرماتے ہیں،’’اے اولادِ آدم! ہم نے تمہیں لباس عطا کیا، تاکہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصّوں کو چھپائے اور تمہیں زینت عطا کرے۔‘‘ اور پھر انسان کی راہ نمائی کے لیے اسے نصیحت کی گئی کہ ’’بہترین لباس، تقویٰ کا لباس ہے۔‘‘ لباس معاشرے کی تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ مشرق کے اپنے پہناوے ہیں اور مغرب کے اپنے۔ ان کے مختلف ہونے کی وجوہ میں موسم کا بھی دخل ہے اور طرزِزندگی کا بھی۔ ہر چند کہ رفتہ رفتہ مشرق و مغرب کے فاصلے کم ہو رہے ہیں اور تہذیبی امتزاج کا رنگ، لباس میں بھی نظر آرہا ہے۔ 

دُنیا تیزی سے جدّت کا سفر طے کر رہی ہے۔ ہر جگہ روایات سے منہ موڑا جا رہا ہے۔ یہ بھی تسلیم کہ اب اس سفر کو روکا نہیں جا سکتا ، مگر یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کے لازوال بنیادی اصولوں اور تہذیب کی بنیادی قدروں کو یک سر فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنا یقیناً ہمارے لیے گھاٹے کا سودا ہوگا، جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہوگا۔ ایک مہذّب معاشرہ لباس کے معاملے میں حیا، اوقات اور جگہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف اصول متعیّن کرتا ہے۔ گھر میں آپ سادہ اور آرام دہ لباس پہنتے ہیں۔ آفس میں اپنی ذمّے داری اور عہدے کی نوعیت کی مناسبت سے کپڑوں اور جوتوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ 

شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات میں شوق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے قیمتی، خوش رنگ اور دیدہ زیب ملبوسات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس غم کے موقعے پر سادہ لباس پہننا موزوں سمجھا جاتا ہے۔ غیر ضروری طور پران سادہ اصولوں کی خلاف ورزی نہ صرف ہماری شخصیت دوسروں کی نظروں میں مسخ کرتی ہے، بلکہ لوگوں کو کوفت میں بھی مبتلا کر سکتی ہے۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ آپ کے بارے میں لوگوں کی کیا رائے ہو گی،اگر آپ ٹریک سُوٹ میں کسی شادی کی تقریب میں شرکت کریں یا نائٹ ڈریس میں دفتر چلے جائیں یا پھر شوخ لباس زیبِ تن کرکے کسی میّت میں شرکت کے لیے پہنچ جائیں؟

لباس کے انتخاب سے متعلق دُنیا بَھر کے فیشن میگزینز میں بہت کچھ لکھا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ شوقین اور شوخ مزاج افراد نت نئے فیشن اپناتے ہیں اور سادہ طبع موزوں لباس میں گزارہ کر لیتے ہیں، مگر ایک مہذّب شہری اور مسلم معاشرے کے فرد ہونے کی حیثیت سے ہمیں لباس میں حیا کے اصولوں کو ضرور مدِنظر رکھنا چاہیے ۔ اورحیا کا اطلاق صرف خواتین پر نہیں، مَردوں پر بھی ہوتا ہے۔ 

مَردوں کے لیے گُھٹنا بھی ستر میں شامل ہے۔ سو، گھر میں بھی اور گھر سے باہر نکلتے ہوئے بھی مَرد و عورت دونوں ہی کو اپنے حلیے اور لباس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔خواتین کے لیےجسم کو درست انداز میں مکمل طور پر چُھپانے والا لباس ہونا چاہیے اور گھر سے باہر جانے کی صُورت میں چادر، گاؤن یا بڑے دوپٹے کا اہتمام ضروری ہے۔ 

اِسی طرح بچّوں کو بھی چاہے لڑکا ہو یا لڑکی موسم اور موقع محل کی مناسبت سے کپڑے پہنائیں۔نوعُمر بچّیوں کے پہناوے ایسے ہوں کہ جسمانی خدوخال نمایاں نہ ہوں۔ زمانے کے رنگ ڈھنگ سے متاثر ہو کر نامناسب لباس پہنانا درست نہیں۔ آج کل ریڈی میڈ ملبوسات میں بھی بچّیوں کے لباس کی بہت ورائٹی موجود ہے، بس حیا اور مذہب کے تقاضوں کا خیال رکھیں، تاکہ معصوم کلیوں جیسی بچیاں شبنم سی پاکیزہ نظر آئیں ۔

یاد رکھیے، لباس ہماری شخصیت، حیثیت، مذہب اور تہذیب و تمدّن کا آئینہ دار ہے،لہٰذا اس کی شفّافیت پر گرد نہ آنے دیں۔ مانا کہ شوق کا کوئی مول نہیں، لیکن ماحول اور معاشرہ بھی ہم سے کچھ تقاضے کرتا ہے۔ سو، ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہی اپنے باشعور اور مہذّب ہونے کا ثبوت دیں۔

تازہ ترین