• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئی عالمی صف بندی اور پاکستان
امریکی صدر، جوبائیڈن، روسی صدر ،ولادیمیر پوٹن، چینی صدر،شی جن پنگ، وزیرِ اعظم ،عمران خان

کیا کورونا ویکسین کی مارکیٹ میں آمد اور ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس سے رخصتی سے دنیا بدل جائے گی؟ یہ سوال رواں برس مختلف انداز میں زیرِ بحث آتا ہی رہے گا۔اگرچہ نو منتخب امریکی صدر، جوبائیڈن نے اپنی نئی خارجہ پالیسی کا اعلان کیا ہے، مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا وہ اسے پوری طرح نافذ کرنے میں کام یاب ہوسکیں گے؟ ابھی تک اُن کا تہنیتی پیغامات کے سِوا بڑی عالمی طاقتوں سے کوئی قابلِ ذکر رابطہ نہیں ہوا، اِس لیے یہ کہنا ذرا قبل از وقت ہوگا کہ اُن کے اقتدار میں آنے سے عالمی منظر نامے میں کیا تبدیلیاں رُونما ہوسکتی ہیں۔

غالباً چین اور روس اِسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ امریکا نئی پالیسی کے ساتھ کُھل کر سامنے آتا ہے یا پھر اُس نے صرف ایک پالیسی بیان دے کر اپنے اندرونی معاملات نمٹانے ہی کی طرف توجّہ مرکوز رکھنی ہے۔اگر دیکھا جائے، تو کورونا وبا سے اب تک امریکا چھٹکارا پا سکا ہے اور نہ ہی یورپ اس پر مکمل طور پر قابو پانے میں کام یاب ہوسکا۔البتہ ،ویکسین آنے سے وہاں جو اعتماد کی فضا دیکھنے میں آئی، وہ ضرور غیر معمولی ہے۔

اِس اعتماد کا ایک اقتصادی مظاہرہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، جہاں تیل کی قیمتوں نے دوبارہ بلندی کی طرف جانا شروع کر دیاہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں چین اور روس ایک دوسرے سے فاصلے پر رہے، لیکن اب وہ دونوں بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ اگر اُن کے علاقے میں امریکا کی جانب سے نئی تبدیلیاں ہونے والی ہیں، تو کیا اُنہیں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہونا چاہیے؟تاہم،یورپ، امریکا کا مضبوط اتحادی تھا، ہے اور آیندہ بھی رہے گا اور یہی معاملہ برطانیہ کا ہے۔

چین نے کورونا وائرس کے تباہ کُن اثرات سے سب سے پہلے نجات پائی اور اُس کی معیشت نے تیز رفتار ترقّی کے ریکارڈ قائم کیے۔نیز، مالیاتی اداروں کے مطابق ایک نہایت حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ وہ اس تیز رفتار ترقّی کو برقرار رکھنے میں کام یاب بھی نظر آتا ہے۔چین کی اس کارکردگی کی وجہ سے عالمی معیشت کی سُست رفتاری بھی ختم ہونے کو ہے۔چین نے کورونا کے سدّ ِباب کے لیے ویکسین بھی تیار کی ہے، جسے وہ نہ صرف اپنے شہریوں کو لگا رہا ہے، بلکہ بہت سے دوسرے ممالک کو بھی دے رہا ہے۔ان ممالک میں مشرقِ وسطیٰ اور افریقا کے مُلک قابلِ ذکر ہیں، جب کہ اس کا پڑوسی اور اہم دوست پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے، جسے اُس نے مفت ویکسین فراہم کی۔چین نے ٹرمپ کی رخصتی اور جوبائیڈن کے صدر بننے پر کسی قسم کے غیر معمولی ردّ ِعمل کا اظہار نہیں کیا۔

دوسرے الفاظ میں وہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ شخصیتوں کی تبدیلی اُس کے لیے( امریکا کی حد تک) کوئی معنی نہیں رکھتی، حالاں کہ اگر ٹرمپ کا دور دیکھا جائے، تو چین اور امریکا’’ ٹریڈ وار‘‘ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔بلاشبہ، امریکی عوام کو اس ٹریڈ پالیسی سے فائدہ ہوا، کیوں کہ چین کے سَستے مال پر ٹیکس لگنے سے امریکا کا مال بھی مقابلے پر آگیا اور وہاں صنعتی عمل کو فروغ ملا، جس سے روزگار کے مواقع بڑھے۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار سے محرومی کے باوجود اس کے حامی اب بھی ساتھ کھڑے ہیں۔ چین چاہتا ہے کہ جوبائیڈن کے زمانے میں ٹریڈ وار جیسی کشیدگی ختم ہو اور بڑی حد تک اوباما دَور کی پالیسیز بحال ہوجائیں، لیکن شاید ایسا ہونا آسان نہیں، کیوں کہ ٹرمپ نے اوباما دَور کے پانچ ارب ڈالرز کے خسارے پر اِس قدر شور مچایا تھا کہ یہ ایشو امریکی عوام کے ذہن سے محو کرنا ممکن نہیں ہوگا۔اگر جوبائیڈن چین سے مفاہمت کی راہ اختیار کرتے ہیں، تب بھی اُنہیں بہت احتیاط سے فیصلے کرنے ہوں گے۔

وہ کسی بھی صُورت چین کو اوباما دَور کی طرح تجارتی توازن بگاڑنے کا موقع نہیں دے سکتے۔اگر امریکا کا اقتصادیات کے علاوہ کسی اور محاذ پر چین سے مقابلہ ہوگا، تو وہ جنوب مشرقی ایشیا ہے۔جاپان اور جنوبی کوریا سمیت اِس خطّے کے بیش تر ممالک امریکا کے اتحادی ہیں۔یہاں امریکا کے اتحادی ممالک کی فہرست میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، تھائی لینڈ، سنگاپور، تائیوان، فلپائن، انڈونیشیا، ویت نام اور ہانگ کانگ جیسی اُبھرتی معیشتیں بھی شامل ہیں۔دراصل، ٹرمپ نے شمالی کوریا سے سینگ لڑانے کے بعد اِس خطّے میں ایک دوستانہ پالیسی کا آغاز کیا اور اس جزیرہ نما کو نیوکلیئر فِری زون بنانے کی جانب پیش قدمی کی۔

اس پالیسی میں جاپان اور جنوبی کوریا نے مرکزی کردار ادا کیا۔ گو کہ جاپان کو کم جونگ ینگ سے بہت سی شکایات تھیں، لیکن شنزو ایبے، ٹرمپ کے سب سے اہم اتحادی بن کر کھڑے ہوگئے۔ اب شنزو ایبے بھی اقتدار سے رخصت ہوچکے ہیں اور ٹرمپ بھی۔ جوبائیڈن کو جاپان کی غیرمعمولی اہمیت کا پوری طرح ادراک ہے، کیوں کہ وہ اوباما دَور میں اُس منصوبے میں شامل رہ چُکے ہیں، جس کا مقصد امریکا کی مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا کی بجائے جنوب مشرقی ایشیا پر توجّہ مرکوز کرنا تھا۔اوباما نے اس سلسلے میں کچھ بنیادی اقدامات بھی کیے، جس کے تحت ایک طرف جاپان کو دوبارہ فوجی قوّت بننے میں مدد دی گئی، تو دوسری طرف اُسے بھارت کے بھی قریب لانے کی کوشش کی گئی۔

امریکا کا خیال ہے کہ اُس کا چین سے اصل مقابلہ مشرقی ایشیاہی میں ہوگا، اِسی لیے وہ چاہتا ہے کہ بھارت سے لے کر جاپان تک اتحادیوں کا ایک ایسا مضبوط گروپ بن جائے، جو چین کی بڑھتی طاقت کے آگے بند باندھ سکے۔اِسی لیے جوبائیڈن نے سب سے پہلے بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر بھارت، امریکا کی اس پالیسی کا ساتھ دیتا ہے، تو اُسے بہت سی رعایتیں دی جاسکتی ہیں۔تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا چین اس امریکی صف بندی سے بے خبر ہے اور وہ اس پر کوئی توجّہ نہیں دے رہا؟ ایسا نہیں ہے۔صدر شی جن پنگ کی شروع ہی سے یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ جاپان کے خلاف سخت موقف رکھنے کے باوجود اقتصادی تعلقات معمول پر رکھنا چاہتے ہیں۔

بلاشبہ، اُنہیں جاپان کے غیرفوجی کردار کو خیرباد کہنے پر شدید تحفّظات ہیں، لیکن وہ اسے کسی تنازعے یا فوجی تصادم میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔اسی لیے شنزو ایبے جیسے قوم پرست کی موجودگی کے باوجود چین اور جاپان کسی غیرمعمولی تلخی کا شکار نہیں ہوئے۔شمالی کوریا کے معاملے میں بھی چین کی پالیسی مفاہمت ہی کی رہی اور اُس نے ٹرمپ کی کم جونگ سے ملاقاتوں میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، حالاں کہ چین، شمالی کوریا کا واحد اتحادی ہے اور وہاں کے صدرکم، ٹرمپ سے ملاقات سے قبل چینی رہنمائوں سے مل چکے تھے۔

دوسری طرف،اس خطّے میں روس کا کردار سکڑتا جا رہا ہے اور اب اُس کی وہ پوزیشن نہیں رہی، جو کاسترو اور ویت نام کی جنگ کے زمانے میں تھی، لیکن پھر بھی وہ یہاں کم ازکم اصولی طور پر امریکا کے مقابلے میں چین ہی کا ساتھ دے گا۔ 

اِس حمایت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاید اُسے مِڈل ایسٹ میں پھر پیر رکھنے کی جگہ مل جائے۔اوباما کے دوسرے دَورِ اقتدار میں شام میں امریکا نے پیوٹن کو ایک غیر رسمی معاہدے کے تحت اجازت دی تھی کہ وہ صدر اسد کی افواج کو کام یابی سے ہم کنار کرے، حالاں کہ شروع میں امریکا ہی نے شامی اپوزیشن کو اسد انتظامیہ کے خلاف منظّم کیا تھا، لیکن بعد میں داعش کی آڑ میں اس پالیسی سے دست بردار ہوگیا اور شامی اپوزیشن کو شکست دیکھنا پڑی۔نہ جانے یہ اوباما کا کوئی اپنا منصوبہ تھا یا پھر پیوٹن اُنہیں یہ یقین دِلانے میں کام یاب رہے تھے کہ اگر امریکا، مشرقِ وسطیٰ سے پیچھے ہٹے، تو روس اُس کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچنے دے گا، لیکن ٹرمپ نے یہاں کے عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب سے تعلقات بحال کر کے علاقے کی سیاست یک سَر بدل دی۔ 

اُنہوں نے عربوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرنے میں معاونت کی، جس نے جوبائیڈن کے سامنے ایک نیا منظرنامہ رکھ دیا ہے، جو اوباما دَور سے مختلف ہی نہیں، مکمل طور پر الٹ بھی ہے۔جوبائیڈن کہہ چُکے ہیں کہ وہ ایران سے نیوکلیئر ڈیل پر دوبارہ مذاکرات کریں گے، تاہم ایران نے یورینیم کی افزودگی بڑھا کر اُن کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔اب وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ جب تک ایران گزشتہ ڈیل کی تمام شرائط پوری نہیں کرتا، اُس پر عاید پابندیاں اُٹھانا ممکن نہیں، جب کہ ایران کا موقف ہے کہ پابندیاں اُٹھنے کے بعد ہی شرائط پر بات ہوسکتی ہے۔

روس اور ایران، شام کے معاملے میں بہت قریب رہے ہیں۔اُن کے فوجی آپریشنز بھی مشترکہ تھے،نیز، روس نے ایران کی نیوکلیئر ڈیل کی بھی ہمیشہ حمایت کی، یہاں تک کہ امریکا کے معاہدے سے نکلنے کے بعد بھی وہ ایران کے ساتھ رہا۔روس کے اسرائیل سے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔دونوں ایک دوسرے سے عسکری اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کرتے ہیں۔یہی حال چین کا ہے، اُس کے بھی عرب ممالک سے اچھے تعلقات ہیں۔سعودی عرب اُس کا تیل کا بنیادی سپلائلر ہے، جب کہ عرب ممالک میں اُس کے مال کی وسیع منڈیاں بھی موجود ہیں۔یوں وہ بھی اب نئے تعلقات کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

ظاہر ہے، ایسی صُورت میں اگر امریکا دوبارہ کسی نیوکلیئر ڈیل کا حصّہ بنتا ہے، تو پھر روس اور چین کو بھی عربوں اور اسرائیل کے تحفّظات پر توجّہ دینی ہوگی کہ وہ اُن کے اتحادی ہیں۔ عرب،اسرائیل تعلقات خطّے میں مرکزی حیثیت بن کر ابھر سکتے ہیں اور دنیا کو مشرقِ وسطیٰ سے متعلق پالیسی اسی تناظر میں بنانی پڑے گی۔صرف عالمی طاقتیں ہی نہیں، پاکستان کو بھی اپنی پالیسیز میں عرب، اسرائیل معاملات پیشِ نظر رکھنے ہوں گے۔یہ صُورتِ حال ایران کے لیے بہت اہم ہوگی اور دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے پتّے کیسے کھیلتا ہے؟یاد رہے، ایران میں یہ انتخابات کا سال ہے اور صدر روحانی کو، جو معیشت کی بحالی کے نعرے پر منتخب ہوتے آئے ہیں، خطّے میں ان دھماکا خیز تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد خطّے میں روس اور چین کی دِل چسپی بڑھ جائے گی کہ وہ عالمی طاقتیں ہونے کے ساتھ علاقائی طاقتیں بھی ہیں۔دوسری طرف کابل کو اقتصادی بحالی کے لیے امداد اور سرمائے کی ضرورت ہوگی۔سیاسی طور پر تو چین اور روس ایک پالیسی اپنا سکتے ہیں، لیکن یہاں بھارت بھی موجود ہے، جس کے افغانوں سے دیرینہ تعلقات ہیں۔اُس نے امریکی موجودگی میں بھی یہاں بہت سرمایہ کاری کی اور دوسو کے قریب ترقیّاتی منصوبوں میں حصّہ لے رہا ہے۔ اس کے علاوہ، افغان بیورو کریسی کی تربیت میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔اِس معاملے پر پاکستان، امریکا سے شاکی بھی رہا، لیکن اس کی اقتصادی کم زوری نے اُسے افغان بحالی کے عمل میں کسی بڑے کردار سے روک رکھا ہے۔

غالباً وہ یہ سمجھتا ہے کہ چین جیسی معاشی طاقت اُس کی نعم البدل بن کر افغانستان میں اُس کے مفادات کی حفاظت کرسکتی ہے، اسی لیےعین ممکن ہے کہ چین، روس اور پاکستان مل کر کوئی گروپ بنالیں۔دیکھنے کی ایک چیز یہ بھی ہے کہ طالبان اور امریکا کے مابین معاہدے اور پھر طالبان، افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں اسلام آباد نے جو سہولت کاری کی، قیامِ امن کے لیے جو غیرمعمولی کردار ادا کیا، وہ نئی امریکی پالیسی میں کس نظر سے دیکھا جائے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہاں سے پھر ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے ہونے لگیں۔جوبائیڈن، روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں سے تو مفاہمانہ رویّے کی بات کرتے ہیں، لیکن کیا وہ پاکستان کے معاملے میں بھی یہی طریقۂ کار رکھیں گے اور ٹرمپ کے زمانے میں دونوں ممالک کے تعلقات میں جو بہتری آنا شروع ہوئی تھی، کیا وہ مزید آگے بڑھے گی؟ 

نئی امریکی انتظامیہ کا پاکستان سے پہلا رابطہ ڈینیل پرل کے معاملے پر ہوا اور وہ کچھ زیادہ خوش گوار نہیں تھا، جب کہ اِس کے مقابلے میں جوبائیڈن نے بھارتی وزیرِ اعظم سے فون پر وسیع تر تعاون پر بات کی۔ امریکا کی پوری کوشش ہوگی کہ اُس کے افغانستان سے جانے کے بعد جو بھی نئی صُورتِ حال سامنے آئے، اُس میں بھارت کا بھی کردار ہو۔روس اور بھارت کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں، جب کہ تمام تر تنازعات کے باوجود چین اور بھارت کے درمیان تجارت ایک سو بلین ڈالرز ہے۔دونوں ممالک میں سے کوئی بھی اِس تجارتی مفاد کو نظر انداز نہیں کرسکتا کہ اس پر اُن کی معیشت کا انحصار ہے۔بدقسمتی سے اسلام آباد نے معیشت کی بجائے جیو اسٹریٹیجی پر زیادہ توجّہ مرکوز رکھی اور شاید اب تک وہ اسی پالیسی پر قائم ہے۔

بردار مُلک، دیرینہ پڑوسی اور مذہبی رشتوں کا ذکر تو بہت کیا جاتا ہے، لیکن جس میدان میں عملی کام کرنے کی ضرورت تھی، اُس پر توجّہ ہی نہیں دی گئی۔مشرقِ وسطیٰ سے جنوبی ایشیا تک جو نئی صف بندی ہوگی، اُس میں بھی معیشت ہی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔اگر چاروں اطراف نگاہ دوڑائیں، تو بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا اور افغانستان معاشی ترقّی ہی کو اپنا مرکزی ہدف قرار دے رہے ہیں۔ 

اُدھر مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیاء کا بھی یہی حال ہے۔لہٰذا، پاکستان کو بھی اسی پس منظر میں اپنی سمت درست کرنی ہوگی، اِس سے قبل کے دیر ہوجائے۔درحقیقت، معاشی ترقّی ہی ایک ایسا اصول ہے، جس پر ممالک کے مابین تعلقات قائم ہوتے ہیں۔مستقبل کی عالمی صف بندی کی بنیاد بھی یہی اصول ہے، تو کیا اسلام آباد اِس ضمن میں کچھ تیاریاں کر رہا ہے؟

تازہ ترین