• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: عالیہ کاشف عظیمی

’’برص‘‘ (عرفِ عام میں پھلبہری) بظاہر ایک بے ضرر بیماری ہے، لیکن حقیقتاً مَرد و خواتین کی ایک بڑی تعداد اس کے باعث شدید قسم کے ذہنی و نفسیاتی دبائو کا شکار ہے، خصوصاً بچّے، بچّیاں یا نوجوان لڑکے، لڑکیاں تو ان سفید دھبّوں کو گویا ’’کلنک کا ٹیکا‘‘ سمجھتے ہیں کہ جن کے سبب اُن کی پوری شخصیت ہی کا تاثر خراب ہوکے رہ جاتا ہے۔ گرچہ یہ مرض موروثی ہے اور نہ ہی کچھ خاص تکلیف دہ اور خطرناک، یہ جِلد کی کسی خرابی یا ڈس آرڈر کے نتیجے میں لاحق ہوتا ہے اور مختلف افراد میں اس کی علامات مختلف ہوسکتی ہیں۔ 

عمومی طور پر جِلد چھوٹے چھوٹے سفید دھبّوں سے بَھر جاتی ہے اور ایسا میلانن کی (وہ بھورا یا سیاہ رنگ، جو جسم کے خلیے پیدا کرتے ہیں اور جن سے جِلد کا رنگ متعیّن ہوتا ہے) کمی کے باعث ہوتا ہے۔ برص میں مبتلا افراد کی جِلد سورج سے متاثر ہوسکتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ایسا سب کے ساتھ ہو۔ کچھ لوگوں میں یہ سفید دھبّے چند مخصوص مقامات ہی تک محدود رہتے ہیں اور کچھ میں تیزی سے پھیلتے ہوئے چہرے، ہاتھ، پیروں اور جسم کے دوسرے حصّوں میں نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ بڑھتی عُمر کے ساتھ بڑھئے، تو کبھی گھٹنے بھی لگتے ہیں۔ برص کی وجوہ سے متعلق آج بھی کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی بلکہ ماہرین کے مطابق تو اس ڈس آرڈر کے شکار ہر شخص کا کیس، دوسرے سے منفرد اور مختلف ہوسکتا ہے۔

دُنیا کے دیگر مُمالک کی نسبت جنوب ایشیائی یا کم ترقّی یافتہ مُمالک میں معلومات کے فقدان کے باعث اس ڈس آرڈر کے شکار افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایات زیادہ عام ہیں، خاص طور پر اگر یہ دھبّے کسی لڑکی کی جِلد پر نمودار ہوجائیں تو اُس کی تو شخصیت ہی کو نہیں، گویا کردار کو بٹّا لگ جاتا ہے۔ والدین کی راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں، ’’آئے ہائے!لڑکی کو پھلبہری ہوگئی، اب کیا ہوگا.....؟؟‘‘ اس جملے کے ساتھ اتنا بڑا سوالیہ نشان لگا دیا جاتا ہے، گویا برص نہ ہوا، ناسور ہوگیا۔ 

یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہی ہے کہ پھر ان بچّیوں پر ہر نگاہ ترس یا حقارت بَھری ہی اُٹھتی ہے اور اس ضمن میں اہلِ خانہ، دوست احباب، اہلِ محلّہ سے لے کر معاشرے کے ہر دوسرے فرد تک کا رویّہ زیادہ تر منفی ہی نظر آتا ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب بات لڑکی کے بیاہ شادی کی ہوتی ہے، تو یہ سفید دھبّے گویا سیاہ داغ بن جاتے ہیں، جو کسی انتہائی قابل، نیک سیرت، سگھڑ، ذہین ترین لڑکی کی بھی سب صفات، خُوبیوں پر غالب آسکتے ہیں۔ گرچہ آج 21ویں صدی میں بھی اس قسم کی سوچ رکھنا برص سے کہیں زیادہ خطرناک مرض ہے، لیکن حقیقت یہی ہے۔

صدشُکر کہ شعبۂ طب کی تیز رفتار ترقّی نے آج کم از کم ماہرین کو اُس جگہ پر تو لاکے کھڑا کردیا ہے، جہاں بہت سے غلط تصوّرات، توہمّات کو سائنسی بنیادوں پر غلط ثابت کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ڈاکٹر ایس ایم معین الدّین معروف ماہرِ امراضِ جِلد ہیں۔ انھوں نے 1984ء میں ڈائو یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی سے طب کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یونی ورسٹی آف ویلز کارڈیف، برطانیہ سے ڈرمٹالوجی میں ڈپلوما کیا۔بعد ازاں، رائل سوسائٹی آف ہیلتھ ڈیزیزز، لندن سے فیلوشپ بھی کی۔ لیاقت نیشنل اسپتال، کراچی سے بطور سینئر رجسٹرار اور کنسلٹنٹ ڈرمٹالوجسٹ منسلک رہے۔ بقائی اسپتال، کراچی میں بھی کنسلٹنٹ ڈرمٹالوجسٹ کی خدمات انجام دیں۔ 

اِنھیں وزارتِ صحت کی باقاعدہ اجازت سے کراچی میں پہلی بار ایستھیٹک میڈیسن(جو جھائیوں، داغ، دھبّوں اور مختلف نشانات سے نجات اور چہرے کی شادابی کے لیے مستعمل ہیں) متعارف کروانے، نیز، برص کے علاج کے لیے یو وی بی نیرو بینڈ تھراپی(UVB Narrow Band Therapy)استعمال کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ڈاکٹر معین الدّین اِن دِنوں بقائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈائی بیٹالوجی اینڈ اینڈوکراینالوجی، ناظم آباد، کراچی(Baqai Institute of Diabetology and Endocrinology)سے منسلک ہیں۔انھوں نے ہم سے برص کی علامات، علاج، احتیاطی تدابیر،عمومی معاشرتی رویّوں اورکئی غلط مفروضات، توہمّات کے خاتمے کے ضمن میں تفصیلی گفتگو کی، جس کا احوال سوال و جواب کی صُورت پیش ہے۔ نیز، علاج سے صحت یاب ہونے والے چند بچّوں کے والدین کے تجربات بھی شامل کیے جارہے ہیں۔

س: برص کیا ہے، اس کے محرّکات، عوامل کیا ہوسکتے ہیں؟

ج: برص دراصل ایک ڈس آرڈر ہے، جس کے نتیجے میں جِلد کے میلانن (Melanin) ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ میلانن، جنہیں پِگمنٹس (Pigments) بھی کہا جاتا ہے، ان کا کام جِلد کی رنگت برقرار رکھنا ہے۔اب جس جگہ کے پِگمنٹس ختم ہوجائیں یا مزید بننے کا عمل رُک جائے، تو وہاں سفید دھبّا پڑ جاتا ہے۔ اس ڈس آرڈر کی ابتدا عموماً ایک چھوٹے سے سفید دھبّے سے ہوتی ہے،جو پھربتدریج پورے جسم پر پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ ویسے تو یہ دھبّے زیادہ ترہاتھ، پاؤں، چہرے اور ہونٹ پر ظاہر ہوتے ہیں،لیکن کچھ افراد میں جسم کا کوئی بھی حصّہ متاثر ہوسکتا ہے۔

س: ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ برص چھوت کاعارضہ ہے،کیا ایسا ہی ہے اوراس میں موروثیت کا کس حد تک عمل دخل ہے؟

ج: یہ کہنا کہ برص چھوت کاعارضہ ہے، ہرگز درست نہیں۔رہی بات موروثیت کی تو 5سے10فی صدکیسزمیں کسی حد تک موروثیت کا عمل دخل ہوتا ہے۔

س:اس ڈس آرڈرکی کتنی اقسام ہیں اور کون سی قسم شدید نوعیت کا باعث بن سکتی ہے؟

ج: برص کی تین بنیادی اقسام ہیں۔ پہلی قسم"Focal Vitiligo" میں جسم کے ایک مخصوص حصّے پر سفید دھبّے ظاہر ہوتے ہیں۔ دوسری قسم "Segmental Vitiligo" میں یہ جسم کے کسی ایک حصّے کو نشانہ بناتا ہے، باقی جسم محفوظ رہتا ہے، جب کہ تیسری قسم"Generalized Vitiligo"میں سفید دھبّےپورےجسم پر پھیل جاتے ہیں۔اوریہی قسم شدید نوعیت کی ہے۔ اگرچہ یہ قسم بھی علاج سے ٹھیک ہوجاتی ہے، لیکن ہاتھوں، پاؤں اور ہڈیوں کے اوپر جو سفید دھبّے پڑجاتے ہیں، اُن کے ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔

س:ابتدائی علامات کیا ہوتی ہیں، جن کی بدولت تشخیص ممکن ہوسکے؟

ج: برص کے دھبّے چاک کی مانند سفید ہوتے ہیں اور یہی مخصوص رنگت، دیگر جِلدی عوارض کی نسبت تشخیص میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ برص کے دھبّے کا کونا محدب شکل(Convex Shape) کا ہوتا ہے،جس کے کنارے جِلد کے براؤن حصّے سے مِلے ہوتے ہیں۔ دھبّے کا حجم5ایم ایم سے5سینٹی میٹر تک ہوسکتا ہے۔اور یہ عموماً گول، وی یابیضوی شکل کا ہوتا ہے اور بعض اوقات لمبائی میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔ اگر جسم کے کسی حصّے پر چوٹ کا نشان ہو، تو وہاں بھی نمودار ہونا ممکن ہے۔

س: کیا یہ سَر کی جِلدپر بھی اثر انداز ہوتا ہے؟

ج: جی بالکل ، برص سَر کی جِلد پر بھی اثرانداز ہوسکتا ہے۔ اگر سَر کی جِلد پر سفید دھبّوں کی تعداد کم ہو تو پھربال سفید نہیں ہوتے،بصورت ِدیگر سَر کی جِلد ہی نہیں، بال بھی سفید ہوجاتے ہیں۔

س: پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں اس کے پھیلائو کی شرح کیا ہے؟

ج: پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں اس کے پھیلائو کی شرح ایک سے دو فی صد تک ہے۔

س: کیا ہر عُمر کے افراد اس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا پھر یہ کسی خاص عُمر میں ظاہر ہوتا ہے؟

ج: ویسے تو اس کے لاحق ہونے میں عُمر اور جنس کی کوئی قید نہیں۔ تاہم، زیادہ تر افراد20سال سے قبل برص میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور کم کیسز ایسے ہیں، جن میں40سال کی عُمر میں یہ ڈس آرڈر ہوا ہو۔

س: برص کی تشخیص کا سب سے موثر طریقۂ کار کیا ہے؟علاج کی کام یابی کی شرح کتنی ہے؟

ج: بیرونِ مُمالک میں تشخیص کے لیے بائیوآپسی تجویز کی جاتی ہے، لیکن ہمارے یہاں لوگ بائیوآپسی سے ڈرتے ہیں۔اس لیےزیادہ تر کیسز میں دھبّا دیکھ کر ہی تشخیص کرلیا جاتا ہے۔ اگر متاثرہ فرد معمولی سا سفید دھبّا ظاہر ہونے پر معالج سے رجوع کرلے تو ماہ، ڈیڑھ ماہ اُسے زیرِ نگرانی رکھا جاتا ہے اور اس عرصے میں حتمی تشخیص ہوجاتی ہے۔ پہلے کبھی برص لاعلاج تصوّر کیا جاتا تھا، لیکن اب جدید علاج کی بدولت چاہے سفید دھبّے تعداد میں کم ہوں یا زیادہ، قابلِ علاج ہیں۔ ماضی میں علاج کی کام یابی کی شرح صرف5فی صد تھی،مگر اب یہ شرح 80سے90فی صد تک ہے۔

س:علاج کے کون کون سے جدید طریقے رائج ہیں اور سب سے مستند طریقۂ علاج کون سا ہے؟

ج:ماضی میں علاج کے لیے ایک مخصوص مرہم استعمال کیا جاتا تھا اور اب بھی کئی کیسز میں اس کا استعمال انتہائی مؤثر ثابت ہوتا ہے۔تاہم، موجودہ دَور میں اس کا انتہائی مؤثر علاج "UVB Narrow Band Therapy"ہے۔یہ ایک فوٹو تھراپی مشین ہے، جس سے ٹیوب لائٹ کی روشنی جیسی شعائیں خارج ہوتی ہیں۔ اس طریقۂ علاج میں کسی قسم کی دوا استعمال کی جاتی ہے، نہ اس کےکوئی مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔یہ اس قدر آسان طریقۂ علاج ہے کہ گھر میں بھی کیا جاسکتا ہے۔دوسرا طریقۂ علاج "Autologous Skin Grafts"کہلاتا ہے۔ 

اس میں متاثرہ فرد کے جسم سے نارمل جِلد کا کچھ حصّہ لے کر سفید دھبّے کی پیوندکاری کی جاتی ہے اور تیسرا طریقۂ علاج "Autologous Melanocyte Transplant" ہے،جس میں جِلد کے نارمل پِگمنٹ کا نمونہ حاصل کرکے ایک مخصوص لیبارٹری ڈش میں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔پھر اس میں Special Cell Culture Solutionڈالا جاتا ہے، تاکہ Melanocytesکی افزایش ہوسکے۔بعد ازاں، اسے سفید دھبّوں میں انجیکٹ کردیا جاتا ہے،جس کے نتیجے میں یہ دھبّے ٹھیک ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

س:برص کا علاج کتنے عرصے پر محیط ہے اور کیا علاج کے بعد دوبارہ ہوجانے کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں؟

ج:عمومی طور پربرص کے علاج کا دورانیہ 3سے 5ماہ ہے۔تاہم، بعض کیسز میں دورانیہ بڑھ بھی سکتا ہے، خاص طور پر جن افرادمیں یہ دھبّے ہاتھوں، پاؤں اور ہڈیوں کی جِلد پرہوں۔ ابتداً یو وی بی نیرو بینڈ تھراپی کےہفتے میں تین سیشن کیے جاتے ہیں، مگر جب دھبّے کم ہونے لگیں تو سیشنز بھی کم ہوجاتے ہیں۔ رہی بات علاج کے بعد برص کے لوٹ آنے کے امکانات کی،توہم نے ایک سال کے دوران تقریباً ڈھائی سو سے تین سو افراد کا علاج کیا، جن میں سے تین چار ہی ایسے تھے، جو دوبارہ برص کا شکار ہوئے۔ پھر اُن کا دوبارہ علاج اِسی تھراپی میں کچھ ردو بدل کے ساتھ کیا گیا اور الحمدللہ اب وہ بالکل ٹھیک ہیں۔

س:اخراجات سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج: دُنیا بَھر کی نسبت پاکستان میں یو وی بی نیرو بینڈ تھراپی کے اخراجات بہت کم ہیں۔اس تھراپی کا ایک سیشن ایک ہزار روپے کا ہوتا ہے۔ بعض افراد ایک دِن میں دو سیشن کرواتے ہیں، تو وہ دو ہزارروپے ادا کرتے ہیں۔

س:کیاپاکستان میں ہر سطح تک،خصوصاً سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہیں؟

ج:پاکستان، خصوصاً کراچی میں پہلی بار یہ طریقۂ علاج ہم نے متعارف کروایا۔ جب کہ سندھ بَھر میں، بشمول کراچی برص کے علاج کے صرف تین اسپتال ہیں، جہاں رش کے باعث باری آنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ اور سرکاری اسپتالوں میں بھی علاج میں استعمال ہونے والے مرہم وغیرہ خود ہی خریدنےپڑتے ہیں۔

س:ایک بار علاج کے بعد کیا زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے؟

ج: جی بالکل۔یوں سمجھ لیں کہ جب کوئی نیا پودا زمین سے پُھوٹتا ہے، تو اس کی ٹہنی، شاخ اورپتّے وغیرہ بہت نرم و نازک ہوتے ہیں، اس پودے کو مضبوط ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے، تو ایسا ہی معاملہ متاثرہ فرد کی جِلد کا ہے۔ ابتدا میں جِلد کوخاص طور پر سورج کی شعاؤں سے محفوظ رکھا جاتا ہے، تاکہ پِگمنٹس متاثر نہ ہوں۔ ایسے افراد کو پیکٹس فوڈز جیسے چپس وغیرہ کے استعمال سے بھی منع کیا جاتا ہے، کیوں کہ ان غذاؤں کو محفوظ رکھنے کے لیے جو کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں، وہ جسم میں فِری ریڈیکلز کی تعداد میں اضافہ اور وٹامنز، خاص طور پر وٹامن بی12 کی مقدار کم کرتے ہیں۔

س:ماہرِ امراضِ جِلد سے علاج کروانے کی بجائے اکثر افراد گھریلو ٹونے ٹوٹکے بھی آزماتے ہیں،جب کہ سوشل میڈیا پر بھی کئی ٹوٹکےآسانی سے دستیاب ہیں؟ تو اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

ج:یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ برص سے متعلق جتنے بھی گھریلو ٹونے ٹوٹکے ہیں، ان میں سے ایک بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا۔ ہاں، اگر کسی کو ان ٹوٹکوں کے استعمال سے افاقہ ہوا ہو، تو وہ برص سے ملتے جُلتے کسی عارضے کا شکار ہوگا۔ ہمارے پاس اتائیوں سے علاج کروانے والے کئی مریض آتے ہیں، جنہیں علاج کی غرض سے کوئی مرہم دیا جاتا ہے۔ ہم نے اس مرہم کا جب ایک مستند لیبارٹری سےٹیسٹ کروایا تو پتا چلا کہ اس میں اسٹرائیڈز شامل تھے، تو برص کا علاج صرف ایک مستند ہی ڈرمٹالوجسٹ ہی کرسکتا ہے۔

س:بعض افراد کا کہنا ہے کہ یو وی بی نیرو بینڈتھراپی سے سرطان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، تو اس بات میں کہاں تک صداقت ہے؟

ج: یو وی بی نیرو بینڈ تھراپی میں استعمال کی جانے والی شعائیں، سورج کی روشنی میں بھی پائی جاتی ہیں،لہٰذا یہ قطعاً مضر نہیں۔ ویسے بھی ایشیائی مُمالک میں جِلد کے سرطان کی شرح بہت ہی کم ہے۔البتہ یورپ، امریکا وغیرہ جہاں جِلد کے سرطان کا خطرہ پایا جاتا ہے، خاص طور پر جِلد ٹائپ وَن، ٹو والوں میں، تووہاں ماہرِ امراضِ جِلد اس تھراپی کے سیشنز محدود تعداد میں کرتے ہیں۔یہاں اس بات کا ذکر بھی بہت ضروری ہے کہ جِلدی امراض کے ایک سرکاری اسپتال میں بھی اس تھراپی کی سہولت میسّرہے، تو اگر اس سے سرطان کا خطرہ ہوتا، تو کیا یہ مشین کسی سرکاری ادارے میں دستیاب ہوتی۔

س: کیا یہ سچ ہے کہ مچھلی کھانے کے بعد دودھ یا چائے وغیرہ پیئں ،تو برص لاحق ہوجاتا ہے؟

ج:یہ محض مفروضہ ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔مَیں نے اس حوالے سے کئی مستند تحقیقات پڑھی ہیں، لیکن اس بات کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملا۔

س:جِلد پر سفید دھبّے پڑ جانے کے ذہنی و نفسیاتی اثرات کس حد تک خطرناک ہوسکتے ہیں؟

ج:برص جان لیوا ہے، نہ اس سے جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ بس معاشرتی رویّوں کے باعث متاثرہ افراد، خاص طور پر جن کا چہرہ متاثر ہو، شدید ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں،جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ایسے افراد سوشل اینزائٹی محسوس کرتے ہیں۔ یعنی لوگوں سے بات کرتے گھبراتے ہیں،ہاتھ ملانے سے بھی کتراتے ہیں۔ ان کی خود اعتمادی کم ہونے لگتی ہے۔ مختلف سرگرمیوں میں حصّہ نہیں لیتے،الگ تھلگ رہتے ہیں۔ 

سوشل آئیڈئیشن(Social Ideation)کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ یعنی نظریۂ سازی کی ذہنی استعداد کم ہونے لگتی ہے۔ ہر بات کے منفی پہلو ہی پر سوچتے ہیں۔سو، میری عوام النّاس سے درخواست ہے کہ برص سے متاثرہ افراد سے عام لوگوں والا برتاؤ رکھیں۔ یہ ایک معمولی ڈس آرڈر ہے، جو اب مکمل طور پر قابلِ علاج بھی ہے، تو ان افراد کو علاج پر قائل کریں، نہ کہ ان سے کسی بھی قسم کا امتیازی رویّہ اختیار کریں۔

سفید دھبے، کَلنک کا ٹیکا نہیں
علاج سے پہلے

بیٹی کو صحت یاب ہوتا دیکھ کر بےحد مطمئن ہیں

عشرت اور محمّد نسیم خان کی شادی کو 11 برس ہوچُکے ہیں اور ان کی ایک ہی بیٹی عشال ہے۔ عشرت نے بتایا کہ جب ان کی بیٹی دو ڈھائی برس کی تھی، تو اُس کی آنکھ کے نیچے معمولی سا سفید دھبّا نمودار ہوا۔ مختلف ڈاکٹرز کو دکھایا۔ ایک ڈرمٹالوجسٹ کے علاج سے فائدہ بھی ہوا، لیکن جب عشال6برس کی ہوئی تو پھر دوبارہ اُسی جگہ دھبّا ظاہر ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جسم کے کئی حصّوں پر دھبّے نمودار ہونے لگے۔ 

سفید دھبے، کَلنک کا ٹیکا نہیں
علاج کے بعد

اس دوران مختلف ڈاکٹرز کا علاج جاری رہا،مگر افاقہ نہ ہوا۔2020ء میں عشال کے تقریباً پورے چہرے پر دھبّے پڑ چُکے تھے۔ بیٹی کی ماں ہوں، تو دِل میں کئی خدشات جنم لینے لگے۔ ان ہی دِنوں ڈاکٹر ایس ایم معین الدین کا پتا چلا تو اگست2020ء میں عشال کا علاج ان سے شروع کروایا اور الحمدللہ اب تقریباً سارے ہی دھبّے غائب ہوچُکے ہیں۔عشال کی ہفتے میں تین تھراپیز ہوتی ہیں اور علاج کے اخراجات بھی قابلِ برداشت ہیں۔ہم نے اس سے قبل بھی متعدّد ڈاکٹرز سے علاج کروایا، مگر اب بیٹی کو صحت یاب ہوتا دیکھ کر بےحد مطمئن ہیں۔

سفید دھبے، کَلنک کا ٹیکا نہیں
علاج سے پہلے

اولاد کی صحت یابی کے آگے اخراجات کچھ نہیں!!

حنا انجم کا 25سالہ بیٹا فہر اس وقت لندن اسکول آف اکنامکس سے وکالت کی تعلیم حاصل کررہا ہے اور وہ خود بھی شعبۂ تدریس سے وابستہ ہیں۔حنا کا کہنا ہے کہ جب ان کا بیٹا 17 برس کا تھا تو برص کا شکار ہوگیا۔کئی معالجین سے علاج کروایا، مگر وقتی طور پر ہی فائدہ ہوا۔ پھر جنگ، سنڈے میگزین میں ڈاکٹر ایس ایم معین الدّین کا مضمون پڑھ کر حوصلہ ملا کہ برص لاعلاج نہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے علاج شروع کروایا اور اب اللہ کا شُکر ہے کہ سفید دھبّے برائے نام رہ گئے ہیں۔ 

سفید دھبے، کَلنک کا ٹیکا نہیں
علاج کے بعد

رہی بات علاج کے اخراجات کی، تو والدین کا دِل بہت بڑا ہوتا ہے، اس لیے ہم نے اخراجات کی کبھی پروا نہیں کی۔ ویسے تو فہر برص کے سبب کسی احساسِ کم تری کا شکار نہیں ہوا، مگر لوگوں کے بار بار پوچھنے پر جھنجھلا ضرور جاتا تھا۔ تو خدارا! برص سے متاثرہ افراد سے اُلٹے سیدھے سوالات پوچھنا چھوڑ دیں۔ دانستہ بھلا کون کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ ہر بیماری اللہ کی طرف سے ہے اور شفا بھی وہی دیتا ہے۔

بیٹا تھراپی کے دوران گھبراتا ہے، نہ پریشان ہوتا ہے

سفید دھبے، کَلنک کا ٹیکا نہیں
علاج سے پہلے

یوسف عبدالرّزاق چار سال کا ہے۔ اس کی والدہ، مریم کا کہنا ہے کہ جب یوسف تین برس کا تھا، تو جسم پر سفید دھبّے ظاہر ہونے لگے۔ہم نے ایک معروف نجی اسپتال سے علاج کروایا، مگر کچھ خاص افاقہ نہیں ہوا۔ملنے جلنے والے یہی کہتے تھے کہ اب اپنے بیٹے کو سفید دھبّوں کے ساتھ دیکھنے کی عادت ڈال لو کہ یہ مرض لاعلاج ہے۔ 

سفید دھبے، کَلنک کا ٹیکا نہیں
علاج کے بعد

تب مَیں اللہ کے حضور گڑگڑا گڑگڑا کردُعائیں مانگتی تھی ۔ پھراللہ نے اس کے علاج کا وسیلہ بنایا اور یوسف کی ایک کلاس فیلو نے، جس کے بھائی کو بھی برص تھا، اپنی والدہ سے ہماری بات کروائی۔ اور ان کے توسّط سے ہم نے یہاں سے علاج شروع کیا۔ اللہ کا شُکر ہے، اب ہمارا بچّہ مکمل صحت مند ہے۔ 

اس نے ہمیں تھراپیز کے دوران بالکل پریشان نہیں کیا، البتہ کبھی کبھی پیکٹ فوڈز کے لیے ضد کرتا ہے، مگر پھر کسی نہ کسی نعم البدل پر راضی ہو ہی جاتا ہے۔

تازہ ترین