• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل ہونے جیسا کارنامہ سر انجام دینے سے پہلے کنونشن سینٹر اسلام آباد میں سینئر سٹیزنز یعنی ملک کے معمر شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے ہم بڈھوں کے لئے ایک پیکیج یعنی مراعات کا اعلان کیا تھا۔ تب میاں صاحب ملک کے وزیر اعظم تھے۔ دن اور تاریخ تو مجھے یاد نہیں سن مجھے یاد ہے۔ سن تھا انیس سو ننانوے۔ دوسرے روز پیکیج کے بارے میں خبریں شائع ہوئی تھیں اورٹیلی ویژن اور ریڈیو سے نشر ہوئی تھیں۔ تقریباً چودہ برس پرانی بات ہے۔ کچھ کچھ یاد ہے اگر وہ مراعات عمل میں آتیں تو ہم بڈھے تیزی سے زوال پذیر معاشرے میں لڑکھڑا کر اکثر گر پڑنے سے بچ جاتے۔ ایک دور تھا جب معاشرے میں اٹھنے بیٹھنے کی تربیت تعلیم کا حصہ ہوتی تھے۔ تنگ گلی میں سامنے سے آتے ہوئے بزرگ کو دیکھ کر نوجوان ایک طرف ہو کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ اب معمر اور بوڑھے زندگی کی تنگ گلیوں میں سامنے سے آتے ہوئے نوجوانوں کو دیکھ کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ تنگ گلی میں نوجوانوں کو گزر جانے کا راستہ دیتے ہوئے میں گٹر میں گر پڑا تھا۔ نوجوان کھلکھلاکر ہنس پڑے تھے۔ ایک کھلنڈرے نوجوان نے کہا تھا ”چاچا، اگر ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا تو پھر گھر سے کیوں نکلتا ہے!“
کاش میاں صاحب نے بڈھوں کے پیکیج پر عملدرآمد سے پہلے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے لئے ناقابل یقین کارنامہ سر انجام نہ دیا ہوتا تو آج ہم بڈھے میاں صاحب کے پیکیج سے فیضیاب ہو رہے ہوتے۔ پیکیج کے مطابق ہم ٹرین اور ہوائی جہاز میں پچاس فی صد رعایتی کرائے پر سفر کررہے ہوتے۔ بیمار پڑتے تو اسپتال میں خصوصی توجہ کا مرکز ہوتے۔ بینکوں میں ہم لوگوں کے لئے الگ کاؤنٹر ہوتے۔ ٹیکس میں چھوٹ ہوتی۔ کتاب اور اخبار آدھی قیمت پرملتے۔ میرے جیسے بوڑھے آخر عمر میں تنہا رہ جاتے تو ان کے لئے اولڈ ہاؤسز ہوتے۔ مر جاتے تو رودالیوں کو بین کرنے کے لئے بلاتے۔ مگر یہ سب ہو نہ سکا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے لئے غیر معمولی کارنامہ انجام دینے کے بعد میاں صاحب اپنی حکومت گنوا بیٹھے۔ مانا کہ انسان بیچارا بے بس اور کمزور ہے۔ شاید ہی ایسا کوئی شخص ہو جسے شوق نہ چرایا ہو۔ مثلاً زرداری کو کسی زمانے میں گھوڑے پالنے کا شوق چرایا تھا۔ ثقیل جملہ میں دوبارہ لکھنا چاہتا ہوں۔ کسی زمانے میں زرداری کو گھوڑنے پالنے کا شوق چرایا تھا تب وہ وزیر اعظم ہاؤس میں رہتا تھا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں زرداری نے اپنا کاروباری دفتر کھول رکھا تھا۔بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ کیا کام کرتا تھا، مگر میں نہیں جانتا۔ میں اس لئے نہیں جانتا کہ میں بچہ نہیں ہوں، میں کھڑوس بڈھا ہوں، کچھ نہیں جانتا۔ یاد رہے کہ میں سنی سنائی باتیں آپ کو سنا رہا ہوں۔ کاروباری معاملات کے علاوہ زرداری صاحب کا زیادہ تر وقت اپنے گھوڑوں کے ساتھ گزرتا تھا۔ ان کے گھوڑے پستے بادام اور کاجو کھاتے تھے اور انگریزی فلمیں دیکھتے تھے اور انگریزی میں ہنہناتے تھے۔ رحمن ملک کی مداخلت پر زرداری صاحب گھوڑے پالنے کے شوق سے دستبردار ہو گئے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ پھر سے املاک اکٹھا کرنے پر مرکوز کردی۔ کچھ لوگوں کو قدیم پوسٹل ٹکٹ جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ یہ ان کی ہابی ہوتی ہے،کچھ لوگوں کو پرانے سکّے جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے، کچھ لوگوں کو نوادرات جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے، کچھ لوگوں کو کتاب جمع کرکے لائبریری بنانے کا شوق ہوتا ہے۔ اسی طرح زرداری صاحب کو املاک جمع کرنے کا شوق ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ املاک جمع کرنا زرداری صاحب کی ہابی ہے۔ کوئی ٹھیک سے نہیں جانتا کہ یورپ، امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں ان کی املاک کی تعداد اور مالیت کتنی ہے!
میاں نواز شریف کو پھجّے کے پائے کھانے کا شوق تھا لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ میاں صاحب کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا کوئی غیر معمولی کارنامہ ریکارڈ کرانے کا بھی شوق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ایسا کوئی کارنامہ کر دکھائیں جس کا ثانی ماضی میں یا مستقبل میں بھی ممکن نہ ہو۔ سو انہوں نے ایک ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہوائی جہاز اکثر ہائی جیک ہوتے رہتے ہیں اور ہائی جیک ہوتے رہیں گے۔ہوائی جہاز ہائی جیک کرنا ایسا کوئی غیر معمولی کارنامہ نہیں ہے جس کے باعث ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل ہوسکے۔ آپ نے ٹھیک سوچا ہے۔ میاں صاحب بھی جانتے تھے کہ ایک ہوائی جہاز ہائی جیک کرنا کسی زاویئے سے غیر معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ دو چار ہائی جیکر مسافروں کے بھیس میں ہوائی جہاز میں سوار ہوتے ہیں، پرواز کے بعد پائلٹ کی کنپٹی پر ریوالور رکھ کر اسے اپنی مرضی کے مطابق جہاں لے جانا ہو جہاز وہیں لے جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جہاز اغوا کرنے کا یہ ایک عام اور عامیانہ طریقہ ہے۔ اس طرح جہاز ہائی جیک کرنے سے آپ کا کارنامہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کی زینت نہیں بن سکتا۔
مگر میاں نواز شریف نے ہائی جیکنگ کی تاریخ میں ایسا کارنامہ سر انجام کرکے دکھایا کہ دنیا انگشت بہ دنداں یعنی لوگوں نے دانتوں میں انگلیاں دے دیں۔جو لوگ زیادہ حیران ہوئے تھے انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے ہی دانتوں سے کاٹ کر زخمی کردیں۔ میاں نواز شریف جہاز میں مسافر بن کر سوار نہیں ہوئے نا ہی انہوں نے کاک پٹ میں داخل ہو کر پائلٹ کی کنپٹی پر بندوق رکھی تھی۔ میاں صاحب زمین پر تھے، ہوائی جہاز فضا میں تھا۔ میاں صاحب نے کمال مہارت سے فضا میں اڑتے ہوئے جہاز کو زمین سے ہائی جیک کرلیا۔ اس وقت گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے افسران کارنامے کی تصدیق کرنے کے لئے میاں صاحب کے ساتھ زمین پر موجود تھے۔ مگر افسوس، زمین سے فضا میں جہاز اغوا کرنے کا کامیاب مظاہرہ میاں صاحب کے کام نہ آیا۔ الٹا یہ کارنامہ میاں صاحب کے گلے پڑ گیا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے افسران نے یہ کہہ کر ریکارڈ قبول کرنے سے انکار کردیا کہ ہائی جیکنگ کے اصولوں کے مطابق جہاز کو ہائی جیکنگ کے بعد قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، عربستان، افغانستان یا کسی بیابان میں اترنا چاہئے تھا۔ پاکستان میں ہائی جیک ہونے والا طیارہ پاکستان کی سرزمین پر اترا۔ یہ ورلڈ ریکارڈ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے زمین سے آسمانوں میں پرواز کرتے ہوئے جہاز کو ہائی جیک کرنا بڑا ہی یکتا اور انوکھا کارنامہ ہے۔ دوسری بدبختی یہ کہ اسی جہاز میں ایک سو باسٹھ مسافروں کے ہمراہ جنرل پرویز مشرف بھی سوار تھا سوائے مشرف کے کسی کو پتہ نہیں چلا کہ جہاز اغوا ہوا تھا، بخیر و خوبی سے جہاز لینڈ ہوا۔ ایک سو باسٹھ مسافروں کے ساتھ جہاز سے باہر آتے ہی جنرل مشرف نے شور مچا دیا کہ میاں نواز شریف نے مجھے مارنے کی کوشش کی تھی، جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ نواز شریف مجھے چکھنے سے محروم رہ گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس پاداش میں میاں صاحب کی حکومت برخاست کردی، ان کو اقدام قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا اور ملک پر مارشل لاء مسلط کردیا۔ ججوں نے جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو سراہتے ہوئے اس کی توثیق کردی۔ زمین سے فضا میں اڑتے ہوئے جہاز کو ہائی جیک کرنے اور ایک سو باسٹھ مسافروں میں سے صرف جنرل پرویز مشرف کو مار ڈالنے کا منصوبہ بنانے کی پاداش میں میاں صاحب کو دس برس کے لئے ملک بدر ہونا پڑا۔
یہ معلوم کرنے کے بعد آیا کہ بوڑھوں کو ملنے والی مراعات میں آزادی اظہار کی رعایت شامل ہے، میں میاں صاحب کا شاگرد بنوں گا اور ان سے زمین سے آسمانوں میں اڑتے ہوئے جہاز کو ہائی جیک کرنے کا گر سیکھوں گا۔ ویسے زمین سے فضا میں پرواز کرتے ہوئے جہاز کو اغوا کرنے کا قصہ صرف پرویز مشرف اور ان جج صاحبان کی سمجھ میں آیا تھا جنہوں نے میاں صاحب کو جلا وطنی کی سزا دی تھی۔ مگر یہ قصہ سولہ کروڑ پاکستانیوں کی سمجھ میں نہیں آیا تھا اور نہ آج تک سمجھ میں آیا ہے۔
تازہ ترین