• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذمہ داری کس کی ہے ان سترہ معصوم جانوں کے ضیاع کی؟یوں تو شاید بس مالک کی ذمہ داری ہوجس نے وین کی باقاعدہ دیکھ بھال نہیں کروائی،یا شاید اس ڈرائیور کی جس نے پٹرول اور گیس کے اخراج پر توجہ نہیں دی۔ان افسران کو بھی ذمہ دارٹھہرایا جا سکتا ہے جو فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں یا سرٹیفیکیٹ کے بغیر سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کو چیک کرتے ہیں۔ان سب نے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوتاہی کی ہے،شدید کوتاہی۔ممکن ہے انہیں کچھ سزا بھی ملے،ممکن ہے نہ ملے کہ یہاں قانون اندھا ہے۔ اندھا تو کیا ہے، اس نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، سے کچھ نظر ہی نہیں آتا،جرم نہ مجرم۔
یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے، مگر بہت تکلیف دہ ہے۔سولہ معصوم بچوں اور ایک محترم معلمہ کا جل کر ہلاک ہوجانا ، یہ بھیانک تصو رہے، اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وین میں اچانک آگ بھڑک اٹھتی ہے، بچّوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ، معصوم بچّوں کی چیخ و پکار، آگ بجھانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے،آگ بڑھتی جا رہی ہے،باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بچّے ہیں اور موت، کربناک موت ،کا بڑھتا ہوا ہاتھ۔ ایک اکیلی معلمہ ہیں،بے یارو مددگار، ڈرائیورگاڑی جلتی چھوڑ کر فرار ہو گیا ہے۔ اس نے بے غیرتی کا بھی ثبوت دیا، لا پرواء تو وہ تھا ہی۔معلّمہ بچوں کو بچانے کی کوشش کرتی رہیں، ان کے اپنے عزیز بھی آگ کی لپیٹ میں تھے، یوں تو سب ہی ان کے اپنے تھے ، اپنی جان کی پرواء انہوں نے نہیں کی، شہید وہ بھی ہو گئیں۔ جن ماں باپ سے ان کے بچّے چھین لئے گئے ان کا دکھ بے پناہ ہے، اس کا کوئی مداوا نہیں ہو سکتا، کوئی معاوضہ ان کے جگر گوشوں کا بدل نہیں ہو سکتا۔ یہ ہنستے کھیلتے گھر سے گئے تھے، ان کی جھلسی ہوئی نعشیں واپس آئیں۔ بچوں کی موت پر ماؤں کے کلیجے پھٹ جاتے ہیں۔ اس ماں کی کیا حالت ہوگی جس کے تین چھوٹے چھوٹے معصوم بچے شعلوں کی نذر ہو گئے، اس کی تو زندگی ہی اجڑ گئی۔ ان سب ماؤں اور باپوں کی آنکھوں کے تارے ان سے چھین لئے گئے، ان کی زندگی ویران کردی گئی۔ انہیں تسلّی بھی نہیں دی جا سکتی ۔ اس کیلئے پہا ڑ سا دل چاہئے۔ دعا کی جا سکتی ہے ، اللہ انہیں صبر دے، اللہ انہیں صبر دے۔
کئی مرتبہ اس طرح کے حادثے ہو چکے ہیں،کوئی کان ایسا نہ تھا جس پر جوں رینگی ہو۔حادثہ جانکاہ کے بعد تھوڑا شوراُٹھتاہے،بیان بازی ہوتی ہے او رمعاوضے کا اعلان۔اور زندگی اسی بے ڈھنگے پن سے چلتی رہتی ہے، کسی اگلے حادثہ تک… مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔سب جانتے ہیں تھوڑے دن شور شرابا ہوگا، پھر خاموشی چھا جا ئے گی، سناٹا چھا جائے گا۔
پچھلے دنوں کراچی میں ایک فیکٹری میں آگ لگی،ساڑھے تین سو لوگ زندہ جل گئے یا دم گھٹنے سے جاں بحق ہو گئے۔آج تک اصل وجہ تلاش نہیں کی گئی۔لاہور میں اُس ادارے کی عمارت جل گئی جو شہر میں تعمیرات پر نظر رکھنے کا ذمہ دار ہے۔مسئلہ یہ نہیں کہ آگ لگی، مسئلہ اِس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔اس عمارت میں ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے راستے بند تھے،کہیں بوریاں حائل تھیں، کہیں تالے۔آگ لگنے کی وجہ اہمیت نہیں رکھتی،شار ٹ سرکٹ یا شرارت، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ توجہ کوتاہی پر دینی چاہئے۔ ہلاکتوں کی اصل وجہ تلاش کی جانی چاہئے۔ گجرات کے قریب جلنے والی وین میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔کبھی نہیں ہوتا،کسے فکر ہے۔ اگر انتظام ہوتا تو آگ پر قابو پا یا جا سکتا تھا،یا اگر وہ مشکل ہوتا تو باہر نکلنے کا کوئی دروازہ ہوتا، تاکہ معصوم بچّوں کی جانیں بچائی جا سکتیں۔ایسا کوئی انتظام نہیں تھا۔اور یہی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ خواہ سڑک پر وین اور بسوں کی شکل میں چلتے پھرتے یہ بارود کے ڈھیر ہوں یا پورے ملک میں بنے ہوئے آتش فشاں،جو عمارتیں کہلاتی ہیں،ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جن میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کا بندوبست ہوگا،معقول اور ناکافی کی بحث تو الگ رہی۔ کتابوں میں لکھے قوانین دیکھیں تو بہت سی پابندیاں ہیں جوبس والوں،وین والوں اور عمارتیں تعمیر کرنے والوں پر عائد ہوتی ہیں۔بسوں میں آگ بجھانے کے آلات ہونے چاہئیں۔ان میں باہر نکلنے کا اضافی دروازہ ہونا چاہئے۔اورگیس سلنڈرکی ہر پانچ سال بعد ایک مرتبہ باقاعدہ چیکنگ ہونی چاہئے۔اسی طرح عمارتوں میں آگ بجھانے کے آلات ہونے چاہئیں،آگ لگنے کی صورت میں باہرنکلنے کے راستے ہونے چاہئیں۔یہ سب کتابوں میں لکھا ہوا، بدقسمتی کہیں یا لاپروائی، یہ وہیں لکھارہ جاتا ہے،اس پر عمل نہیں ہوتا۔کوئی نہیں دیکھتاکہ ایک خستہ حال بس سڑک پر کیسے چل رہی ہے،اس میں آگ بجھانے کا کوئی آلہ نہیں ہے،باہر نکلنے کا کوئی دوسرا دروازہ نہیں ہے، اگرکبھی تھاتواب بندکردیاگیاہے۔اس کی چھتوں پربھی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔مگر یہ کون دیکھے؟جنھیں دیکھنا چاہئے وہ صرف اپنی مٹھی دیکھتے ہیں،گرم ہو گئی یا نہیں۔مٹھی اگر گرم ہوجائے تو اندھے کو بھی ڈرائیونگ لائسنس جاری ہوجاتا ہے۔وہ جو اس طرح کے بدعنوان لوگوں کے اوپر براجمان ہیں انہیں یہ سب نظر نہیں آتا، وہ بھی بد عنوان ہیں، وہ بھی اس خرابی کے ذمہ دار ہیں ۔
ذمہ دار تو ہم سب ہیں،آپ اور میں،اور وہ سب جو یہ خرابیاں دیکھتے ہیں اور خاموشی سے آگے بڑھ جاتے ہیں،جب ہم نظریں چرا کر گز ر جاتے ہیں تو کیا ہم اس جرم میں شریک نہیں ہوجاتے؟ایک آسان جواب ہے،یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے،اس ادارے یا افراد کی ہے جنھیں اس کام پر مامور کیا گیا ہے۔مگر کیا یہ جواب درست ہے؟انتخابات میں دھاندلی ہو تو ہم سب شور مچاتے ہیں،کبھی اتنا کہ حکومت کا تختہ تک الٹ جاتا ہے،کبھی کم۔کوئی آمر اپنی ترنگ میں عدلیہ کے خلاف کارروائی کربیٹھے، ذرائع ابلاغ پر پابندی لگا دے، اور اس طرح کے بہت سے معاملات میں ہم سڑکوں پر آجاتے ہیں،شور مچاتے ہیں،ہنگامہ کرتے ہیں،ٹھیک کرتے ہیں ضروری بھی ہوتا ہے۔اور ضروری یہ بھی ہے کہ دوسرے قوانین پر عمل درآمد کیلئے بھی ہم اپنی آواز اُٹھائیںآ خر بسیں قانون کے مطابق ٹھیک کیوں نہیں رکھی جاسکتیں؟ شہریوں کی ضرورت کے مطابق ٹرانسپورٹ فراہم کرنا اگر حکومت کی ذمہ داری نہیں تو کس کی ہے؟ اور روزگار کی تلاش میں جانے والے عام شہریوں کی، تعلیم کے حصول کیلئے جانے والے معصوم بچوں کی جانیں بچانا،انہیں خطرات سے محفوظ رکھنا،اس کیلئے کوششیں کرنا،کیا ہماری ذمہ داری نہیں ہے؟یہ سوال ہم اپنے آپ سے بھی کریں،اپنے گریبان میں جھانکیں،ہماری بھی تو کوئی ذمہ داری ہے۔
تازہ ترین