• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال تقریباً دس لاکھ افراد اپنے ہاتھوں موت کو گلے لگا لیتے ہیں، آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہ تعداد ہر ایک لاکھ میں سے 16 بنتی ہے۔ یہ تعداد دنیا میں ہونے والی اموات کا 1.8 فیصد ہے۔ اوسطاً دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کے باعث موت کا شکار ہوتا ہے، پچھلے 45سالوں میں اس تعداد میں تقریباً 60 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔دوسرے ممالک میں خودکشی کے واقعات کے محرکات تنہائی، بیگانگی، ڈیپریشن اور اس نوع کے دوسرے عوامل ہیںمگر ہمارے ہاں خودکشی کے بیشتر واقعات کو بدنامی کے ڈر سے رپورٹ نہیں کیا جاتا ہے اور اسی باعث درست اعداد و شمار دستیاب بھی ہو پاتے۔واضح رہے کہ پی پی سی 309 ضابطۂ فوجداری کے تحت خودکشی اور اقدام خودکشی ایک قابل تعزیز عمل ہے۔اس کے باوجود ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 6 ہزار سے 8 ہزار لوگ خودکشی کرتے ہیں۔خودکشی کے سب سے زیادہ کیسز سندھ اورپنجاب میںرپورٹ ہوتے ہیں جبکہ غیر مؤثر رپورٹنگ سسٹم کی وجہ سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے درست اعدادوشمار سامنے نہیں آپاتے۔ خودکشیوں کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہونے والی سو خودکشیوں میں واحد بنیادی اور اہم عنصر ڈپریشن رہا ہے جبکہ اس سے جڑی دوسری وجوہ میں گھریلو تنازعات، مالی مسائل اور بیروزگاری وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں بیشتر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور اسلامی تعلیمات میں بھی خودکشی کی سخت ممانعت ہے مگر اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں ڈیرپشن، ناامیدی، خوف اور بے توکلی نے انسان کے اندر سے جینے کی امنگ کو ختم کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلہ کو قانونی سے زیادہ ایک معاشرتی مرض سمجھ کر اس پر توجہ دی جائے اور خودکشیوں کے اسباب کو کم کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ مایوس افراد میں جینے کی امنگ پیدا ہو۔
تازہ ترین