• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ماہ ایک کالم میں اس دیس کے ’’بھیس‘‘ یعنی یہاں رائج لباس کی کچھ اقسام عرض کی گئیں ۔ نیز مستقبل قریب میں مزید اقسام بیان کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا ۔ آج یہ وعدہ جزوی طور پر وفا کیا جاتا ہے۔ یعنی آج کے کالم میں بھی جگہ نہ پانے والی لباس کی باقی اقسام آئندہ کے کالم میں پیش کی جائیں گی۔
شریفانہ لباس: اس شریف معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے لئے لازم ہے کہ بندہ خود شریف ہو یا نہ ہو مگراس کا لباس ضرور شریفانہ ہونا چاہئے ۔ اگر بندہ بابرہ شریف کی طرح خود بھی شریف اور اس کا لباس بھی شریفانہ ہو تو سونے پہ سہاگہ ہے ۔ یہاں ایک ’’شریفانہ لباس‘‘ وہ بھی رائج ہے ، بلکہ ’’سکہ رائج الوقت‘‘ ہے کہ جس سے سارے بد معاش اور شریف ڈرتے ہیں ۔
میچنگ لباس: یہ لباس خواتین سے منسوب ہے ،جس کی تیاری بڑا جان جوکھوں کا کام ہے اور پیراہن کے علاوہ ہیئر اسٹائل سے لے کر جوتوں تک اور زیورات سے لے کر پرس تک ،حتیٰ کہ لپ اسٹک ،آئی شیڈ ،نیل پالش، دوپٹے اور جانے کس کس چیز کاباریک بینی سے خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ ایک جدید تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خواتین جتنا وقت اور دماغ لباس کی میچنگ پر صرف کرتی ہیں ، اتنا سائنس پر کیا جائے تو کوئی نئی چیز ایجاد ہو سکتی ہے۔ تاہم اس میچنگ کی بیکراں محنت سے تقاریب سے لے کر اسمبلیوں تک خوشبوئوں ، کھلے چہروں ، ہری ، نیلی ، پیلی، اُودی ، سرخ پوشاکوں ، گھیر دار فراکوں اور چوڑی دار پاجاموں وغیرہ کی وہ بہار جلوہ افروز ہوتی ہے کہ اللہ معافی۔ یہ لباس اتنا حساس ہے کہ اگر کوئی ایک چیز بھی میچ نہ کر رہی ہو تو بھری تقریب میں ناک کٹ جاتی ہے اور اس بد ذوقی پر گھنٹوں غیبت …سوری ،بحث ہوتی ہے ۔
حجابانہ لباس: یہ باوقار لباس بھی کہلاتا ہے اور اسے بھی خواتین ہی پہنتی ہیں ۔ یہ کبھی رضا کارانہ طو رپر اور کبھی بااَمر مجبوری اپنایا جاتا ہے ۔ تاہم گاہے اسے حسن ،وزن اور عمر کا بھرم رکھنے کی خاطر بھی زیب تن کیا جاتا ہے ۔ کبھی کبھار آپ نے پبلک مقامات پر ایسی ’’ مستورات‘‘ کا یقینا بغور جائزہ لیا ہوگا۔ جو بطور خاص اہتمام کرتی ہیں کہ برقع کے اندر سے بھی لباس کی میچنگ اور جدت صاف نظر آئے اور نگاہ مست اور نگاہ شوق کے درمیان حجاب کیدو نہ بن سکے ۔ ایسے مقامات پر بھونڈوں کے لئے تحقیق اور جستجو کے در وَا ہوتے ہیں اور وہ ان مقامات کے گرد یوں چکر لگاتے ہیں جیسے زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ۔
جیب کٹا لباس: اس لباس کو پیشہ ور مشٹنڈے بھکاری اور پوڈری پہنتے ہیں اور لاری اڈوں پر اپنے لباس کی کٹی جیب دکھا کر بس کا کرایہ مانگتے ہیں ۔ اس لباس کی جیب ’’جماندرو ‘‘ یعنی پیدائشی طور پر کٹی ہوتی ہے ، جیسے کئی ملکوں کے کشکول کا سرے سے پیندا ہی نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار جب قومی دولت لوٹنے والوں کا کوئی اسکینڈل منظر عام پر آتا ہے تو لٹیرے بھی یہی لباس پہن کر اپنی خالی ، کٹی جیب دکھا کر کہتے ہیں کہ میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں ۔ حالانکہ یہ سب فریب ، فراڈ، دھوکہ اور جھوٹ ہوتا ہے جبکہ بغیر جیب کا اصل ، معتبر اور مستند لباس تو کفن ہے ، جس پر کسی کی نظر نہیں ہوتی ، نہ بھکاریوں کی ، نہ شکاریوں کی ۔
پروفیسر انہ لباس: ایک پروفیسر صاحب کلاس میں آئے تو انہوں نے دونوں پائوں میں دو مختلف رنگوں کی جرابیں پہن رکھی تھیں ۔ طالب علموں نے اس نئے فیشن کے بارے میں استفسار کیا تو پروفیسر بولے کہ میں خود حیران ہوں کہ ہو بہو اسی طرح کا ایک جوڑا گھر میں بھی پڑا ہوا ہے ۔ یہ پروفیسرانہ لباس کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے ۔مزید تفصیل میں جانے سے پروفیسر دوست ناراض ہو سکتے ہیں ۔
عاشقانہ لباس: محبت کے آغاز میں جب زندگی نثر سے نظم میں ڈھلتی ہے تو ایسے لباس خوب جچتے ہیں کہ …ریشم دا لاچا لک وے ، نالے پھُلاں دے گجرے ہتھ وے …ہمارے بہت ہی پیارے انور شعورؔ نے اس لباس کی طرف یوں لطیف سا اشارہ کیا ہے کہ :
میں تمہارا بن گیا ہوں
ٹاٹ مخمل ہو گیا ہے
ایک دوسرے کا لباس: میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے ، جو باہمی ستر پوشی کا کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے عیب چھپاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بعض اوقات ’’دولت کی منصفانہ باہمی تقسیم ‘‘کے لئے سیاسی جماعتیں ، تفتیشی و تحقیقاتی ادارے اور انصاف کے ایوان ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو ننگا ہونے سے بچاتے ہیں ۔
فرمائشی لباس: یہ لباس دوسروں کی فرمائش پر پہنا جاتا ہے ، جیسے …اَج کالا جوڑا پا ، ساڈی فرمائش تے …کس کافر کو مفر ہے کہ کھلی رنگت پر کالا جوڑا خوب جچتا ہے ۔
ظریفانہ لباس: اس لباس سے خواجہ سرا ستر پوشی کو بد نام کرتے ہیں ۔ مزید تفصیلات جاننے کے لئے ملاحظہ فرمائیے کوئی الہڑا سا ہیجڑہ۔ کبھی جب منچلے نوجوان ترنگ میں آ کر ایسا لباس پہنتے ہیں تو یہ ستم ظریفانہ لباس ہو جاتا ہے۔
تازہ ترین