• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اگر فرض کریں آپ پی ٹی آئی کے ایم این ہوتے تو آپ کیا حفیظ شیخ کو خوشی سے ووٹ دے کر سینیٹر منتخب کرواتے ؟وہ حفیظ شیخ جو پہلے مشرف کے ساتھ تھے، پھر زرداری کے ساتھ اور مستقل آئی ایم ایف کے ساتھ۔ جوحکومت میں تو شامل ہیں لیکن پی ٹی آئی میں سینیٹ کا ٹکٹ ملنے کے بعد شامل ہوں گے ۔

جو روز مہنگائی کروا ، ٹیکس بڑھا کر، بجلی اور گیس مہنگی کرکے بطور ایم این اے آپ کو اپنے حلقے میں ووٹرز کے سامنے شرمندہ کررہے ہیں ۔ عمران خان کے ساتھ پندرہ بیس سال جھک کچھ اور لوگوں نے ماری لیکن وہ روز عمران خان کے پاس بیٹھے انہیں ڈکٹیٹ کررہے ہوتے ہیں جبکہ آپ ایم این اے ہوکر بھی عمران خان تو کیا ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے بھی ملنے کا تصور نہیں کرسکتے ۔

عام ایم این اے تو کیا خود اسد عمر بھی کیا دل سے چاہے گا کہ ان کو وزارت خزانہ سے نکالنے والے حفیظ شیخ سینیٹر بن کر ان کے لئے مستقل چیلنج بنا رہے ۔آپ اگر خیبر پختونخوا اسمبلی کے پی ٹی آئی کے رکن ہوں تو آپ ثانیہ نشتر کو کیوں خوشی سے ووٹ دیں گے ؟ جو اب ٹکٹ ملنے کے بعد پارٹی میں شامل ہورہی ہیں ۔

آپ فیصل سلیم کو کیوں ووٹ دیتے جن کی واحد کوالیفکیشن یہ ہے کہ وہ بڑی سگریٹ انڈسٹری کے مالک اور پارٹی کے کچھ رہنماوں کے اے ٹی ایم ہیں۔ علی ہذالقیاس آپ اگر پنجاب اسمبلی کے پی ٹی آئی کے رکن ہوں تو آپ علی ظفر کو کیوں خوشی سے ووٹ دینا چاہیں گے جن کا ماضی میں پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ ان کےوالد مسلم لیگی اورپرویز مشرف کے وزیرقانون تھے لیکن علی ظفر نے پی ٹی آئی حکومت پہلے جوائن کی اور پارٹی میں اب شمولیت اختیار کریں گے

۔آپ اگر سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رکن ہوتے تو سیف اللہ ابڑو کو ووٹ کیوں دیتے ؟ جن کی واحد کوالیفیکیشن ارب پتی ہونا ہے اور جن کے بارے میں خود پی ٹی آئی سندھ کے عہدیدار تحریری شکایت کرچکے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے بعض رہنماوں کے اے ٹی ایم ہیں ۔ ویسے جملہ معترضہ کے طور پر عرض کروں کہ بدنام صرف جہانگیر ترین تھے کہ وہ عمران خان صاحب کے اے ٹی ایم ہیں لیکن یہاں تو پتہ چلا کہ پی ٹی آئی میں ہر طرف اے ٹی ایم ہی اے ٹی ایم ہیں اور خود پارٹی عہدیداروں کے شکایتی خطوط میں نشاندہی کی جارہی ہے کہ فلاں امیدوار ،فلاں رہنما کا اے ٹی ایم ہے ۔

تاہم معاملہ یہاں پر آکر نہیں رکتا ۔ ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں جبکہ عمران خان ابھی ایکسپوز نہیں ہوئے تھے اور جبکہ حفیظ شیخ ، زلفی بخاری اور ثانیہ نشتر پیراشوٹرز نہیں اترے تھے، تو اس وقت بھی صرف پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کے دو درجن ایم پی ایز جن میں ایک وزیر اور ایک مشیر بھی شامل تھے، بک گئے تھے تو نہ جانے اب کیا صورت حال ہوگی ؟ لیکن مسئلہ اس بار ایک اور حوالے سے بھی سنگین ہے ۔

وہ یوں کہ پرویز خٹک ، اسد قیصر اور اسد عمر جنہیں سینیٹ الیکشن کے دوران لوگوں کو قابو رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ، وہ بھی دل سے کام نہیں کریں گے ۔

دوسری طرف پنجاب میں اصل گرو گورنر چوہدری سرور ہیں لیکن وہ پچھلی مرتبہ کی طرح زور نہیں لگائیں گے اور جہاں تک بزدار صاحب کا تعلق ہے وہ تو اس معاملے میں بھی جادو کی چھڑی کے منتظر رہیں گے ۔ بلوچستان میں جب انتخابات ہورہے تھے تو صوبائی صدر سردار یار محمد رند تھے لیکن اب ان سے صدارت لے لی گئی ہے اور صوبے کو زونز میں تقسیم کیاگیا ہے ۔

رند صاحب جام کی کابینہ کے رکن ہیں لیکن جام اور رند کے ٹکراو کا یہ عالم ہے کہ بات چیت تک بند ہے ۔ بلوچستان کے سب سے بڑے قبیلے اور ماضی میں وفاقی وزیر رہنے والے یار محمد رند سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مسلسل وعدہ خلافی ہوئی ۔

عمران خان وہاں پارٹی معاملات کے لئے ڈپٹی ا سپیکر قاسم سوری کی طرف دیکھتے ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ وہ کیسے منتخب ہوئے اور اب کیسے سپریم کورٹ کے ا سٹے پر چل رہے ہیں۔

سندھ کی حالت اور بھی تشویشناک ہے ۔ وہاں کی تنظمیں ابڑو کے بارے میں تو واضح کرچکی ہیں کہ وہ بعض رہنماوں کے اے ٹی ایم ہیں۔دوسری طرف فیصل واوڈا کو عمران خان نے ٹکٹ دیا ہے اور وہ بہ ہر صورت انہیں سینیٹ میں لانا چاہتے ہیں لیکن گورنر عمران اسماعیل اور علی زیدی فیصل واوڈا کی جگہ محمودمولوی کوسینیٹر بنوانا چاہتے ہیں جو ارب پتی ہونے کے ساتھ ساتھ علی زیدی کے بھی لاڈلے ہیں۔

دوسری طرف پی ڈی ایم میں شامل دونوں بڑی جماعتوں نے اس مرتبہ ٹکٹوں کی الاٹمنٹ میں کافی حد تک میرٹ سے کام لیا ہے ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے بھی بعض ٹکٹ صاحب ثروت لوگوں کو الاٹ کئے ہیں لیکن کوئی بھی ایسا نہیں کہ جن کو پارٹی میں نووارد یا پیراشوٹر سمجھا جائے پیپلز پارٹی نے رحمان ملک کو ڈراپ کرکے فرحت اللہ بابر کو ٹکٹ دیا جن کے پاس کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت فیس بھی پوری نہیں ہورہی تھی جبکہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ حاصل کرنے والوں میں اکثریت مریم نواز گروپ کی نظر آتی ہے تاہم سب سے دلچسپ کام پی ڈی ایم نے اسلام آباد سے یوسف رضاگیلانی کو مشترکہ امیدوار کی صورت میں کیا ہے ۔ اگر خفیہ ووٹنگ ہو تو اس صورت میں ان کی جیت کے بارے میں پی ڈی ایم کی قیادت مطمئن ہے ۔

یوسف رضا گیلانی کی ذاتی رشتہ داریاں جی ڈی اے کے رہنماوں سے لے کر پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماوں تک پھیلی ہوئی ہیں ۔کابینہ میں کئی ایک جبکہ قومی اسمبلی میں درجنوں ایسے لوگ بیٹھے ہیں جنہیں یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم بہت نوازا ہے ۔یوں اصل مقابلہ مرکز میں ہوگا ۔ اور اگر یوسف رضا گیلانی جیت گئے تو اپوزیشن اسے عمران خان پر عدم اعتماد سے تعبیر کرے گی۔

اپوزیشن گیلانی صاحب کی جیت کے بارے میں زرداری فارمولے کی وجہ سے مطمئن ہے ۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو پی ڈی ایم کے پہلے والے موقف سے دستبردار کروانے کے بدلے میں یقین دلایا گیا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں وہ کچھ نہیں ہوگا جو 2018 کے الیکشن میں یا پھر گلگت بلتستان کے الیکشن میں یا پھر چیرمین سینیٹ کے عدم اعتماد کے معاملے میں ہوا۔

یوں اگر مقابلہ صرف حکومت اور اپوزیشن کا رہے تو اس صورت میں اپوزیشن کی جیت یقینی نظر آتی ہے لیکن اگر2018کے الیکشن، چیئرمین سینیٹ یا گلگت بلتستان کے الیکشن جیسے عمل کو دہرایا گیا تو اس صورت میں حکومت کی جیت یقینی ہوگی ۔

صرف حکومت اور اپوزیشن کا میچ ہونے کی صورت میں صوبوں سے بھی پی ٹی آئی کو سرپرائزز مل سکتے ہیں اور اس صورت میں گیلانی صاحب کے چیرمین سینیٹ بننے کے چانسز بھی بڑھ سکتے ہیں لیکن اگر ماضی کو دہرایا گیا تو پھر شاید زرداری صاحب اور پی ڈی ایم کے دیگر رہنما ہاتھ ملتے رہ جائیں۔

تازہ ترین